
ہمارا مذہبی معاشرہ اور غیر اخلاقی رویے
جمعہ 2 اکتوبر 2020

محمد بلال غفور
پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور یہ واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر بنا ہے، پاکستان میں بیسیوں اسلامی جماعتیں ہیں جو لوگوں کو دین اور نماز کی دعوت دیتی ہیں۔ جو کے ایک بہترین کام ہے۔ پاکستان میں ہر سال پہلے اسلامی مہینے یعنی محرم الحرام کو بہت اہتمام سے شہدائے کربلا کی یاد میں منایا جاتا ہے اور اہل بیت کی قربانی کے سلسلے میں پورے ملک میں محافل کا اہتمام کیا جاتا ہے، اِس کے علاوہ جگہ جگہ سبیلیں لگائی جاتی ہیں، اور چاول، حلیم وغیرہ تقسیم کیے جاتے ہیں۔
پِھر ربیع الاول کا مہینہ آتا ہے، اِس مہینے عاشقان رسول پورے جوش و خروش سے ایک بار پِھر محافل کا اہتمام کرتے ہیں، پاکستان کا بڑے سے بڑا شہر ہو یا چھوٹے سے چھوٹا گاؤں ہو شاید ہی کوئی گھر مسجد یا بازار ہوں گے جو زیب و آرائش سے مزین نا ہوں، لائٹیں لگای جاتی ہیں، غرضیکہ بہت اہتمام سے اِس پورے مہینے میلاد وغیرہ منائے جاتے ہیں۔
ایک اور جماعت یہی کام تھوڑا مختلف طریقے سے کرتی ہے کام ان کا بھی تبلیغ کرنا ہیں، لیکن فرق صرف اتنا ہے یہ مدنی منے اور اسلامی بھائی کہہ کر پکارے جاتے ہیں۔
پِھر جناب ہم ماشا اللہ رمضان شریف میں روزوں کا پورا اہتمام کرتے ہیں، مسجدوں میں رونقیں بڑھ جاتی ہیں مساجد آباد ہو جاتی ہیں، نماز تراویح پڑھی جاتی ہے، اور روزے افطار کروائے جاتے ہیں۔ حج کے دنوں میں سب سے زیادہ حاجیوں میں بھی ہمارا ملک پوری دنیا میں دوسرے نمبر پر ہوتا ہے۔ پاکستان میں بے شمار مزارات پر آئے دن عرس وغیرہ بھی رہتے ہیں اس پر بھی ٹھیک ٹھاک لوگ حاضری دیتے ہیں اور دھمالیں ڈالتے اور چادریں بھی چڑھاتے ہیں۔
یہ سب چیزیں ٹھیک ہیں، ضروری بھی ہیں کیوں کے ہم مسلمان ہیں اور ہر شخص اپنے مسلک کے مطابق عبادت کی نیت سے یہ سب کرتا مگر ان سب چیزوں کے باوجود عمل کیوں نہیں ہوتا، ہم میں چپڑاسی سے لی کر مینیجنگ ڈائریکٹر تک ہر شخص کرپشن، دو نمبری کرتا ہے۔
کرپشن میں ہم پوری دنیا کے ایک سو اسی ممالک میں سے ایک سو سترہویں نمبر پر ہیں، ناپ تول میں کمی ہم کرتے ہیں، بڑی داڑھیاں رکھ کر مہنگے داموں مال بیچا جا رہا ہے تا کہ لوگ اعتبار کر لیں، جھوٹ بول کر مال ہم بیچتے ہیں، کیمیکل ملا دودھ ہم بیچتے ہے، لال مرچوں میں ملاوٹ ہم کرتے ہیں، دو نمبر ادویات بناتے ہیں جو کہ جان بچانے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں بلکہ وہی جان لیوا ثابت ہو جاتی، پھلوں اور سبزیوں پر نقصان دہ اسپرے ہم کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی ہم کرتے ہیں۔
دفتر، مدرسہ، اسکول، بازار، جم، ایئر پورٹ، بسوں، جہاز، کون سی جگہ ایسی ہے جہاں خواتیں کو ہراساں نہیں کیا جاتا؟ مدرسوں میں بچوں کے ساتھ بد فعلی کی جاتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2018 میں پاکستان کے چار صوبوں میں تین ہزار آٹھ سو بتیس کیسز چائلڈ ایبیوز کے نام پہ رپورٹ ہوئے۔ جب کہ کشمیر اور بلتستان میں تین ہزار چار سو پنتالیس کیسز چائلڈ ایبیوز کے نام پر رپورٹ ہوئے اور یہ ہم سب کو پتہ ہے کہ کتنے فیصد لوگ رپورٹ کراتے ہیں، ہمارے معاشرے میں عزت کی خاطر لوگ چُپ رہ جاتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق 2018 ء میں 2017 کے مقابلے گیارہ فیصد زیادہ بچوں کے ساتھ بد فعلی کے کیس سامنے آئے ہیں، پاکستان میں ہر روز دس بچوں کے ساتھ چائلڈ ایبیوز یعنی بد فعلی کی جاتی ہے، ان میں بچیوں کی عمر ایک سے پانچ سال اور سولہ سے اٹھارہ سال ہے۔ جب کے بچوں کی عمر چھے سے پندرہ سال کے درمیان ہے۔
مسئلہ کہاں ہے؟ اِس کی روک تھام کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ کیا ریاست کو ذمہ داری لینی ہو گی؟ یا ہمیں بھی کچھ کرنا ہے؟
اِس میں ریاست کا کردار تو ہے ہی لیکن، ہمیں اپنے طور پر بھی چاہیے کہ، ہم کاروبار کریں مگر بے ایمانی اور دو نمبری سے بچیں۔ خواتین کے لیے اسکولوں، کالجوں، دفتروں اور یونیورسٹیوں میں ایک ایسا ماحول مہیا کریں کہ وہ مردوں کے درمیان غیر محفوظ محسوس نا کریں۔ دوسروں کی بہنوں، بیٹیوں سے اپنی بہنوں، بیٹیوں کی طرح برتاؤ کیا جائے۔ اللہ پہ کامل یقین ہو کو جھوٹ نا بھی بولوں تو مال بک جائے گا۔ ملاوٹ نا بھی کروں تو اللہ حلال رزق میں برکت ڈالے گا۔ اور بچوں کے معاملے میں یہ احتیاطی اور اصلاحی تدابیر اپنائی جائیں۔
بچوں کو ڈرائیور کے ساتھ کہیں بھی اکیلے نا بھیجا جائے۔ ٹیچر ہو یا مولوی کسی پر بھی اندھا اعتبار نا کیا جائے، جھنگ میں ہونے والا مولوی کا کیس سب کے سامنے ہے اور زینب والے کیس میں بھی عمران نعت خواں تھا۔ گھر میں بچوں کو بتایا جائے کہ کن کن سے آپ ملو گے، سگے کون ہیں اور اگر کوئی آپ کے پرائیویٹ پارٹس کو چھوئے تو ہمیں بتایا جائے۔ بچوں کو اعتماد میں لیا جائے تاکے وہ اپنی ہر بات آپ کے ساتھ شیئر کریں۔ بچوں کو گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کے بارے میں بتایا جائے۔ اپنے کسی رشتہ دار کے گھر اکیلے چھٹیاں گزارنے نابھیجا جائے۔ دکان وغیرہ پر اکیلے نا بھیجا جائے۔
اِس کا علاوہ ہمیں چاہیے کہ اپنے علاقے میں محلے میں، کالونی میں، بازار میں یا کہیں بھی مشکوک طریقے سے بچوں کوچھوتے یا تنگ کرتے ہوئے کسی کو دیکھو تو اپنا بچہ سمجھتے ہوئے اسے روکا جائے اس سے پوچھ گچھ کی جائے، اور ضرورت پڑنے پر پولیس کے حوالے کیا جائے۔ یہ ہم سب کا فرض بنتا ہے۔
پِھر ربیع الاول کا مہینہ آتا ہے، اِس مہینے عاشقان رسول پورے جوش و خروش سے ایک بار پِھر محافل کا اہتمام کرتے ہیں، پاکستان کا بڑے سے بڑا شہر ہو یا چھوٹے سے چھوٹا گاؤں ہو شاید ہی کوئی گھر مسجد یا بازار ہوں گے جو زیب و آرائش سے مزین نا ہوں، لائٹیں لگای جاتی ہیں، غرضیکہ بہت اہتمام سے اِس پورے مہینے میلاد وغیرہ منائے جاتے ہیں۔
(جاری ہے)
پِھر شب معراج، شب برات پر عبادتیں کی جاتی ہیں ساری ساری رات نوافل پڑھے جاتے ہیں اوراگلے دن روزے رکھے جاتیہیں۔
ایک اور جماعت یہی کام تھوڑا مختلف طریقے سے کرتی ہے کام ان کا بھی تبلیغ کرنا ہیں، لیکن فرق صرف اتنا ہے یہ مدنی منے اور اسلامی بھائی کہہ کر پکارے جاتے ہیں۔
پِھر جناب ہم ماشا اللہ رمضان شریف میں روزوں کا پورا اہتمام کرتے ہیں، مسجدوں میں رونقیں بڑھ جاتی ہیں مساجد آباد ہو جاتی ہیں، نماز تراویح پڑھی جاتی ہے، اور روزے افطار کروائے جاتے ہیں۔ حج کے دنوں میں سب سے زیادہ حاجیوں میں بھی ہمارا ملک پوری دنیا میں دوسرے نمبر پر ہوتا ہے۔ پاکستان میں بے شمار مزارات پر آئے دن عرس وغیرہ بھی رہتے ہیں اس پر بھی ٹھیک ٹھاک لوگ حاضری دیتے ہیں اور دھمالیں ڈالتے اور چادریں بھی چڑھاتے ہیں۔
یہ سب چیزیں ٹھیک ہیں، ضروری بھی ہیں کیوں کے ہم مسلمان ہیں اور ہر شخص اپنے مسلک کے مطابق عبادت کی نیت سے یہ سب کرتا مگر ان سب چیزوں کے باوجود عمل کیوں نہیں ہوتا، ہم میں چپڑاسی سے لی کر مینیجنگ ڈائریکٹر تک ہر شخص کرپشن، دو نمبری کرتا ہے۔
کرپشن میں ہم پوری دنیا کے ایک سو اسی ممالک میں سے ایک سو سترہویں نمبر پر ہیں، ناپ تول میں کمی ہم کرتے ہیں، بڑی داڑھیاں رکھ کر مہنگے داموں مال بیچا جا رہا ہے تا کہ لوگ اعتبار کر لیں، جھوٹ بول کر مال ہم بیچتے ہیں، کیمیکل ملا دودھ ہم بیچتے ہے، لال مرچوں میں ملاوٹ ہم کرتے ہیں، دو نمبر ادویات بناتے ہیں جو کہ جان بچانے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں بلکہ وہی جان لیوا ثابت ہو جاتی، پھلوں اور سبزیوں پر نقصان دہ اسپرے ہم کرتے ہیں، غریبوں کی حق تلفی ہم کرتے ہیں۔
دفتر، مدرسہ، اسکول، بازار، جم، ایئر پورٹ، بسوں، جہاز، کون سی جگہ ایسی ہے جہاں خواتیں کو ہراساں نہیں کیا جاتا؟ مدرسوں میں بچوں کے ساتھ بد فعلی کی جاتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2018 میں پاکستان کے چار صوبوں میں تین ہزار آٹھ سو بتیس کیسز چائلڈ ایبیوز کے نام پہ رپورٹ ہوئے۔ جب کہ کشمیر اور بلتستان میں تین ہزار چار سو پنتالیس کیسز چائلڈ ایبیوز کے نام پر رپورٹ ہوئے اور یہ ہم سب کو پتہ ہے کہ کتنے فیصد لوگ رپورٹ کراتے ہیں، ہمارے معاشرے میں عزت کی خاطر لوگ چُپ رہ جاتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق 2018 ء میں 2017 کے مقابلے گیارہ فیصد زیادہ بچوں کے ساتھ بد فعلی کے کیس سامنے آئے ہیں، پاکستان میں ہر روز دس بچوں کے ساتھ چائلڈ ایبیوز یعنی بد فعلی کی جاتی ہے، ان میں بچیوں کی عمر ایک سے پانچ سال اور سولہ سے اٹھارہ سال ہے۔ جب کے بچوں کی عمر چھے سے پندرہ سال کے درمیان ہے۔
مسئلہ کہاں ہے؟ اِس کی روک تھام کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ کیا ریاست کو ذمہ داری لینی ہو گی؟ یا ہمیں بھی کچھ کرنا ہے؟
اِس میں ریاست کا کردار تو ہے ہی لیکن، ہمیں اپنے طور پر بھی چاہیے کہ، ہم کاروبار کریں مگر بے ایمانی اور دو نمبری سے بچیں۔ خواتین کے لیے اسکولوں، کالجوں، دفتروں اور یونیورسٹیوں میں ایک ایسا ماحول مہیا کریں کہ وہ مردوں کے درمیان غیر محفوظ محسوس نا کریں۔ دوسروں کی بہنوں، بیٹیوں سے اپنی بہنوں، بیٹیوں کی طرح برتاؤ کیا جائے۔ اللہ پہ کامل یقین ہو کو جھوٹ نا بھی بولوں تو مال بک جائے گا۔ ملاوٹ نا بھی کروں تو اللہ حلال رزق میں برکت ڈالے گا۔ اور بچوں کے معاملے میں یہ احتیاطی اور اصلاحی تدابیر اپنائی جائیں۔
بچوں کو ڈرائیور کے ساتھ کہیں بھی اکیلے نا بھیجا جائے۔ ٹیچر ہو یا مولوی کسی پر بھی اندھا اعتبار نا کیا جائے، جھنگ میں ہونے والا مولوی کا کیس سب کے سامنے ہے اور زینب والے کیس میں بھی عمران نعت خواں تھا۔ گھر میں بچوں کو بتایا جائے کہ کن کن سے آپ ملو گے، سگے کون ہیں اور اگر کوئی آپ کے پرائیویٹ پارٹس کو چھوئے تو ہمیں بتایا جائے۔ بچوں کو اعتماد میں لیا جائے تاکے وہ اپنی ہر بات آپ کے ساتھ شیئر کریں۔ بچوں کو گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کے بارے میں بتایا جائے۔ اپنے کسی رشتہ دار کے گھر اکیلے چھٹیاں گزارنے نابھیجا جائے۔ دکان وغیرہ پر اکیلے نا بھیجا جائے۔
اِس کا علاوہ ہمیں چاہیے کہ اپنے علاقے میں محلے میں، کالونی میں، بازار میں یا کہیں بھی مشکوک طریقے سے بچوں کوچھوتے یا تنگ کرتے ہوئے کسی کو دیکھو تو اپنا بچہ سمجھتے ہوئے اسے روکا جائے اس سے پوچھ گچھ کی جائے، اور ضرورت پڑنے پر پولیس کے حوالے کیا جائے۔ یہ ہم سب کا فرض بنتا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2025 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.