دین دارحلقوں کے تعلیمی اداروں میں مغربی نظامِ تعلیم کی پیوند کاری!

اتوار 27 جنوری 2019

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

مسلما ن ملکوں میں مغربی کی مذہب بیزار نظامِ تعلیم نے اپنی جڑیں گہری کی ہوئی ہیں۔ برصغیر ہند و پاک اور دوسرے ملکوں میں، جہاں جہاں مسلمان عیسائیوں کے غلام رہے ہیں وہاں وہاں لارڈ میکالے کی عیسائی مذہبی سوچ کے مطابق نام نہاد جدیدنظامِ ِ تعلیم رائج کیا تھا، جو اب بھی جاری و ساری ہے۔لارڈ میکالے نے برطانوی دارلعلوم کے ایک اجلاس میں کہا تھا کہ”ہمارے لیے یہ اشد ضروری ہے کہ ہم ہندوستانی نوجوانوں کے اذعان و قلوب کوبدل ڈالنے کی کوشش کریں۔

ہم ان کو ہندوستانی عوام اور اجنبی حکمرانوں کے درمیان رابطہ کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ہمیں ان لوگوں کی تربیت اس انداز سے کرناہے کہ نسل و رنگ کے اعتبار سے تو یہ ہندوستانی رہیں، لیکن ان کا ذہنی انداز خالصتہً انگریزی ہونا چاہیے“ مسلمانوں کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ نام نہاد جدیدنظام ِ تعلیم کی ترویج میں پس پردہ عیسائیوں کے مقاصد کس قدر گھناؤنے تھے۔

(جاری ہے)

عیسائیوں(مغرب) نے تعلیم کو روزگار سے جوڑ دیا۔ مغربی نظامِ تعلیم سے مادہ پرست تیار ہو کر نکلتے ہیں۔ جبکہ اسلامی نظامِ تعلیم ان کو انسانیت سے جوڑ نے کی ہدایات دیتا ہے ۔اسلامی نظامِ تعلیم سے انسان بنتے ہیں ۔جب آدمی انسان بن جائے تو اسے چاہے کسی بھی فیلڈ میں کام کرنا پڑے وہ دوسروں سے انسانیت برتے گا، نہ معاشی جانور بن کر پیٹ کا بندا بن کر رہ جائے گا۔

پاکستان کی بنیاد، قراردادِ پاکستان میں یہ لکھا ہوا ہے کہ”انسا ن کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ انفرادی طور پر اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق جو قرآن مجید اور سنت رسولمیں متعین تربیت دے سکیں“ رسول اللہ کو اللہ تعالیٰ نے جب رسالت پر مبثوت فرمایا تو کہا اللہ کا شکر ادا کر جس نے انسان کو قلم سے علم سکھایا۔ رسول اللہ نے جب نبوت ملنے کے بعد اپنے کام کا آغاز کیا تو لوگوں سے کہا کہ کہو” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “ یعنی لوگوں کو تعلیم دی کہ ایک اللہ کے سوا کسی دوسرے کو اپنا اِلہ نہ بناؤ۔

اللہ کے سواتمھاراکوئی معبود نہیں۔ اسی کے سامنے اپنی حاجاجات رکھو،فلاح پاجاؤ گے۔ جب تم خود مانتے ہو کہ زمین، آسمان اور انسان کو اللہ نے پیدا کیا تو پھر اللہ کے سوا غیروں کو کیوں اپنا معبود بناتے ہوں۔ اور کہا کہ میں اللہ کا پیغمبر ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمھاری اصلاح کے لیے اپنا پیغمبر منتخب کر بھیجا ہے۔ اس مختصر دعوت میں کہیں بھی مادیت نظر نہیں آتی ،کہ تم مجھے لیڈر بناؤ اور میں تمھارے لیے یہ فلاح بہبود کے کام کروں گا۔

میں کامیاب ہو گیا تو تمھیں یہ یہ مراعات ملیں گی۔ تمھارے لیے ندی نالے، سڑکیں ، صحت کے لیے ہسپتال، اسکول اور نوکریوں کے لیے کارخانے بنا دوں گا۔ بلکہ یہ کہا کہ اللہ کے مطلوبہ انسان بن جاؤ تو تمھیں جنت ملے گی اور دنیا کی معاش بھی بہتر انداز میں ملے گی۔کیااللہ تعالیٰ قرآن میں نہیں فرماتا ہے کہ اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور اللہ کے بتائے ہوئے راستوں پر چلتے تو اللہ آسمان سے رزق برساتا اور زمین اپنے خزانے اُگل دیتی۔


استادمربی یعنی تربیت کرنے والا اور مزکی تزکیہ نفس کرنے والا ہوتا ہے۔ رسول اللہ مربی اور مزکی تھے۔جب رسول اللہ لوگوں کو تعلیم دیتے تھے تو فرماتے تھے۔ لوگوں جو تعلیم میں تمھیں دے رہا ہوں اس کا مجھے تم سے اس کام کااَجر نہیں چاہیے بلکہ یہ کہا کہ میرا اَجر میرے رب کے پاس محفوظ ہے۔لہٰذا اسلامی تعلیم دینے والے کو دولت کی ہوس میں مبتلا نہیں ہونے چاہییں۔

رسول اللہ نے جاہل عربوں کو آدمی سے انسان بنایا اور جب عرب رسول اللہ کی تعلیم سے انسان بنے تو ترقیوں نے ان کے قدم چومے اور انہوں نے دنیا کو تعلیم وتربیت اور تہذیب سکھائی اور دنیا کے غالب حصے پر حکمران بن گئے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے اندر لارڈ میکالے کا جدید نظامِ تعلیم رائج ہے، جو انگریزوں کی ضرورت کے مطابق تھا، جس نے پاکستان میں خودغرضی کی وجہ سے اب طبقاتی شکل بھی اختیار کر لی ہے۔

ایک طرف انگلش میڈیم اسکول ہیں۔دوسری طرف اُردو میڈم اسکول ہے۔ تیسری طرف دینی مدارس ہیں۔تینوں کے نصاب الگ الگ ہیں۔کہیں باہر کے ا ے لیول اور اولیول کے نصاب ہیں۔ کہیں درس نظامی کا دینی نصاب ہے۔ انگلش میڈم سے مسٹر تیار ہو کر نکلتے ہیں ۔ دینی مدارس سے ملا بن کر نکلتے ہیں۔ درمیان میں اُردو میڈم میں غریب لوگوں کے بچے نہ مسٹر اور نہ ہی ملا بلکہ درمیان میں معلق رہتے ہیں۔

مسٹر حکومت کے مقابلے کے امتحان پاس کر کے نوکر شاہی بن جاتے ہیں۔ دینی مدارس سے فارغ شدہ لوگ مسجدیں سنبھال لیتے ہیں۔ درمیان اُردو میڈم والے کہیں کلرک لگ جاتے ہیں۔ دوسری طرف عیسائیوں کا بنایاہوا انسانی حقوق کا منشور اور کتابیں ہمارے اسکولوں میں اظہار آزادی اور انسانی حقوق کے منشور کے نام سے رائج ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ہر شخص کو مذہب بدلنے کی اجازت اور آزادی ہے۔

ہر شخص کو باہمی رضا مندی سے تعلوق رکھنے کی اجازت ہے وغیرہ۔یہ پڑھ کر ہمارے نوجوان سیکرلر اور لبرل بن رہے ہیں۔ پھر یہ پوچھتے ہیں مکہ اور مدینہ میں غیر مسلم کیوں نہیں جا سکتے؟۔ہندو اور قادیانی سے شادی کیوں نہیں ہو سکتی؟ ہمارے علما انگریزی سے واقف نہیں اس لیے اس برائی کے خلاف آواز نہیں اُٹھا رہے۔اے لیول اور اولیول کی کتابوں میں اُمہات المومنین  کی شان کے خلاف باتیں پڑھائی جا رہی ہیں۔

نصاب میں اسلامی تاریخ کو مسخ کیا جارہا ہے ۔ نیک سیرت شہنشاہ اورنگ زیب  جو مسلمانوں کا ہیرو ہے اور جو ٹوبیاں سی کراپنا خرچ پورا کرتا تھا۔اسے رعایا،باپ اور بھائیوں کے خلاف ظالم پیش کر کے پڑھایا جا رہا ہے۔حقوق انسانی کا موجد امریکا کو پڑھایا جاتا ہے۔ جبکہ خطبہ حج الوادع میں پیغمبر اسلام کئی صدیاں پہلے انسانی حقوق کا اعلان کیا تھا۔


زبان علوم کی ماں ہے۔ لہٰذاسب سے پہلے پاکستان میں تعلیم کو قومی زبان اُردو میں ہونا چاہیے۔ تہذیب یافتہ قوموں نے اپنی اپنی قومی زبانیں رائج کر کے ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ پھر ملک میں یہ جو تین نظام ِ تعلیم چل رہے ہیں ان کو یکساں ہونا چاہیے۔جب ہم یکساں نظام ِ تعلیم کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب ،نصاب، ذریعہ تعلیم، نصابی کتب،تعلیمی سہولتیں،امتحان اور سر ٹیفکیش سب یکساں ہونے چاہییں۔

ملک میں رائج طبقاتی نظام ِ تعلم کو بل لکل ختم ہونا چاہیے۔تاکہ غریب و امیر کا بچہ یکساں طور پر اس سے فاہدہ مند ہو سکے۔موجودہ حکومت کے منشور میں یکساں نظامِ تعلیم کا وعدہ کیا ہوا ہے۔اس لیے حکومت کو چاہیے کہ ایک ادارہ قائم کرے جس میں سب اکائیوں کو برابر کی نمائندگی ہو، جویہ کام کرے۔یہ ادارہ نیشنل کری کولم پالیسی فریم ورک تیار کر کے پارلیمنٹ سے منظور کرائے جس کا نفاذ پورے ملک میں لازمی ہو۔

اُستاد جو بچوں کو تعلیم دیتے ہیں پہلے ان کی اسلامی خطوط پر تربیت ہونی چاہیے۔ اُستاد جو مربی اور مزکی ہوتا ہے، اگر وہ تربیت یافتہ نہیں ہے تو وہ بچوں کی کیا خاک تربیت کرے گا۔دینی مدارس جو ملک کی بہت بڑی این جی اوز ہییں۔ یہ ہمارے دین کی چھاونیاں ہیں اور مساجد کے مینار میزائلوں کے مظاہر ہیں۔ان ہی کی وجہ سے دین دائم و قائم ہے۔ شاعر اسلام علامہ اقبال بھی دینی مدارس کی بقا کے قائل تھے۔

ان کو بھی عصری تقاضوں کے مطابق ڈھالنا چاہیے۔ ان میں مسالک کی تعلیم سے ہٹ کر اتحاد اتفاق کی تعلیم دینا چاہیے۔
صاحبو! پاکستان کلمہ کی بنیاد پر بنا تھا۔ اس لیے پاکستان کے سارے نظام ،اسلام کی ہدایات کے مطابق ترتیب دینے چاہیے تھے۔ قائد اعظم نے تحریک پاکستان کے دوران برصغیر کے عوام سے پاکستان کو مدینہ کی فلاحی اسلامی ریاست بنانے کا وعدہ کیا تھا۔

جب اسلامی ریاست کی بات کی جاتی ہے تو اس کا نظامِ تعلیم بھی اسلام کے آفاقی اصولوں کے مطابق ہونے چاہیے تھا،مگر یہ نہ ہو سکھا۔ پاکستان میں نہ اُردو کو قومی زبان بنایاگیا اور نہ ہی نظام تعلیم ابھی تک لارڈ میکالے کے نام نہاد جدید نظام تعلیم سے باہر نہیں نکل سکا۔ بلکہ ہمار دین دار حلقوں کے تعلیمی اداروں میں بھی اے لیول اور او لیول ی تعلیم دی جارہی ہے۔ ان حضرات کو اپنے تعلیمی اداروں، جو ان کی دسترت میں ہیں اے لیول اور او لیول ختم کر کے اسلامی نظامِ تعلیم کو رائج کر دینا چاہیے۔دین دارحلقوں کی تعلیمی کاوشوں میں مغربی نظامِ تعلیم کی پیوند کاری نہیں ہونی چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :