جدید ادب

اتوار 11 اکتوبر 2020

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

میں نے چند دن ہوئے ایک بندر خریدا تھا لکھنے کو کچھ اور نہ تھا سوچا اس کا تذکرہ ہی ہوجائے آپ کہو گے کہ بھینس یا گائے کی بجائے میں نے بندر کیوں خریدا ؟ صاف بات تو یہ ہے کہ بھینس یا گائے خرید نا میری بساط سے باہر تھا اور اگر خرید بھی لیتا توپھر اس کے رکھنے کے لئے میرے پاس جگہ کہاں تھی یہاں تو بڑی مشکل سے اپنا سر چھپانے کے لئے ایک جھونپڑی ہے اور ویسے بھی ”شہرکوصاف“رکھنے کے لیے ضلعی حکومت نے گائے ‘بھینسوں کو تو شہر سے باہر نکال دیا البتہ ”گدھے“شہر میں رہتے ہیں ‘گدھوں کی بھی کئی قسمیں ہوتی ہیں فی الوقت دو قسموں کے گدھوں کا تذکرہ ہی مناسب ہے ایک گدھا تو ہوتا ہی گدھا ہے جس کی چار ٹانگیں اور ایک دم ہوتی ہے اور دوسرا......... دو ٹانگوں والے گدھوں کی تعدادمیں اضافے سے چار ٹانگوں والوں گدھوں میں تشویش پائی جاتی ہے ‘ہاں تو بات ہورہی تھی بندر کی‘ بندر ایک نہایت دلچسپ جانور ہے ۔

(جاری ہے)

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بندر بد صورت جانور ہے مجھے اس سے اختلاف ہے میں نے ہزاروں انسان دیکھے ہیں جوبندر سے بھی بد صورت ہوتے ہیں‘ اس بندر میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں ‘ میں نے کئی دفعہ اس سے سوال کیا ہے ‘ انتہاپسند ہو یا روشن خیال؟ہر بار اس نے یہی جواب دیا”میں تو بندر ہوں“میں پوچھا کہا رہنا چاہتے ہوں پاکستان میں یورپ میں بولا ”جنگل میں “”انتہا پسند اچھے ہیں یا روشن خیال“؟” بندر دنوں سے اچھے ہیں“؟عجیب مسخرا ہے ‘ سارا دن ایک ہی بات کی رٹ لگاتا رہتا ہے کہ ”ڈار ون بھی ایک چغد تھا“ ایک دن میں نے پوچھا ۔

یہ تم ڈار ون کو ہر وقت کیوں ستے رہتے ہو؟نہایت سنجیدہ صورت بنا کر کہنے گا ، کم بخت انسان کو بندروں کی اولاد ثابت کر کے ہمیں ہمیشہ کے لئے رسوا کر گیا “چند دن ہوئے میں نے ایک کتاب پڑھی تھی جس میں اس موضوع پر بحث کی گئی تھی کہ آیا ”ریلوے ٹائم ٹیبل“ ادب ہے یانہیں‘ مصنف کی رائے میں ریلوے ٹائم ٹیبل ادب کی صفت سے خارج ہے مجھے اس سے اتفاق نہیں ۔

میرے خیال میں ریلوے ٹائم ٹیبل بڑے کام کی چیز ہے ۔اور جو چیز کام کی ہو اسے ”ادب “ کا درجہ دیا جا سکتا ہے ۔ اگر پرانے ادب کا نہیں تو کم از کم نئے ادب کا ۔”نیا ادب“ بھی میری ناقص دانست میں اس لیے نیا ادب ہے کہ اس میں ”ادب“کے علاوہ باقی سب کچھ پایا جاتا ہے ‘ ریلوے ٹایم ٹیبل میں اشتہارات بھی ہوتے ہیں جن کی ادبی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اس کے علاوہ اس میں سفر کے متعلق نہایت کارآمد ہدایات ہوتی ہیں‘ اگر سفر زندگی کا دوسرا نام ہے ‘ توریلوے ٹائم ٹیبل ادب برائے زندگی ہے آپ کہیں گے یہ عجیب منطق ہے ‘ مجھے اس سے بحث نہیں ‘ میں تو یہ جانتا ہوں کہ بہت سی کتب جنہیں ہم ادب عالیہ کے نام سے یاد کرتے ہیں‘ افادیت کے لحاظ سے ریلوے ٹائم ٹیبل ان سے کہیں بہترہے‘ کم از کم آپ ریلوے ٹائم ٹیبل کو سمجھ سکتے ہیں ۔

لیکن بیشتر جدید ادبی تخلیقات کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا۔ ادب کیا ہے ؟ سچی بات تو یہ ہے کہ میں خود نہیں جانتا ۔ ادب کا ذکر کرتے ہوئے لازماًمجھے ادیبوں کا خیال آتا ہے ۔ادیب کون ہے ؟ اس سوال کا صاف اور سیدھا جواب تو یہ ہے کہ شاید کوئی نہیں‘ شاید گزرے وقتوں میں یہاں ادیب ہوتے ہوں گے ۔ لیکن بات زمانہ حال کی چل رہی ہے یہ صحیح ہے کہ چند لوگ کبھی کبھی ادیب ہونے کا دعویٰ ضرور کرتے ہیں لیکن صرف دعویٰ کرنے سے کیا ہوتا ہے ایک نقاد کی رائے میں ادیب وہ ہے جس کی قدر اس کے مرنے کے بعد کی جاتی ہے‘ پاکستان میں اب ادیب کیوں پیدا نہیں ہوتے ؟ اس کی کئی وجہیں ہیں سب سے پہلی یہ کہ وہ یہاں پیدا ہونا نہیں چاہتے‘دوسری یہ کہ اگر غلطی یا اتفاق سے پیدا ہو جاتے ہیں تو انہیں یہاں کی آب وہوا راس نہیں آتی اور بہت جلد وہ ادب کا چوغہ اتار کرکلر کی یا مکالمہ نویسی کا طوق پہن لیتے ہیں ۔

ایک شاعر نے کہا تھا کہ ”اردو شاعری کا سورج علامہ محمد اقبال ہیں تو چاندغالب اور ستارہ میر ہے ‘ آج کل کے شاعر تو جگنو کی طرح ہیں‘ جو کبھی کبھی روشنی کی جھلک دکھ کر تاریکی میں گم ہو جاتے ہیں‘یہ کلیہ اردو کے جدید ادبا پر یقین صادق آتا ہے ۔اردو ادب نے گزشتہ چند سالوں میں بے شمار جگنو پیدا کیے ہیں‘انگلستان اور امریکہ میں کئی اخبار نویس ترقی محنت کرتے کرتے ادیب بن جاتے ہیں ۔

لیکن ہمارے ملک میں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے ۔ یہاں بھلا چنگا ادیب ایک جست میں ادیب سے صحافی‘اینکر یا کتب فروش بن جاتا ہے‘ یا فلموں اور ٹیلی ویژن پرگراموں میں مزاحیہ کردار کرنے لگتا ہے ۔ تم کہو گے شاہد اس کی وجہ اقتصادی مشکلات ہیں۔ لیکن کس ملک اور کس دور میں ادبا کو ان مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اگر میر، اقبال‘غالب، پریم چند ، ملٹن اورجارج برنارڈشا ان مشکلات سے گھبرا کر صابن بنانے کا کارخاجہ قائم کر لیتے تو آج ان کی ادبی تخلیقات کی عدم موجودگی میں اردو اور انگریزی ادب کی کیا حیثیت ہوتی؟مگر آج کل ادب میں تخلیق کم اور ”پروڈیکشن“زیادہ ہورہی ہے ‘چار کتابیں ”گرینڈر“میں ڈالو”تھوڑے مصالحے“اور نئی کتاب تیار---اب میں صرف ان امراض کا ذکر کروں گا جن میں آج کل مبتلا ہوں۔

تاکہ قارئین کو پتہ چل جائے گا کہ میں صحافی ہونے کے علاوہ ایک اعلےٰ درجہ کا دائم المریض بھی تھا‘ مجھے خدا کے فضل اور آپ کی دعاؤں سے ہر مرض میں مبتلا ہونے کا فخر حاصل ہے ۔بستر سے اٹھتے ہی السرکا درداور جلن ستانے لگتی ہے مگر میں نے اس کا علاج دریافت کررکھا ہے خالی پیٹ سگریٹ پیتا ہوں تو مرض کو خود کو شرم آجاتی ہے‘ پھر کمر اور درد شقیقہ رات کو بے خوابی کی حالت میں کروٹیں بدلتا رہتا ہوں‘ حتیٰ کہ صبح ہو جاتی ہے‘تنخواہ ادویات خریدنے میں صرف ہوجاتی ہے‘لیکن ابھی تک صاحب فراش ہوں‘ دراصل اس میں معالجوں کا اتنا قصور نہیں جتنا میری صحت کا ہے ‘ اکثر جب ایک مرض کا علاج کرتاہوں تو ایک نیا مرض لاحق ہو جاتا ہے‘اب میں نے ہرقسم کے علاج سے توبہ کر لی ہے‘کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ علاج سے مرنے کی بجائے مرض سے مرنا قدر جہاں بہتر ہے ۔

اکثردوست پوچھتے ہیں اردوزبان کا مستقبل تاریک ہے یا درخشدہ ؟ نہایت احمقانہ سوال ہے‘ اردو زبان کا مستقبل تاریخ کیوں ہونے لگا؟ اردو نے توحضرت خضر کی طرح آب حیات پیا ہے‘کیاایسی زبان کبھی مر سکتی ہے‘اردو عوام کی زبان ہے ‘اس کا مٹ جانا اتنا ہی مشکل ہے کہ جتنا عوام کا صفحہ ہستی سے مٹ جانا ۔ اوراونٹ آپس میں کیوں لڑتے ہیں ؟ اردو زبان میں کوئی اچھا نا ول کیوں نہیں لکھا گیا ؟مرغیاں پالنے کے کیا نقصانات ہیں، لمبی داڑھی رکھنے کے کیا فوائد ہیں؟ عورتیں مردوں کی نسبت کیوں چالاک ہوتی ہیں؟ ہم کیوں ہنستے ہیں ؟شہد کی مکھی اور معمولی مکھی میں کیا فرق ہے ؟جدید ادبامیں سے کون کون زندہ رہے گا؟گائے اور اونٹ آپس میں اس لئے لڑتے ہیں کیونکہ دونوں بیوقوف جانور ہیں‘دونوں باہر سے چراگاہ میں چرنے کے لئے آئے ہیں‘لیکن دونوں میں سے ہر ایک یہ سمجھتا ہے کہ چراگاہ صرف اس کی ملکیت ہے ، اوردوسروں کو اس میں چلنے پھرنے کا کوئی حق نہیں ‘ایک اچھا ناول لکھنے کے لئے دو چیزوں کا ہونا ازبس ضروری ہے ‘فراغت اور دماغ ‘ چونکہ کسی جدید اردو ادیب کو یہ دونوں نعمتیں بیک وقت میسر نہیں اس لئے اردو زبان میں کوئی اچھا ناول نہیں لکھا گیا۔

مرغیاں پالنے کے بے شمار نقصانات ہیں ، پہلا تو یہی ہے کہ عموماً مرغیاں ہمسایوں کے گھروں میں انڈے دیتی ہیں اور مرغیاں پالنے والے کو انڈے بازار سے خریدنے پڑتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ ہر شام ایک آدھ مرغی ضرور غائب ہوجاتی ہے حتیٰ کہ کچھ عرصہ کے بعد ایک بھی نہیں رہتی ۔لمبی داڑھی رکھنے کا فائدہ ہے کہ انسان بے وقوف نظر نہیں آتا۔ ہم کیوں ہنستے ہیں ؟اس لیے کہ ہمیں ہنستی آتی ہے ۔

بعض اوقات اس لیے بھی کہ اگر ہم نہ ہنسیں تو دوسرے ہنسنے والے ہمیں بیوقوف سمجھیں گے ۔عورتیں مردوں کی نسبت اس لیے چالاک ہوتی ہیں کہ انہیں اپنی اصلی عمر چھپانے کے آرٹ میں کمال حاصل ہوتا ہے ۔ شہد کی مکھی اور معمولی مکھی میں یہ فرق نہیں کہ شہد کی مکھی ہمارے گھروں میں بہت کم دیکھنے میں آتی ہے ۔ اور معمولی مکھی کے علاوہ ہمارے گھروں میں اور بہت کم چیزیں دیکھنے میں آتی ہیں ۔

بلکہ یہ کہ اگر معمولی مکھی ہیضہ پھیلانے کی بجائے شہد اکٹھا کرتی تو ہمارے ملک میں شہد کی وہ بہتات ہوتی کہ ہمیں گڑ، شکر اورچینی کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی‘مگر اللہ رحیم وکریم ہے اس نے ”شوگر مافیا“کی سہولت کے لیے معمولی مکھی کو صرف ہیضہ اور دیگر امراض پھیلانے کے لیے رکھا ہے جس کے ذریعے نہ صرف یہ بیماریاں پھیلتی ہیں بلکہ ڈاکٹروں کی فیسوں اور ادویات کی خریداری کی مد میں اچھی خاصی”اکنامک ایکٹویٹی“ہوتی ہے جو خوشحالی کی علامت ہے‘ جدید ادیبوں میں کون زندہ رہے گا؟ زندہ رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘بیشتر تو اپنی زندگی میں ہی اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں ‘باقی زندہ درگور میں ‘ادب میں اب کئی نئی صنفیںآ گئی ہیں FM ادب‘ڈیجیٹل ادب ‘فیس بکی ادب اورادب برائے ”بے ادباں“ ڈیجیٹل میڈیم کی ان گنت شاخوں کے ذریعے خاص طور ”ادب برائے بے ادباں“نے خاصا طوفان مچایا ہوا ہے-پاکستان میں ڈیجیٹل میڈیم پر جو خشر اقبال اور احمد فرازکا ہورہا اللہ کی امان‘بلونگڑے اور بچہ جمہورا قسم کے مضمون نگاروں کی بھرمار ہے -دو دہائیاں پہلے جو جرائد مضمون نگار کو مضمون لکھنے کا معاوضہ دیتے تھے آج وہ ”معاوضہ“لیتے ہیں-بچے جمہوروں کو غلط فہمی ہے کہ علم کا رعب جھاڑنے کے لیے کسی بڑے شاعر کے ایک دو شعر ضروری ہیں مگر غالب کا شعر میر کے نام اور میر کا شعر اقبال کے نام جڑدیتے ہیں- ریڈیوچینلز ادب کو ”بے ادب “کرنے کا نکتہ آغا ز تھے اور فیس بک اس کی انتہا-اسی رفتار سے ادب کا حلیہ بگاڑنے کا سلسلہ جاری رہا تو کچھ ہی مدت میں ادب کی باقی مانندہ صنفیں بھی دفن ہونے کا شرف حاصل کرلیں گی--- وثوق سے تو نہیں البتہ کافی ہچکچاہٹ کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اگر عہد حاضرکے شعراء اور ادیب اپنی99.99”تخلیقات“نذرآتش کردیں تو ایک معیاری ادبی فن پارہ بننے کا ”اندیشہ“ہے-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :