مسلمانوں! خدا واسطے کے گواہ بنو

منگل 14 جنوری 2020

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں مسلمانوں سے فرماتا ہے کہ :۔ ”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنوں۔ اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد میں تمھاری ذات پر، یا تمھارے والدین پر اوورشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یاغریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیرخواہ ہے۔

لہٰذا اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا، تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو ، اللہ کو اس کی خبرہے“(النساء۔۱۳۵)
الحمد اللہ ہم مسلمان ہیں۔ہم اللہ پر یقین رکھتے۔ رسول اللہ پر ایمان لاتے ہیں۔قرآن میں اللہ کی طرف سے مسلمانوں پر جو احکام نازل ہوئے ہیں اور رسولاللہ نے جوان احکامات کی تشریع کی ہے اس پر اپنی بساط کے مطابق عمل کرنیکی کوشش کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

اللہ سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ہمیں معاف فرمائے گا۔ہماری آخرت اچھی کرے گا۔یہ مسلمانوں کی خواہش تو ہے مگر ہم نے کبھی اس پر غور کیا ہے کہ کیا ہم عمل بھی ایسا کرتے ہیں۔ ہم خود لوگوں سے کتنا عدل و انصاف کرتے ہیں۔ ہمارے لیڈر جنہیں ہم اپنی آزادرائے سے الیکشن میں منتخب کرتے ہیں وہ اپنے ووٹروں کے ساتھ کتنا انصاف کرتے ہیں۔ ہمارے ہاتھوں سے منتخب کردہ ممبران اسمبلی ایسے قانون بناتے ہیں کہ عوام کے ساتھ انصاف ہو؟ پھر کیا ہماری عدالتوں کے جج صاحبان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کر رہے ہیں۔

آج کے اپنے کالم میں ہم یہ باتیں ڈسکس کریں گے۔
پہلے تو یہ بات واضع کر دیں کہ جب تک مسلمان عدل ا و انصاف کے علم بردار بنے رہے۔خدا واسطے کے گواہ بنے رہے تو اللہ نے انہیں دنیا کا امام بنایا تھا۔ جب وہ عدل و انصاف کو چھوڑ کر آپس کی لڑائیوں اور عیاشیوں میں مصرف ہو گئے تو اللہ نے انہیں بقول فلسفی اور شاعر اسلام علامہ شیخ محمد اقبالثریا سے زمین پر دے ماراہے:۔


گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمین پر آسان نے ہم کو دے مارا
اگر ہمیں واپس وہی پوزیشن حاصل کرناچاہتے ہیں، جیسے کہ عوام کے دلوں میں بھی یہ خواہش موجود ہے اور اب تو ہمارے موجودہ وزیر اعظم عمرا ن خان صاحب کی بھی خواہش ہے کہ پاکستان میں مدینہ کی فلاحی اسلامی ریاست قائم ہو جائے تو پھر ہمیں اپنی اصل پر واپس لوٹنا ہو گا۔

جس کی وجہ سے اللہ نے ہمیں دنیا کا امام بنایا تھا۔ جب ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں توکیاہم معاشرے میں ایک دوسرے سے عدل و انصاف کرتے ہیں؟ نہیں! بلکہ جس کا جس پر بھی کچھ زور چلتا ہے وہ زور چلا کر ذبردستی کرکے اپنے حق سے زیادہ پر ہاتھ مارتا ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں ایک دوسرے سے ممکن حد تک عدل و انصاف کرتا چاہیے ۔ پھر جب ہم خود عدل و انصاف نہیں کرتے تو ہم معاشرے میں ایسے ہی لوگوں کو منتخب کر کے اقتدار میں بھیجتے جو ہم جیسے ہوتے ہیں۔

پارلیمنٹ میں وہ عدل و انصاف پر مبنی قانون سازی جس سے غریب عوام کو ریلف ملے، کے بجائے سب سے پہلے اپنی ذاتی مفاد کی قانون سازی کرتے ہیں۔ اپنی مر اہات بڑھانے اوراپنی پارٹی کے لوگوں کو فاہدہ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ عوام کے فاہدے کی قانون سازی برسوں رُکھی ریتی ہے یا ناکمل ہوتی ہے ۔جیسے” زیب الرٹ“ بل کافی دیر سے پارلیمنٹ سے پاس ہوا۔

وہ بھی صرف اسلام آباد کی حد تک نافظ عمل ہے۔ اس طرح سیاست ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ صرف سرمایہ دار ہی سیاست میں حصہ لے سکتے ہیں۔ سرمایادار سیاست دانوں نے ایک روڈ میپ بنا لیا ہے کہ الیکشن جیتنے میں کروڑوں لگاؤ۔ الیکشن جیت کر اقتدار حاصل کرو۔ پھر اقتدار کی آڑمیں کرپشن کر کے اربوں کماؤ۔ جیسے گذشتہ جو دو سیاسی پارٹیوں کی کرپشن کے کیس مشہور ومعروف ہیں۔

بلکہ ٹاک آف دی ٹاؤن بنے ہوئے ہیں۔
کیا ہمارے آئیڈیل ایسے سرمایادار سیاست دان ہونے چاہییں؟ یا کرپشن سے پاک لوگ؟کیا ہمارے ملک میں کرپشن سے پاک سیاست دان موجود نہیں۔کیا ہمیں اپنی گلی محلوں میں کرپشن سے پاک لوگ چلتے پھرتے ہیں نظر نہیں آتے؟۔کیا سپریم کورٹ نے اپنے تبصرے میں ایسے لوگوں کی نشان دہی نہیں کر دی؟جواب ہے کہ موجود ہیں لیکن ہم نے خود اپنے اپنے تعصب کے چشمے پہن رکھے ہیں۔

ہم خود ہی اُن لوگوں کو منتخب کر حکومت میں بھیجتے ہیں جو کھلے عام کرپشن میں ملوث ہوتے ہیں۔عوام کااحتصال کرتے ہیں۔ جب تک ہم اپنا رویہ تبدیل نہیں کرتے اس وقت تک عدل و انصاف پر مبنی معاشرہ قائم نہیں ہو سکتا۔
ضرورت تو اس امر کی ہے کہ مسلمانوں کے آئیڈیل تو کرپٹ حکمران نہیں ہونے چاہیے ہیں۔ سب سے پہلے تو مسلمانوں کے آئیڈل ہمارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔

مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست کا ذکر ہے کہ حضرت عمر،  رسول اللہ سے ملنے آئے۔ رسول اللہ اپنے مکان میں ایک چٹائی پر لیٹے تھے۔جب اُٹھے تو ان کے کے جسم پر چٹائی کے نشان دیکھ کر حضرت عمررو دیے۔ کہ مدینہ کی اسلامی ریاست کے حکمران کی یہ حالت ہے۔ جبکہ اُس دور کے حکمران قیصر وکسریٰ اپنے محلوں میں نرم و نازک بسترے استعمال کرتے تھے۔ پھر حضرت عمر کے دور حکمرانی میں ، جب باہر سے کوئی سفیر ان سے ملنے آیا ۔

حکام سے معلوم کیا کہ مسلمانوں کے امیر سے ملنا ہے وہ کہاں ہونگے۔ اُسے کہا گیا کہ یہیں کئیں ہونگے۔وہ یہ دیکھ کے حیران ہو گیا کہ مسلمانوں کا امیر حضرت عمر ایک درخت کے نیچے ،ایک پتھر پرسر رکھ کر آرام سے سوئے ہوئے ہیں۔ بیت المال میں آئی ہوئی چاریں عوام میں برابر تقسیم کی گئیں۔ حضرت عمر نے اپنے بیٹے اور اپنی چادر ملا کر ایک کرتا سلوا لیا۔

