جنرل ضیاء الحق بھارت اور اسرئیل کے لیے خوف کی علامت تھے

پیر 17 اگست 2020

Mian Munir Ahmad

میاں منیر احمد

 سترہ اگست‘۱۹۸۸ کو جہاز کے ایک حادثے نے صدر جنرل محمد ضیاء الحق کو ہم سے چھین لیا‘ یہ حادثہ جنرل ضیاء الحق کے خاندان کے لیے یہ ایک بڑا صدمہ تھا لیکن امت مسلمہ اور خصوصاًٰ افغان‘ کشمیری اور فسلطینی مجاہدین کے لیے یہ حادثہ کسی قیامت صغری سے کم نہیں تھا‘ جن کی اگلی منزل مسلمانوں کو جبر سے آزادی دلانا تھی‘ سری نگر‘ اور فسطلین کو آزاد کرانا تھا‘ یہی وجہ تھی کہ بھارت‘ اسرائیل‘ امریکہ اور روس سب انہیں اپنی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے‘ ضیاء الحق حیات ہوتے تو کشمیر کے حوالے سے پانچ اگست کا واقعہ کبھی رونما نہ ہوتا‘سعودی عرب کے شاہ خالد اور ان کے بعد شاہ فہد سے جنرل ضیاء الحق کے بے مثال دوستانہ تعلقات تھے‘ سترہ اگست کے حادثے میں جنرل ضیاء الحق سمیت پاک فوج کے انتیس افسروں اور جوانوں کی شہادت ایک بڑا قومی نقصان بھی تھا جنرل ضیاء الحق نے سپاہی کی حیثیت سے فوج میں ملازمت اختیار کی اور جرنیل کے عہدے تک پہنچے‘ وہ اہل پاکستان کے لیے تو جرنیل تھے لیکن امت مسلمہ کے لیے وہ ایک رہنماء بھی تھے جن سیاسی حالات میں انہیں ملک کا نظم و نسق سنبھالنا پڑا بلاشبہ یہ ملک کے لیے نہات غیر معمولی حالات تھے مشرقی پاکستان کو ہم سے الگ ہوئے صرف سات سال گزرے تھے اور پاکستان کے قیام کے تیس سال ہونے والے تھے ایک فوجی جرنیل کے طور پر سیاست میں آنا‘ ملک کا نظم و نسق سنبھالنا کسی بھی جمہوری معاشرے میں قابل قبول نہیں سمجھا جاتا لیکن جنرل ضیاء الحق نے جن حالات میں یہ قدم اٹھایا پوری قوم کی ایک بڑی فعال اور سرگرم اکثریت نے ملک میں مخصوص سیاسی حالات کے باعث ایک نجات دھندہ کے طور پر ان کا خیر مقدم کیا‘ سیاسی لحاظ سے یقیناً اس پر بہت بات کی جاسکتی ہے‘ گفتگو اور بات ہونی بھی چاہیے کہ تاکہ ایک صحت مند تنقید کے ذریعے ملک میں ایک ذمہ دارجمہوریت مستحکم ہو سکے اور اس کی کمزوریاں بھی دور کی جاسکتی ہیں سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں کی اصلاح بھی اسی صحت مند بحث کے نتیجے میں ہونے کی قوی امید ہے جنرل ضیاء الحق کے ہامیوں کی رائے ہے کہ وہ کبھی حکومت نہ سنبھالتے اگر اس وقت بھٹو حکومت ملک میں اپوزیشن کو سیاسی لحاظ سے برداشت کرتی اور پائیدار جمہوری روایات کی محافظ ہوتی‘ اسمبلیوں سے اپوزیشن سیاسی رہنماؤں کوا ٹھا کر باہر پھینکا جانا اور سیاسی مخالفین کے لیے زندگی تنگ کرنا اس وقت کی حکومت کے ماتھے پر داغ ہیں‘ خواجہ محمد رفیق‘ ڈاکٹر نذیر احمد‘ عبدالصمد اچکزئی اور نواب محمد احمد خان کے قتل اس دور میں ہوئے‘ ڈاکٹر نذیر احمد شہید اپنے کلینک میں قتل کردیے گئے‘ سر بازار خواجہ محمد رفیق کی سانسوں کی ڈوری کاٹ دی گئی ووٹ کے تقدس اور انتخابات میں دھاندلی کے خلاف عوامی تحریک کچلنے کے لیے پولیس مسجد وزیر خان میں جوتوں سمیت گھس گئی‘ یہ وہی مسجد وزیر کان جہاں گزشتہ ہفتے ایک دارمے کی شوٹنگ ہوئی ہے‘ بھٹو دور میں اپوزیشن کے احتجاج پر نو اپریل کو درجنوں معصوم شہری پولیس کی فائرنگ سے شہید ہوئے‘ ان تمام واقعات نے ملک میں جمہوری حکومت کے خلاف سیاسی نفرت ابھار دی تھی‘ بھٹو یقیناً ایک مقبول رہنماء تھے لیکن انتخابات میں بھٹو سمیت پوری کابینہ ہی بلامقابلہ منتخب ہوگئی‘ جس سے وہ سیاسی لحاظ سے تیزی سے غیر مقبول ہوئے اور اپوزیشن نے انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا بلکہ ملک گیر عوامی تحریک شروع کردی‘ حکومت اور اپوزیشن کے مزاکرات بھی ہوئے‘ متفقہ نکات طے بھی ہوگئے لیکن معاہدے پر دستخط نہیں ہوسکے یوں ملک میں بھٹو حکومت ختم ہوئی اور ملک میں مارشل لاء نافذ ہوا‘ رد عمل میں پورے ملک میں خوشیاں منائی گئیں‘ شہر شہر حلوے کی دیگیں بانٹی گئیں بلا شبہ پاکستان ایک اسلامی‘ آئینی اور جمہوری ملک ہے‘ ہم ایٹمی قوت بھی ہیں‘ یہاں پارلیمانی نظام ہے اور جس کے باعث صرف اور صرف ووٹ کی طاقت سے ہی حکومتیں قائم ہونی اور تبدیل ہونی چاہیے‘ اس کے علاوہ اور کوئی بھی طریقہ آئین میں موجود نہیں ہے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے نافذ کے خلاف بیگم نصرت بھٹو نے اعلی عدلیہ سے رجوع کیا‘ اس کیس کا فیصلہ لکھا گیا تو اپنے فیصلے میں عدالت نے واضح کیا کہ ” جب ملک میں آئینی مشینری ناکام ہوجائے‘ حکومت شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی پاس داری نہ کرے‘ ان کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری پوری کرنے کے قابل نہ رہے تو ملک میں غیر جمہوری اقدام جائز سمجھا جاسکتا ہے یہ فیصلہ سپریم کورٹ نے دیا تھا اسے نظریہ ضرورت کا فیصلہ کہا گیا‘ عدلیہ کے اس فیصلے پر آئینی ماہرین‘ سیاسی تجزیہ کار اور قانون دانوں نے ردعمل میں اپنی رائے دی اور آج تک اس پر بحث ہوتی رہتی ہے لیکن انصاف پسند اور قانون پسند سیاسی رہنماء کوئی اس بات سے ا نکار نہیں کر سکتا کہ جمہوری حکومت کے فرائض میں یہ بات ہمیشہ شامل رہنی چاہئے کہ وہ آئین کے مطابق شہریوں کو ان کے بنیادی‘ سیاسی‘ سماجی‘ معاشی حقوق دینے کی پابند رہے گی اور اگر جمہوریت شہریوں کو یہ ہق نہ دے اور متبادل راستہ بھی نہ ہو پھر کیا کیا جائے‘ جواب یہ ہے کہ پھر اس کے لیے دو راستے ہیں نئے انتخابات کرائے جائیں‘ آئین خود اپنا راستہ بنائے لیکن مارچ ۱۹۷۷ کے عام انتخابات میں دھاندلی کی بے شمار جائز شکایات کے باوجود پر حکومت نے اس پر دھیان نہیں دیا تو رد عمل میں ملک میں عوامی تحریک شروع ہوئی تھی جس کے بعد پاکستان قومی اتحاد اور پییلزپارٹی کے مابین ہونے والے مزاکرات کامیاب ہوئے یا نہیں‘ اس وقت ان مزاکرات میں شریک کوئی بھی شخصیت حیات نہیں ہے تاہم پروفیسر غفور احمد اور کوثر نیازی نے اس موضوع پر کتابیں لکھی ہیں‘ان شخصیات کی اس وقت کی تحریریں‘ بیانات اور سیاسی جدوجہد کے دوران عوا م کے سامنے رکھے ہوئے بیانیے آج بھی تاریخ کا حصہ ہیں‘ پروفیسر غفوراحمد کی کتاب میں گواہی موجود ہے‘ اگرچہ یہ بات کہی جاتی ہے کہ مزاکرات کامیاب ہوچکے تھی بس دستخط باقی تھے‘ یہ دستخط کیوں نہ ہوئے‘ بھٹو صاحب کیوں ادھورا کام چھوڑ کر بیرون ملک دورے پر چلے گئے ان سوالوں کا تسلی بخش جواب آج تک نہیں مل سکا ہے اگر ۱۹۷۷ میں ملک میں اور سرحدوں پر پیش آنے والے حالات اور واقعات کا جائزہ لیں اور اس کے ساتھ جوڑ کر جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کو دیکھا جائے تو ہمیں یہ بات ضرور ذہن میں رکھنا ہوگی کہ اس وقت افغانستان میں روس جارحیت کر چکا تھا‘ اور پاکستان پر اس کے اثرات بھی ظاہر ہونا شروع ہوچکے تھے‘ اسے بھارت کی مکمل تائید اور حمائت حاصل تھی‘ مشرقی پاکستان کا زخم ابھی تازہ تھا‘ یہ زخم تو آج بھی تازہ ہے‘ ملک میں سیاسی انتسار اور خلفشار کی کیفیت تھی اور حکومت اپنی اس ذمہ داری کو پہچاننے سے گریز کر رہی تھی یا اسے ادراک نہیں تھا‘ اس کا جواب ہم تاریخ پر چھوڑ دیتے ہیں تاہم جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کی بحث بھی ایک جانب رکھ دیتے ہیں ہم انہیں بطور انسان اور حکمران کے طور پر دیکھتے ہیں کہ وہ کیسے انسان تھے اور کیسے حکمران تھے‘ جب ان کی خوبیوں کا ذکر ہوگا تو سب سے پہلے یہ بات ہوگی وہ ایک خوف خدا رکھنے والے حکمران تھے‘ محب وطن تھے‘ وطن کے دفاع کے لیے اپنی جان قربان کر دینے والے حکمران تھے کہ بطور فوجی ان کی تربیت ہی یہی تھی‘ یہ بات باالکل طے ہے کہ مارشل لاء ہو یا سول حکمرانی‘ جمہوریت ہو یا شخصی راج‘ کوئی بھی نظام اس وقت تک نہیں چل سکتا جب تک اسے عوام کی کھلی حمائت اور تائید نہ ہو‘ جنرل ضیاء الحق کو بھٹو حکومت کے طرز عمل کے باعث عوام کے ایک بڑے طبقے نے قبول کیا‘ جنرل ضیاء الحق اگر نوے روز کے اندر انتخابات کراکے واپس چلے جاتے تو آج وہ ملک کے غیر متنازعہ رہنماء ہوتے اور تاریخ میں انہیں اپنے اور پرائے دونوں یکساں نظروں سے دیکھتے لیکن وہ یہ کام نہیں کر سکے اور اور ان کا اقتدار گیاہ برسوں تک محیط رہا‘ بھٹو کی پھانسی نے ملک میں سیاسی تلخیاں بھی پیدا کیں‘ بھٹو کی پھانسی قتل کے ایک مقدمے میں اگرچہ عدالتی فیصلے کی روشنی میں ہوئی‘ لیکن جسٹس نسیم حسن شاہ بعد میں کہتے رہے کہ ان پر دباؤ تھا‘ بھٹو کی پھانسی ہماری سیاسی تاریخ کا ایک بہت ہی تلخ باب ہے‘ کاش یہ واقعہ نہ ہوتا‘ لیکن وہ نسل‘ جس نے بھٹو کا دور دیکھا اور بھگتا ہے وہ نسل بھٹو دور میں روا رکھے جانے والے غیر انسانی سلوک کی گواہ ہے‘ سیاسی مخالفین کے ساتھ جو سلوک اس زمانے میں ہوا‘ بعد میں کبھی ایسا نہیں ہوا‘ بھٹو کی پھانسی کے بعد پیپلزپارٹی تین بار ملک میں اقتدار میں آئی لیکن پیپلزپارٹی کے یہ تینوں ادوار بھٹو دور سے بہت مختلف تھے محترمہ بے نظیر بھٹو‘ اور بعد میں آصف علی زرداری کی حکومت قائم ہوئی لیکن ان دونوں ادوار میں اپوزیشن بھٹو دور کی طرح دیوار سے نہیں لگائی گئی
 اسی لیے پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف کسی بھی ردعمل میں فوج نے ملک کا نظم و نسق نہیں سنبھالا‘ ملک کے اندر ضیاء الحق حکومت کیسی تھی؟ دو آراء ہیں‘ پہلی رائے یہ کہ ا نہوں نے ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کی مخلصانہ کوشش کی‘ لیکن ملکی انتظامی مشینری کا رویہ تبدیل نہ کرسکے‘ کوشش کے باوجود مکمل طور پر سودی نظام ختم نہیں کرسکے‘خارجہ محاذ پر وہ نہائت جرائت مند سپاہی ثابت ہوئے‘ بھارت جیسے دشمن ملک کے لیے وہ خوف کی علامت تھے‘ جارح روس کو دریائے آمو کے پار بھیجا‘ افغان مجاہدین کے لیے قوت بنے‘عالم اسلام کو ایک طاقت دی‘ اقوام متحدہ میں ان کی مشترکہ آواز بنے‘ اللہ کے گھر میں متعدد بار انہیں نماز کی امامت کا شرف حاصل ہوا‘ ان کے دور میں نجی شعبے نے ترقی کی‘ ملک میں نئی صنعتیں لگی‘ سرکاری ملازمین‘ بیواؤں اور سرکاری ملازمین کے بچوں کے لیے تعلیم‘ گھر‘ اور انسانی ضروریات کے لیے اقدامات ا ٹھائے گئے لیکن بہت کچھ کرنا باقی تھا کہ سترہ اگست آن پہنچی جنرل ضیاء ا لحق کے لیے آج بھی پاکستان میں محبت کرنے والے بہت ہیں‘ ان کے ناقد دین کی تعداد بھی کم نہیں‘ لیکن کوئی انہیں یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ ملک کے اچھا نہیں سوچتے تھے‘ اس بات پر سب یکسو ہیں کہ وہ کرپٹ نہیں تھے‘ غدار وطن نہیں تھے‘ کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا ہے کہ انہیں خدا کا خوف نہیں تھا‘ وہ راتوں کو اٹھ کر عبادت کرنے والے حکمران کے طور پر یاد کیے جاتے ہیں‘ ہاں البتہ انہوں نے ملک میں غیر جماعتی انتخابات کراکر ایک نیا تجربہ کیا‘ اور اپنی ہی اسمبلی برخاست کی‘ ملکی تاریخ میں ایسا ہی کام یاوب خان بھی کر چکے تھے کہ اپنا ہی بنایا ہوا آئین ختم کردیا‘ جنرل ضیاء الحق بلا شبہ خوبیوں کے مالک تھے لیکن ایک بات باالکل طے شدہ ہے اس ملک میں ایک آئین ہے‘ دستور ہے‘ اور اس آئین دستور کی رو سے حق حکمرانی ضرف انہی کو حاصل ہے جنہیں عوام اپنے ووٹ سے منتخب کریں جنرل ضیاء الحق بطور انسان بہت خوب تھے‘ بطور رہنماء بہت اعلی تھے‘ سچے اور کھرے پاکستانی تھے لیکن منتخب حکمران نہیں تھے اگر وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آتے تو حکمرانی کرتے تو ان جیسا لیڈر پاکستان کی تاریخ میں نہ ملتا‘ جنرل ضیاء الحق کے صاحب زادے محمد اعجاز الحق مسلم لیگ (ض) کے سربراہ ہیں‘ متعدد بار انتخابات میں کامیاب ہوکر اسمبلی میں پہنچے ہیں وفاقی وزیر بھی رہے‘ وہ اگر ہمت کریں‘ لیڈر شپ کا رول اپنے لیے منتخب کرلیں تو پاکستان کو مسلم لیگ کے پلیٹ فارم کے ذریعے ترقی دینے والے پاکستانیوں کو ایک محب وطن‘ مخلص‘ سچا‘ دیانت دار رہنماء میسر آسکتا ہے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :