
ناکام جلسے اور ریاست
بدھ 16 دسمبر 2020

محمد امنان
آجکل ماضی قریب کے ایک سیاسی پریکٹس میچ کے خوب چرچے ہیں۔ کپتان کے ترجمانوں مشیروں اور یہاں تک کے وسیم اکرم پلس جیسے دور کے کھلاڑی بھی اپوزیشن کی کلی اڑانے میں ہمہ وقت مصروف ہیں بلکہ جلسے کے دن سے ہی اس پہ تنصرے طعنے تشنوں کا ایک طوفان میڈیا پر تو گرم رہا ہی حکومتی بریگیڈ نے اس پریکٹس میچ کی ناکامی کی پیشگوئیاں سوشل میڈیا پر بھی شروع کر رکھی تھیں۔
ٹھیک جلسے کے دن ہی کپتان کی اپنے پالتو جانوروں کے ساتھ تصاویر بھی سوشل میڈیا پہ گردش کرتی رہیں جو شاید اس جانب اشارہ تھا کہ کپتان اس پریکٹس میچ سے مطمئن ہے لیکن اسکے وزراء اور ترجمانوں سمیت مشیران اور غیر سرکاری سوشل میڈیا بریگیڈ کچھ اور کہانی بیان کرتے دکھائی دیے یعنی پہلے سو دن کی طرح وہ مصروف رہے۔
(جاری ہے)
اس میچ کا سب سے خطرناک موڑ اب یہ ہے کہ اس میں سابق کھلاڑی جو حکومت کو انجوائے کر چکنے کے بعد بیرون ملک آسائشوں کے مزے لوٹتے ہوئے گھڑی بھر کو ویڈیو لنک سے خطاب کرتے ہیں وہ ایمپائر کا باقاعدہ نام لیکر پکارنے لگے ہیں اور ہر جلسے میں ایمپائر کی جانبداری کا شور و غوغا کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
میچ کس کے ہاتھ آئے گا یہ ابھی وقت بتائے گا کیونکہ گیارہ جماعتوں کے کھلاڑی اسٹیج پہ کھیلنے آتے ہیں تو کنفیوژ ہو کر اپنی ہی ٹیم کی جانب گول کرنے لگتے ہیں اچکزئی نام کے کھلاڑی کی مثال سب کے سامنے ہے۔ پھر استعفوں پر ملال و میں نہ مانوں ، میں نہ کھیلوں گا کی کیفیت کا اندازہ سب کو ہے۔
اصل صورتحال جو اس وقت ملک اور عوام جھیل رہے ہیں اسکا کسی کو رتی برابر بھی اندازہ نہیں ہے پھر ایک سیٹ سے وزارت داخلہ حاصل کر لینے والے وزیر داخلہ کی کوئی بھرتی کرتے ہوئے تصاویر بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں خیر اس بارے میں پورے وثوق سے کہا نہیں جا سکتا اور اس پہلو کو نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا وجہ یہ ہے کہ فی زمانہ سوشل میڈیا، ڈیجیٹل میڈیا کی تمام صورتیں مین اسٹریم میڈیا سے زیادہ پاور فل دکھائی دیتی ہیں۔
اب اصل مسلہ عام عوام کا ہے جن کے جذبات سے کھیل کر جنہیں امید دلا کر ہمیشہ سیاسی جماعتیں حکومت کے ونڈر لینڈ میں قدم رکھتی ہیں اور پھر بھول جاتی ہیں کہ ہم یہاں آئے کس لیے تھے۔ آٹا ، چینی بحران پر خان کا انگلیاں نچا کر نہیں چھوڑوں گا کے دعوے ہوں یا بیروزگاری، مہنگائی ختم کرنے گھر دینے ، تعلیم کو عام کرنے یا بنیادی سہولیات کی فراہمی کا عزم ہو فی الحال سب دیوانے کا خواب معلوم ہو رہا ہے۔
اس وقت حکومت کے تمام وزراء اور مشیران اور ترجمان صاحبان یہاں تک کہ خود کپتان اعظم کا سارا زور اپوزیشن کے جلسوں کو ناکام دکھانے اور اپوزیشن کی دن رات سوشل میڈیا پر ٹرولنگ یا خود کو مہان ثابت کرنے کے علاوہ کوئی مشن نہیں ہے۔
عام آدمی کی بات آئے تو خان کی ایک ہی گردان ہوتی ہے کہ صبر کرنا پڑتا ہے قربانیاں دینا پڑتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ بنیادی مسائل تو ایک طرف رکھ دیں تعلیم کا جو ستیاناس ہم نے کر رکھا ہے اس پہ خدا کی امان ہے۔ دنیا چاند کے بعد دیگر سیاروں پر قدم رکھنے کو تیار ہے اور ہم یہاں بچوں کو قومی ترانے کا مطلب سمجھانے سے قاصر ہیں۔ پھر بچے کی دعا جس میں لب پہ آتی ہے دعا پہلے الفاظ ہیں کو مجھ سمیت کئی طلباء جوانی میں آ کر سمجھتے ہیں کہ "لپے آتی نہیں" لب پہ آتی ہے دعا۔ تعلیم کا بنیادی مقصد فکری صلاحیتوں کو پرواز دینا اور معاشرتی ذمہ داریوں کو نبھانے کی عادت ڈالنے کے ساتھ بچوں کو ذمہ دار شہری بنانے کی کوشش کرنا ہوتا ہے
مگر یہاں ہمارے ہاں کورس کی کتابوں میں یکسانیت نہیں ہے تو یکساں حقوق اور یکساں احساس ذمہ داری کیسے اجاگر کی جا سکتی ہیں۔ کورونا تعلیم پر اثر انداز ہوا ہے لیکن بقول چوروں ٹھگوں اور لٹیروں کی حکومتیں جانے کے بعد خود خان نے تعلیمی اصلاحات کے لیے کونسا گراں قدر کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ سوائے اعلانات کے کہ فلاں سرکاری عمارت میں یونیورسٹی کھول دیں گے فلاں گورنر ہاوس میں علم کی ندیاں بہا دیں گے۔
ایک سوال یہ بھی تھا کہ اب تک کتنی نئی پبلک لائبریریز کا باقاعدہ آغاز کر کے پڑھے لکھے طبقے کو مطالعے کی جانب راغب کیا گیا۔ یونس ایمرے اور ارطغرل غازی دیکھنے کے بعد کس مختصر دورانیے کے لیے یہ سیریز اثر انداز رہتی ہیں شاید عالم پناہ کو کسی مشیر نے اس جانب توجہ نہیں دلائی۔
بھوک اور افلاس سے غریب آدمی کیا کچھ کرنے پر مجبور ہے اس بات کا ادراک بھی شاید وزیر اعظم کو لاک ڈاون کا من چاہا فیصلہ کرتے وقت ہی ہوتا ہے۔ لگ یہ رہا ہے کہ خان نے بائیس تئیس سال کی جدوجہد کے دوران باری نہ ملنے کا بدلہ لینے کے لیے تمام تر توانائیاں صرف کر رکھی ہیں۔
معیشت کا پہیہ چل گیا، جی ڈی پی دوبارہ پیروں پہ آ رہی ہے، ٹیکسٹائل انڈسٹری بحال ہو گئی وغیرہ وغیرہ کے ثمرات عام آدمی تک کیوں نہیں پہنچ پا رہے ؟؟؟ ان سوالات پر ایک خاص طبقے کی جانب سے نونیا یا جیالا یا لفافہ صحافی ہونے کا طعنہ ملتا ہے ہم لوگوں کو لیکن ہم مجبور ہیں ہم تو سوال کریں گے
ہمیں اس بات سے غرض نہیں ہے کہ پی ڈی ایم مینار پاکستان کا گراونڈ بھرنے میں کامیاب کیوں نہیں ہو پائی یا اپوزیشن کیا محاذ کھولے بیٹھی ہے ہمارا مدعا تو یہ ہے کہ ملک میں غربت کم ہونے کی بجائے بڑھ کیوں رہی ہے؟؟ غریب آدمی کو دو وقت کی روٹی کے لالے کیوں پڑ گئے ہیں
ہمیں شہباز گل ، فردوس عاشق اعوان یا ان جیسے دیگر ترجمانوں کے ٹویٹس سے غرض نہیں ہے کہ کس نے خان کے وقار کی خاطر کس قدر شاندار الفاظ میں اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیا ہمارا سوال یہ ہے کہ خان اپنے الفاظ پہ پورا کب اترے گا؟؟ اس وقت ملک میں جو بحرانی کیفیت چل رہی ہے یہ کب ختم ہو گی ہمیں یہ جاننا ہے
جلسے ناکام تھے یا کامیاب ہمیں اس سے غرض نہیں ہے ہمارا سوال حاکم وقت سے ہے کہ ہمیں بتایا جائے حالات ٹھیک کب ہوں گے
یا آپ بھی پچھلے حکمرانوں کی طرح ووٹ لینے کو مسکین اور اس کے بعد حکومت ملنے پر بھاڑ میں جاو کہہ کر قہقہے لگا رہے ہیں
تبدیلی کب آئے گی؟ حضور!
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.