یہ کرتا پہن کر مسجد میں نماز پڑھنے آئے۔ عوام میں سے ایک عام آدمی نے حضرت عمر سے سوال کیا کہ آپ نے یہ کرتا کیسے سلوا لیا جبکہ ایک چادر جو آپ کے حصہ میں آئی تھی اُس سے یہ کرتا نہیں سلایا جاسکتا تھا۔ اسلامی ریاست کے امیر حضرت عمر نے عام آدمی کو جواب دیا کہ ہاں آپ صحیح کہتے ہو کہ ایک چادر سے یہ کرتا نہیں سلایا جا سکتا ہے۔ میں نے اپنے بیٹے سے چادر لے کر یہ کرتا سلوایا ہے۔

اسی طرح اول حضرت ابوبکر کے گھر والوں نے ایک دفعہ کھانے میں سویٹ ڈش بنا کر بھیجی۔ خلیفہ اول نے بیت المال کے انچارج سے کہا کہ یہ فضول خرچی ہے اس کے خرچہ کے برابر میرا وظیفہ کم کر دو۔ خلیفہ سوم حضرت عثمان نے کہا تھا کہ جب میں خلیفہ نہیں بنا تھا میں عرب میں سب سے زیادہ اونٹوں اور بکریوں کا مالک تھا۔ اب جب میں خلیفہ ہوں تو میرے پاس ایک اونٹ ہے، جس پر حج کا سفر کرتا ہوں اور ایک بکری ہے جس کا دودھ استعمال کرتا ہوں۔

خلیفہ سوم حضرت علی  کے دور حکمرانی میں ان کے اپنے چیف جسٹس کے سامنے جب ایک یہودی کی زرہ چوری ہونے کا مقدمہ پیش آیا۔خلیفہ عدالت میں پیش ہوا۔ قاضی نے ان سے کہا کہ گواہ لائیں۔ خلیفہ نے اپنے بیٹے کو گواہ کے طور پر عدالت میں پیش کیا۔ عدالت نے بیٹے کی گواہی تسلیم نہیں کی اور یہودی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔
صاحبو! یہ تھے اللہ کے احکامات پر عمل کرنے والے عوام، حکمران اور اُسوقت کی عدلیہ کے جج۔

جب اللہ کے بندوں کے ساتھ ایسا انصاف ہوا تو پھر اللہ ان سے راضی ہوا ۔ اللہ نے اپنی مستقل سنت پر عمل کرتے ہوئے مسلمانوں کو اپنی نعمت سے نواز کر دنیا کی حکمرانی عطا کی تھی۔ وہ احکام یہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر بستیوں کے لوگ اللہ کے احکامات پر عمل کرتے تو اللہ آسمان سے رزق ناز ل کرتا اور زمین اپنے خزانے اُگل دیتی۔

یہ ہی تو نعمت تھی کہ مسلمان ساری دنیا پر ۱۲/سو سال تک چھائے رہے ۔پھر مسلمان عیاشیوں میں مبتلاہو گئے۔ ایک دوسرے کے گلے کاٹنے لگے۔ حکمران عوام کے خزانوں پر سانپ بن کر بیٹھ گئے۔ عدل وانصاف نا پید ہو گیا۔اللہ نے مسلمانوں کو سزا دی۔ غیر ان پر حکمران بن بیٹھے ۔ اب مختلف جدید طریقے اختیار کرمسلمانوں پر حکومت کر رہے ہیں۔ ایران کو عراق سے لڑا دیا۔ آٹھ سال تک عراق ایران جنگ ہوتی رہی۔ اب بھی مسلمان ان ہی کی سازشوں کی وجہ سے آپس میں لڑ رہے ہیں۔ جب تک مسلمان عدل وانصاف اورخدا واسطے کے گواہ نہیں بنیں گے اس وقت تک مسلمانوں کی موجودہ حالت نہیں بدل سکتی۔ اللہ مسلمانوں کو عدل و انصاف پرعمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :