پاکستان میں اسمبلی صوبائی ہو یا قومی سب ایک جیسی ہی ہیں ملک میں اسوقت چودہ اسمبلیاں وقت گزار چکی ہیں او ر پندرہویں اسمبلی نے حلف اٹھا لیا ہے ا ن سب کے بے شماراجلاس ہو چکے ہیں ان اجلاسوں میں اب تک عوامی مفاد کا کوئی بل پاس نہ ہو سکا ہر اجلاس میں اسمبلی ممبران کے آپس کے جھگڑے ایک پارٹی ممبران کے دوسری پارٹی ممبران پر سیاسی حملے ایک دوسرے پر الزامات تحاریک استحقاق یا اپنے مفادات کے بل )جوفوراً پاس ہو جاتے ہیں( پر کام ہوتا ہے جبکہ یہ ممبران عوام کے ٹیکس سے بھاری تنخواہیں آنے جانے کا بزنس کلاس کاکرایہ اسمبلی حال بیٹھنے کی یومیہ کے حساب سے مزدوری اور اسمبلی حال میں چائے پانی اور لنچ ڈنر حکومت کے ذمہ ہوتا ہے ۔
مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ اتناکچھ لے کر عوام کو کیا دیتے ہیں ۔
(جاری ہے)
1973کے آئین میں اب تک پچیس ترامیم ہو چکی ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے،1973کے آئین میں ترامیم ۔
پہلی ترمیم 1974 میں کی گئی جس میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کے طور پر تسلیم کیا گیا اور پاکستان کی سرحدوں کا ازسرے نو تعین کرنے کا جائزہ لیا گیا ۔ دوسری ترمیم بھی دسمبر 1974میں کی گئی جس میں قادیانیوں ( احمدیوں )کو اقلیت قرار دیا گیا ۔
تیسری ترمیم 18فروری 1975 میں کی گئی جس میں دفعات کے متعلق نمبر تبدیل کئے گئے مثلاً چار کی جگہ پانچ اور دو کی جگہ چار کیا گیا۔ چوتھی ترمیم میں اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستوں کا جائزہ لیا گیا اور سنگین جرائم میں قبل از گرفتاری کیس میں عدالتی اختیارات کو کم کیا گیا یا ختم کر دیا گیا ہے ۔
پانچویں ترمیم کی رو سے پاکستان کی تمام صوبائی عدالت عالیہ سے وہ تمام اختیارات واپس لے لیے گئے جن کی مدد سے کوئی بھی عدالت کسی شخص کے بنیادی انسانی حقوق کے فیصلے کر سکتی تھی ۔
یہ ترمیم 5دسمبر1976میں کی گئی ۔
چھٹی ترمیم 22دسمبر 1976میں کی گئی جس کے تحت عدالت عظمیٰ کے منصب اعظم کے حوالے سے یہ نکات داخل کئے گئے کہ 65 سال کی عمر میں ریٹائرڈ ہوں گے اور صوبائی عدالت عالیہ کے منصب اعظم 62سال کی عمر میں لازماً ریٹائرڈ ہو گے ۔ ساتویں ترمیم 1977میں کی گئی جس کی رو سے وزیر اعظم کو یہ حق دیا گیا کہ وہ صدر پاکستان کی اجازت سے ایک قو می رفرنڈم کے ذریعے ملک میں عوامی اعتماد کا ووٹ لے سکتا ہے ۔
یہ ترمیم ذولفقار علی بھٹو صاحب کی حکومت میں کی گئی۔
آٹھویں ترمیم ۔یہ ترمیم 1985 میں کی گئی اس ترمیم کی رو سے حکومت پاکستان پالیمانی طرز حکومت سے جزوی طور پر صدارتی طرز حکومت میں تبدیل ہو گئی جس کی رو سے صدر مملکت صاحب جب سمجھیں کہ وزیر اعظم نظام حکومت کو درست طور پر نہیں چلا رہے تو صدر مملکت صاحب اسمبلی کو برخواست کر سکتا ہے ۔
نویں ترمیم کا بل سینٹ میں منظور ہوا اسے 17اگست 1986 میں قومی اسمبلی میں بھیج دیا گیا اسے شریعہ بل کانام دیا گیا ۔ دسویں ترمیم کے تحت علاقوں کی مخصوص نشستوں میں اضافہ کیا گیا ۔ گیارویں ترمیم کے تحت نواز شریف صاحب کی حکومت نے مخصوص نشستوں میں جو اضافہ کیا گیا تھا اسے واپس لے لیا گیا ۔ بارہویں ترمیم 26جولائی 1994 میں کی گئی آئین میں شق نمبر 212 کا اضافہ کیا گیا جس کے تحت سنگین جرائم کی سماعت کے لئے خصوصی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا ۔
تہرویں ترمیم 1997میں نواز شریف صاحب کی حکومت نے منظور کی تھی اس ترمیم کی رو سے صدر مملکت صاحب کے اختیارات تحلیل اسمبلی ختم ہوگئے ۔ چوہدویں ترمیم کی رو سے نواز شریف صاحب کی حکومت نے وفاداریاں تبدیل کرنے اور ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کی کوشش کی گئی تھی۔ پندرہویں ترمیم کے تحت نواز شریف صاحب کی حکومت نے کلی اختیارات حاصل کر نے کی کوشش کی تھی۔
سولہویں ترمیم کی روح سے نوازشریف صاحب نے کوٹہ سسٹم کی میعاد بیس سال سے بڑھا کر چالیس سال کر دی تھی ۔ سترہویں ترمیم دسمبر 2003 میں ہوئی اس ترمیم کی رو سے صد مملکت صاحب کے اختیارات کی واپسی اور ایل ایف او کو آئین کا حصہ بنایاگیا ۔ اٹھارہویں ترمیم اپریل2010 میں کی گئی اس وقت آ صف علی زرداری صاحب صدر مملکت تھے اس ترمیم کی رو سے صدارتی اختیارات وزیر اعظم کو واپس کیے گئے ۔
انیسویں ترمیم کی رو سے اسلام آباد ہائی کور ٹس کا قیام اور ججز صاحبان کی تقرری عمل میں لائی گئی ۔ بیسویں ترمیم کی رو سے ایک آزاد الیکشن کمیشن کا قیام اور ایک غیر جانب دار عبور ی حکومت کا قیام ہے۔
اکیسویں ترمیم کی رو سے سانحہ اے پی ایس کے بعد ملٹری کورٹس متعارف کروائیں گئیں جن کی مددت دو سال تھی۔ ۔
بائیسویں ترمیم چیف الیکشن کمش آف پاکستان کی اہلیت کا دائرہ کار تبدیل کیا گیا اس کی رو سے بیوروکریٹس اور تیکنو کریٹس بھی الیکشن کمیشن کے ممبر بن سکیں گے ۔
تئیسویں ترمیم ملٹری کورٹس کی مدت دو سال کے لئے تھی جو کہ 6 جنوری 2017 کو ختم ہو رہی تھی اس کو دو سال کو لیے مزید تو سعی دی گئی اب ملٹری کورٹس 6جنوری 2019 تک کام کر سکیں گے۔ چوبیسویں ترمیم نئی مردم شماری کے نتائج کی بنیاد پر حلقہ بندیوں کو دوبارہ تشکیل دیا گیا ہے۔ پچیسویں ترمیم کی رو سے فاٹاکو صوبہ کے پی کے میں زم کرنے کے لئے صدرمملکت پاکستان نے 31 مئی2018 میں دستخط کیے ۔
ان پچیس ترامیم یا قانونز میں ایک بھی عوامی فلاہی قانون کا کو ئی ذکر نہیں ہے جبکہ اسمبلی ارکان عوام کی طرف سے ادا کیے گئے فنڈسے تنخواہ وصول کرتے ہیں جبکہ جس کام کے لئے یہ لوگ منتخب ہوتے ہیں وہ کام تو کرتے نہیں بلکہ سڑکیں گلیاں بناتے ہیں جس کے لئے تو بہت سے محکمے موجود ہیں اس لئے ان سے گزارش ہے کی یہ اپنا کام کریں دوسروں کے کام میں مداخلت نہ کریں ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