
76 برس کی زندگی
منگل 21 ستمبر 2021

میاں منیر احمد
یہ معیار آج ایک سوالیہ نشان ہے، مولانا مودودی کا ہدف یہ تھا کہ دعوت اس کے بعد تربیت اور پھر تنظیم اور چوتھا کام یہ تھا کہ حاصل شدہ وسائل کو جمع کرکے انقلاب امامت کے لیے استعمال کیا جائے، جماعت اسلامی جیسی تنظیم جن بنیادوں پر کھڑی کی گئی یہ کوئی معمولی کام نہیں تھا، نہائت غیر معمولی اور بے مثال کام صرف علم اور حکمت اور اپنے عمل کو ایک پیج پر لاکر ہی کیا جاسکتا تھا انہوں نے یہ کام کردکھایا، دعوت کیا ہے؟ صرف رب کی بندگی، مولانا کی ڈکشنری میں عبادت کے صرف تین معنی ہیں، پرستش، اطاعت اور فرماں برداری، یہ مفہوم انہوں نے اچھی طرح سمجھا اور اسے پھیلانے کے لیے ساری عمر فکر مند رہے انہوں نے اپنی قلم کے ذریعے، گفتگو کی مدد سے رحمن کے بندوں کے اوصاف بیان کیے اور جماعت اسلامی کے ذریعے قرآن کا مطلوب انسان تیار کیا، اور تقاضہ یہی تھا کہ یہ انسان شہادت حق کے لیے کھڑا ہوجائے، آئیے آج جائزہ لیں، کہ مولانا جس طرح کے کارکن کے خواہش مند تھے، اس کارکن کو امر معروفو نہی عن المنکر کے معیار سے قبل صرف پڑوسیوں کے حقوق کی میزان پر ہی پرکھ لیں… جواب مثبت مل جائے تو بات آگے بڑھائیں، دعوت کے بعد تربیت اور پھر تنظیم کی بات ہے، مولانا نے تنظیمی اجتماعات میں عدم شرکت کے لیے شرعی عذر کی شرط بلاسبب نہیں لگائی تھی، اس کے سامنے کاروباری نقصان یا مالی ہرج کوئی معنی نہیں رکھتا، اس شرط میں پیغام یہی ہے کہ ”وہ یہی سے لوٹ جائیں جنہیں زندگی ہو پیاری“
مولانا ذاتی زندگی میں کمال درجے کے حلیم انسان تھے، جس زمانے میں وہ سیاسی ماحول میں کام کر رہے تھے وہ نظریاتی سیاست کا ماحول تھا، مصلحت نام کی کوئی چیز نہیں تھی، ماچھی گوٹھ کے ”اسٹیشن“ پر جو لوگ اترے انہیں دلیل سے سمجھایا تھا، آج کل بھی میڈیا،سوشل میڈیا کا دور بلکہ بد تر دور ہے مگر جس زمانے وہ تھے یہ بھی کوئی کم بدتر نہیں تھا، علماء کے کارٹون بنائے جاتے تھے، مجال ہے کہ مولانا نے کبھی غصے میں جواب دیا ہو، کسی پریس کانفرنس میں ناگوار سوال پر ماتھے پر شکن آئی ہو اور یہ کہا کہ سوال کرو تقریر نہ کرو…سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، مولانا جیسے شخص نے جس دعوت کو سمجھا، اور جس طرح کی حلیمی طبیعت پائی آج وہ ہمیں کم رہنماؤں میں دکھائی دیتی ہے، مولانا کی زیر صدارت ہونے والے اجلاسوں کی روداد مطالعہ کی جائے تو پتہ چل جاتا ہے کہ رہنماء کیا ہوتا ہے، کوئی تو وجہ ہے کہ آج بھی دنیا مولانا کو یاد کرتی ہے
اللہ بھی ان پر بہت مہربان رہا، اس لیے تو انہیں ایک ایسا لٹریچر ملت اسلامیہ کے لیے تیار کرنے کا موقع دیا جس کے ذریعے تفہیم القرآن کی صورت میں قرآن کی تفہیم دنیا پھر میں پھیلی، سیرت سرور عالم کے ذریعے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ مسلمانوں اور دنیا کے انسانوں کے سامنے آئی، جہاد فی سبیل للہ کے ذریعے اقوام عالم کو اس بات کا پتہ چلا کہ انسان کے ذمہ دوسرے انسان کی عزت اور زندگی کی رکھوالی کا معیار کیا ہے، بر صغیر کے مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے ان کے اندر کا جوہر اقبال اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے تو تلاش کرلیا تھا مگر مسلم لیگ تلاش نہیں کرسکی، مگر یہ نصیب کی بات ہوتی ہے جس نے مولانا کی زیارت کی اس نے اللہ اور اللہ کے رسول کے پیغام کو بھی سمجھ لیا رہتی دنیا تک مولانا لوگوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے
یہ جہاں ہے کیا چیز، لوح و قلم تیرے ہیں
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
میاں منیر احمد کے کالمز
-
محرم سے مجرم کیسے
بدھ 2 فروری 2022
-
تبدیلی
اتوار 23 جنوری 2022
-
صراط مستقیم
ہفتہ 15 جنوری 2022
-
زندگی کو عزت دو
پیر 10 جنوری 2022
-
افغان قوم اور قاضی حسین احمد
بدھ 5 جنوری 2022
-
ملک کی سلامتی کیلئے فکرمندی کس کو ہے؟
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
دل بھی بجھا ہو شام کی پرچھائیاں بھی
منگل 5 اکتوبر 2021
-
چوہدری ظہور الہی ایک عظیم سیاست دان
منگل 28 ستمبر 2021
میاں منیر احمد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.