کورونا وباء میں اوورسیز پاکستانیوں کی عید کیسی گزری؟

منگل 9 جون 2020

Mohammad Faisal

محمد فیصل

دنیا کے بیشتر ممالک کے شہریوں کی طرح ہم کویت میں رہنے والوں کے لیے بھی لاک ڈاوٴن کی اصطلاح اور تجربہ بالکل نیا تھا۔ حکومتِ کویت کی جانب سے لاک ڈاوٴن کیے جانے کے بعد مجھے پہلی حیرت کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب میں نے گھر سے دفتر جانے کے لیے خصوصی اجازت نامہ حاصل کیا اور گھر سے نکلتے ہی اپنے گنجان آباد علاقے کو ویران و سنسان دیکھا۔

خیر اگلے چند روز صورتِ حال کو سمجھنے اور پابندی کے اطلاق کی حدود کو جاننے میں لگے۔ پھر ہمیں معلوم ہو گیا کہ بس جو بھی خریداری کرنی ہے شام چار بجے سے پہلے ہی کر لیں اور اپنی ذائقے کی حس کو بھی صبح ہی جگا کر پوچھ لیں کہ آپ شام یا نصف شب میں کیا تناول کرنا پسند فرما سکتی ہیں۔ پھر رفتہ رفتہ لاک ڈاؤن مکمل کرفیو میں بدل گیا۔

(جاری ہے)

اس دوران کویت میں وہ مناظر دیکھے جو اس سے پہلے کبھی نہ دیکھے تھے۔

روشنیوں سے جگمگاتی مساجد، شاپنگ مارکیٹس، رمضان کریم کے جگمگاتے فانوس، رمضان اور عید کی شاپنگ کی گہما گہمی وغیرہ کچھ بھی نظرنہ آیا، جن بازاروں میں کبھی تل دھرنے کی جگہ نہ ملتی تھی رمضان المبارک میں ان کی تنہائی اور خاموشی ڈرانے لگی تھی۔
رمضان المبارک اسلامی کیلینڈر کا نواں اور بابرکت مہینہ ہے اس سال اس عظمت والے مہینے کی شروعات زیادہ تر ممالک میں جمعہ کو ہوئی۔

دنیا میں کروڑوں مسلمان رواں برس رمضان کو روایتی طریقوں سے ہٹ کر ذرا مختلف انداز میں منا رہے ہیں کیونکہ کورونا وائرس کی وبا سے نمنٹنے کے لیے تمام ممالک نے کچھ پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جن میں مساجد اور دیگر عبادت خانوں کو بند کیا گیا ہے، اجتماعات پر پابندی عائد ہے اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی ہدایات کے علاوہ مجبوری کے عالم میں بھی گھر سے نکلنے کے لیے حفاظتی اقدامات مکمل کر کے گھروں سے نکلنے کی تاکید کی گئی ہے۔

مساجد سے ہر نماز کے وقت اللہ کی کبریائی کا اعلان کرتے ہوئے موذن دکھی دل سے یہ اعلان بھی کرتا ہے کہ نمازیں اپنے گھروں میں ادا کریں۔ رمضان المبارک کا ایک خاص مزاج خاص روایت ہوا کرتی ہے، جب دنیا کے ایک ارب پچاسی کروڑ مسلمان قبل طوع سحر سے غروب آفتاب تک روزہ رکھتے ہیں، مسلمان جوق در جوق مساجد کا رخ کرتے ہیں، رشتہ دار اور دوست احباب مل کر روزہ افطار کرتے ہیں اور باجماعت نماز، باجماعت تراویح و صلوتہ قیام اللیل ادا کرتے تھے۔

لیکن اس برس ہم نے یہ مقدس مہینہ گھروں میں رہ کر گزارا۔ کورونا وائرس نے چند ہی ماہ میں دنیا بدل کر رکھ دی ہے۔ اسکول اور یونیورسٹیاں بند ہو چکی ہیں، دوستوں اور عزیزوں سے میل ملاقات بھی بند ہے لیکن شکریہ اس ٹیکنالوجی کا کہ ہماری 'ورچوئل' ملاقاتیں کبھی کبھی ہو جاتی ہیں۔ اب ہم مختلف اپلیکیشنز کے ذریعہ اپنے دوستوں عزیزوں سے ملاقات اور دیگر تقاریب میں 'غائبانہ شرکت' کر رہے ہیں، آن لائن مشاعرے، آن لائن محافل ذکر و نعت، آن لائن میٹنگز اور درس قرآن و حدیث سے بھی فیض یاب ہو رہے ہیں، امید واثق ہے کہ ہم آپ کو عید الفطر کی مبارکباد بھی اسی طرح اپنے کمپیوٹر یا موبائل سے ہی دیں گے۔


دنیا کے مختلف ممالک خاص طور پر جہاں کورونا کی وبا سے بہت ہلاکتیں ہوئیں ہیں وہاں اس بار خوشیوں اور تقاریب کو منانے کے بجائے اداسی کی فضا ہے۔ کس نے سوچا تھا کہ یہ سال وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے تاریخی قرار پائے گا اور وقت ایسی کروٹ لے گا کہ دنیا اس سال کو کورونا کی وجہ سے یاد رکھے گی۔ گزشتہ چند ماہ میں پوری دنیا نے اس وبا کے باعث بہت نقصانات اٹھائے ہیں۔

لاکھوں لوگ اس بیماری میں اپنی زندگی ہار بیٹھے ہیں۔ بہت سے گھرانے اپنے پیاروں کے چلے جانے سے غمگین ہیں تو کروڑوں لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں۔ یہ رمضان گزشتہ رمضان کی نسبت خاصا مختلف گزرا، نہ کوئی رونق ہے نہ کوئی سرگرمی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لاک ڈاوٴن کا اثر ذہنوں پر اتنا پڑا ہے کہ اس مہینے کی پرجوش روایتیں کچھ ماند پڑ گئی ہیں۔ میرے بڑے بھائی بتا رہے تھے کہ گزشتہ برس ان ہی دنوں میری(بھائی کی) درزی سے اس بات پر بحث ہو رہی تھی کہ اب وہ مزید کوئی سوٹ کیوں نہیں سی سکتا کیوں کہ اس کے بقول تو رمضان تک بکنگ بند ہوگئی تھی۔

اب یہ حال ہے کہ درزی کا روز ہی فون آ رہا ہے کہ کوئی سوٹ ہے تو دے دیں تا کہ میں کچھ کما سکوں۔ لاک ڈاوٴن سے دکان بند ہے اور گھر کا چولہا چلانا بھی مشکل ہو رہا ہے۔ ان حالات میں کیا عید منائیں؟ کیونکہ ہر ایک کی ضرورت تو ایک دوسرے سے جڑی ہے۔ وہ دکان دار جو رمضان کا سارا سال انتظار کرتے تھے کہ اس ماہ وہ کوئی اسٹال لگائیں یا کوئی بھی مال بیچیں گے تو منافع ہو گا۔

وہ اب ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہے۔ نہ جانے ان کا گزارہ کیسے ہو رہا ہو گا؟ سالوں سے ہمارے گھر میں کام کرنے والی آنٹی نے بھی پہلی بار وہ کہا جو پہلے کبھی سنا ہی نہیں تھا کہ ''مجھے عید کا جوڑا نہیں چاہیے، بس راشن دے دیں، تاکہ بچوں کی عید گزر جائے'' کرونا وائرس نے جہاں سماجی فاصلے بڑھائے ہیں وہیں اپنوں کو ایک دوسرے کے قریب بھی کیا ہے۔ اس سال عید کا پیغام یہی ہے کہ سماجی فاصلوں کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ جذباتی فاصلوں کو کم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

تاکہ ہم ایک دوسرے کے حالات جان سکیں، ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھ سکیں اور ممکن ہو تو دوسروں کے کام آ سکیں، کوشش ضرور کریں، آپ کی وجہ سے کسی کے بچوں کو عید کے دن کھانا مل جائے جو لوگ اس وبا کی وجہ سے بے روزگار ہو چکے اللہ آپ کو اور مجھے ان کا مدد گار بنا دے، بے شک اللہ ہی بہتر مدد گار ہے مگر اللہ عزوجل آپ کو اور مجھے ان کا وسیلہ بنا دے۔ آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :