
- مرکزی صفحہ
- اردو کالم
- کالم نگار
- میر افسر امان
- دین دارحلقوں کے تعلیمی اداروں میں مغربی نظامِ تعلیم کی پیوند کاری!
دین دارحلقوں کے تعلیمی اداروں میں مغربی نظامِ تعلیم کی پیوند کاری!
اتوار 27 جنوری 2019

میر افسر امان
(جاری ہے)
استادمربی یعنی تربیت کرنے والا اور مزکی تزکیہ نفس کرنے والا ہوتا ہے۔ رسول اللہ مربی اور مزکی تھے۔جب رسول اللہ لوگوں کو تعلیم دیتے تھے تو فرماتے تھے۔ لوگوں جو تعلیم میں تمھیں دے رہا ہوں اس کا مجھے تم سے اس کام کااَجر نہیں چاہیے بلکہ یہ کہا کہ میرا اَجر میرے رب کے پاس محفوظ ہے۔لہٰذا اسلامی تعلیم دینے والے کو دولت کی ہوس میں مبتلا نہیں ہونے چاہییں۔رسول اللہ نے جاہل عربوں کو آدمی سے انسان بنایا اور جب عرب رسول اللہ کی تعلیم سے انسان بنے تو ترقیوں نے ان کے قدم چومے اور انہوں نے دنیا کو تعلیم وتربیت اور تہذیب سکھائی اور دنیا کے غالب حصے پر حکمران بن گئے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے اندر لارڈ میکالے کا جدید نظامِ تعلیم رائج ہے، جو انگریزوں کی ضرورت کے مطابق تھا، جس نے پاکستان میں خودغرضی کی وجہ سے اب طبقاتی شکل بھی اختیار کر لی ہے۔ ایک طرف انگلش میڈیم اسکول ہیں۔دوسری طرف اُردو میڈم اسکول ہے۔ تیسری طرف دینی مدارس ہیں۔تینوں کے نصاب الگ الگ ہیں۔کہیں باہر کے ا ے لیول اور اولیول کے نصاب ہیں۔ کہیں درس نظامی کا دینی نصاب ہے۔ انگلش میڈم سے مسٹر تیار ہو کر نکلتے ہیں ۔ دینی مدارس سے ملا بن کر نکلتے ہیں۔ درمیان میں اُردو میڈم میں غریب لوگوں کے بچے نہ مسٹر اور نہ ہی ملا بلکہ درمیان میں معلق رہتے ہیں۔مسٹر حکومت کے مقابلے کے امتحان پاس کر کے نوکر شاہی بن جاتے ہیں۔ دینی مدارس سے فارغ شدہ لوگ مسجدیں سنبھال لیتے ہیں۔ درمیان اُردو میڈم والے کہیں کلرک لگ جاتے ہیں۔ دوسری طرف عیسائیوں کا بنایاہوا انسانی حقوق کا منشور اور کتابیں ہمارے اسکولوں میں اظہار آزادی اور انسانی حقوق کے منشور کے نام سے رائج ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ہر شخص کو مذہب بدلنے کی اجازت اور آزادی ہے۔ہر شخص کو باہمی رضا مندی سے تعلوق رکھنے کی اجازت ہے وغیرہ۔یہ پڑھ کر ہمارے نوجوان سیکرلر اور لبرل بن رہے ہیں۔ پھر یہ پوچھتے ہیں مکہ اور مدینہ میں غیر مسلم کیوں نہیں جا سکتے؟۔ہندو اور قادیانی سے شادی کیوں نہیں ہو سکتی؟ ہمارے علما انگریزی سے واقف نہیں اس لیے اس برائی کے خلاف آواز نہیں اُٹھا رہے۔اے لیول اور اولیول کی کتابوں میں اُمہات المومنین کی شان کے خلاف باتیں پڑھائی جا رہی ہیں۔نصاب میں اسلامی تاریخ کو مسخ کیا جارہا ہے ۔ نیک سیرت شہنشاہ اورنگ زیب جو مسلمانوں کا ہیرو ہے اور جو ٹوبیاں سی کراپنا خرچ پورا کرتا تھا۔اسے رعایا،باپ اور بھائیوں کے خلاف ظالم پیش کر کے پڑھایا جا رہا ہے۔حقوق انسانی کا موجد امریکا کو پڑھایا جاتا ہے۔ جبکہ خطبہ حج الوادع میں پیغمبر اسلام کئی صدیاں پہلے انسانی حقوق کا اعلان کیا تھا۔
زبان علوم کی ماں ہے۔ لہٰذاسب سے پہلے پاکستان میں تعلیم کو قومی زبان اُردو میں ہونا چاہیے۔ تہذیب یافتہ قوموں نے اپنی اپنی قومی زبانیں رائج کر کے ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ پھر ملک میں یہ جو تین نظام ِ تعلیم چل رہے ہیں ان کو یکساں ہونا چاہیے۔جب ہم یکساں نظام ِ تعلیم کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب ،نصاب، ذریعہ تعلیم، نصابی کتب،تعلیمی سہولتیں،امتحان اور سر ٹیفکیش سب یکساں ہونے چاہییں۔ ملک میں رائج طبقاتی نظام ِ تعلم کو بل لکل ختم ہونا چاہیے۔تاکہ غریب و امیر کا بچہ یکساں طور پر اس سے فاہدہ مند ہو سکے۔موجودہ حکومت کے منشور میں یکساں نظامِ تعلیم کا وعدہ کیا ہوا ہے۔اس لیے حکومت کو چاہیے کہ ایک ادارہ قائم کرے جس میں سب اکائیوں کو برابر کی نمائندگی ہو، جویہ کام کرے۔یہ ادارہ نیشنل کری کولم پالیسی فریم ورک تیار کر کے پارلیمنٹ سے منظور کرائے جس کا نفاذ پورے ملک میں لازمی ہو۔ اُستاد جو بچوں کو تعلیم دیتے ہیں پہلے ان کی اسلامی خطوط پر تربیت ہونی چاہیے۔ اُستاد جو مربی اور مزکی ہوتا ہے، اگر وہ تربیت یافتہ نہیں ہے تو وہ بچوں کی کیا خاک تربیت کرے گا۔دینی مدارس جو ملک کی بہت بڑی این جی اوز ہییں۔ یہ ہمارے دین کی چھاونیاں ہیں اور مساجد کے مینار میزائلوں کے مظاہر ہیں۔ان ہی کی وجہ سے دین دائم و قائم ہے۔ شاعر اسلام علامہ اقبال بھی دینی مدارس کی بقا کے قائل تھے۔ ان کو بھی عصری تقاضوں کے مطابق ڈھالنا چاہیے۔ ان میں مسالک کی تعلیم سے ہٹ کر اتحاد اتفاق کی تعلیم دینا چاہیے۔
صاحبو! پاکستان کلمہ کی بنیاد پر بنا تھا۔ اس لیے پاکستان کے سارے نظام ،اسلام کی ہدایات کے مطابق ترتیب دینے چاہیے تھے۔ قائد اعظم نے تحریک پاکستان کے دوران برصغیر کے عوام سے پاکستان کو مدینہ کی فلاحی اسلامی ریاست بنانے کا وعدہ کیا تھا۔جب اسلامی ریاست کی بات کی جاتی ہے تو اس کا نظامِ تعلیم بھی اسلام کے آفاقی اصولوں کے مطابق ہونے چاہیے تھا،مگر یہ نہ ہو سکھا۔ پاکستان میں نہ اُردو کو قومی زبان بنایاگیا اور نہ ہی نظام تعلیم ابھی تک لارڈ میکالے کے نام نہاد جدید نظام تعلیم سے باہر نہیں نکل سکا۔ بلکہ ہمار دین دار حلقوں کے تعلیمی اداروں میں بھی اے لیول اور او لیول ی تعلیم دی جارہی ہے۔ ان حضرات کو اپنے تعلیمی اداروں، جو ان کی دسترت میں ہیں اے لیول اور او لیول ختم کر کے اسلامی نظامِ تعلیم کو رائج کر دینا چاہیے۔دین دارحلقوں کی تعلیمی کاوشوں میں مغربی نظامِ تعلیم کی پیوند کاری نہیں ہونی چاہیے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
میر افسر امان کے کالمز
-
پیٹ نہ پئیں روٹیاں تے ساریاں گلیں کھوٹیاں
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
ایران اور افغانستان
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
جہاد افغانستان میں پاک فوج کا کردار
منگل 16 نومبر 2021
-
افغانوں کی پشتو زبان اور ادب
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
افغانستان میں قوم پرست نیشنل عوامی پارٹی کا کردار
جمعہ 5 نومبر 2021
-
افغان ،ہندوستان کے حکمران - آخری قسط
منگل 2 نومبر 2021
-
افغان ،ہندوستان کے حکمران
ہفتہ 30 اکتوبر 2021
-
افغانستان :تحریک اسلامی اور کیمونسٹوں میں تصادم ۔ قسط نمبر 4
بدھ 27 اکتوبر 2021
میر افسر امان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.