آزادی پاکستان میں مہاجرین کی کہانی ۔ آخری قسط

پیر 17 اگست 2020

Mohammad Hanif Abdul Aziz

محمد حنیف عبدالعزیز

یہ باتیں مجھے میرے والد اور والدہ نے بتائی ہیں ۔ کیونکہ بندہ پاکستان بننے کے کئی سال بعد پیداہوا تھا اس لئے ان ہی کی زبانی سنیے۔
ہم اپنے قافلے کے ساتھ پورا خاندان لاہور کیمپ میں پہنچ گیا وہاں ہم نے تقریباً ایک ماہ قیام کیا سفر کی تھکاوٹ دور کی سفر کے دوران جو بیمار یا زخمی ہوئے ان کاعلاج وغیرہ ہوا کیونکہ کیمپ میں یہ سب انتظام موجود تھا ۔

کیمپ میں ہی ہمیں پتہ چلا کہ سرگودھا شہر سے بہت زیادہ لوگ ہندو اور سکھ مکانات خالی کر کے جاچکے گئے ہیں ۔ ہم لاہور سے ریل گاڑی میں بیٹھ گئے کیونکہ ریل گاڑی کا کوئی کرایہ نہ تھا ۔ہم مختلف ریل گاڑیاں تبدیل کر تے ہوئے سرگودھا شہر چلے گئے۔ سرگودھا پہنچنے پر وہاں کی انتظامیہ نے ہمارے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا ہمیں کھانا اور رہائش وغیرہ دے دی گئی۔

(جاری ہے)

کام کے لئے سامان سے بھری ہوئی دکانیں ہمیں دے دی گئیں اور کہا گیا کی یہ دکانیں اور سامان اور مکانات سب تہارے ہیں دکانیں کھولو اور ان کو چلاؤ۔ یہاں پر ہمارے لئے کچھ مسائل تھے ہم سب لوگ دیہات سے آئے تھے زمیندارہ کرتے تھے ہمیں دکانیں چلانے کا تجربہ نہ تھا اور ہمارا وہاں جاننے والا بھی کوئی نہ تھا ۔ اس لئے ہمارا وہاں دل اچاٹ ہوگیا تقریباً ایک ماہ بعد ہی ہم نے سرگودھا شہر کو بھی چھوڑ دیا ۔

تقسیم سے بہت پہلے ہمارے تا یاکا بیٹا لائلپور کے گاؤں چک نمبر ۴۷۹ گ ب میں آباد ہو گیا تھا اس لئے فیصلہ کیا گیا کہ اس کے پاس چلتے ہیں ۔ ہمارے پاس کوئی سامان وغیرہ نہ تھا زمین پرہی سوتے تھے ایک دو برتن تھے جس میں کھانا وغیرہ پکالیتے تھے ۔ ریل گاڑی میں کرایہ نہ تھا کیونکہ مہاجرین کے لئے یہ سہولت مفت تھی ۔ بلوایوں کا کوئی خطرہ نہ تھا اپناملک جو تھا ۔

اس لئے اب سفر کر نے میں کہیں آنے جانے میں کوئی پریشانی نہیں تھی ۔ہم سب گاڑی میں بیٹھے لائل پور آگئے وہاں سے چک نمبر ۴۷۹ گ ب میں پہنچ گئے ۔ یہ گاؤں مکمل طور پر جاٹوں کا تھایہ لوگ بھی ۱۹۰۱ء میں آکر آباد ہوئے تھے کیونکہ اس سے پہلے یہ علاقہ بے آباد تھاجب انگریزوں کی حکومت آئی اس نے نہری نظام بنایا اور اس علاقے کو آباد کیا اور لوگوں کو زمین الاٹ کی ان کے بزرگ بتایا کر تے کہ یہ زمین ہم نے دو سو پچاس روپے سکہ رائج الوقت فی مربع(۲۵ ایکڑ)سرکار سے خرید کیا ہے اس وقت کاغذی نوٹ نہیں ہوتے تھے صرف سکہ ہوتا تھا اور ایک روپیہ ایک تولہ کاہوتا تھا۔

اب یہ علاقہ مکمل آباد ہو چکا تھا اور زمین پوری پیداوار دے رہی تھی ۔ ہم لوگ اس گاؤں میں آئے ہمارا اچھا استقبال ہوا یہاں کافی مکان خالی تھے جو ہندو یا سکھ چھوڑ کر چلے گئے تھے ہمیں وہ مکان دے دیے گئے زیادہ لوگ اچھے رحم دل تھے خدا ترس تھے لالچی اور نفس پسند کم لوگ ہی تھے ۔ کچھ لوگ جیلس قسم کے بھی تھے جوچاہتے تھے کہ یہ ہندووں اور سکھوں کے مال مکان وغیرہ ان کو ملنا چاہیے تھا ۔

ہمیں مکان کے ساتھ تھوڑا بہت کھانے پینے کا سامان بھی دیا گیا ۔ اب ہماری کام کر نے کی باری تھی کیونکہ خود کام کر کے ہی سکون مل سکتا تھا اور ہم کام بھی زمینوں کا ہی کر سکتے تھے کسی زمین دارکے ساتھ ہل چلا دیا، بیج ڈلوادیااور فصل کی کھوڈی کر دی وغیرہ۔ کماد کی کٹائی آخری مرحلے میں تھی گندم کی بوئی بھی ختم ہو چکی تھی ۔ ہم لوگ جب کسی کے پاس جاتے تھے کچھ لوگ کام سے خوش ہو کر ضرورت سے زیادہ مزدوری بھی دے دیتے تھے بہت کم لوگ ہمیں حقیر پناہ گیر ضرورت مند کہتے تھے وہ مزدوری دیتے وقت بھی کنجوسی کرلیتے تھے ۔

سمندری کا شہر گاؤں سے چھ میل کے فاصلے پر تھا اکثر لوگوں نے شہر سے سامان لا کر گاؤں گاؤں پھیری لگانی شروع کر دی۔ عورتوں نے گندم کی کٹائی کے بعد کھیت میں گندم کے جو سٹے گر جاتے ہیں وہ اکٹھے کر نے شروع کر دیے اس سے گھر میں اناج جمع ہو جاتا تھا ۔ کسی نے بھینس یا بکری لے لی۔ گاؤں کے کئی لوگوں نے امداد کے طورپربکری یا بھیس کا بچہ بھی دیا۔

زمین داروں کے کھیتوں سے عورتیں کھاس کاٹ کر لے آتیں اس کا دودھ دھو لیتیں جس سے دودھ کا مسلہ حل ہو جاتا کیونکہ گاؤں میں دودھ کی فروخت کا رواج نہ تھا لوگ ایک دوسرے کو مفت دودھ اور لسی دے دیتے تھے ۔کئی گھروالیاں ہمیں لسی دیتیں تھیں اس میں مکھن بھی ڈال دیتیں تھیں کیونکہ وہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے مسافر خیال کر تیں تھیں۔ لوگ دودھ سے مکھن اور گھی بنا کر فروخت کرتے تھے کیونکہ اس وقت بناسپتی گھی یا آئل کا رواج نہ تھا البتہ سرسوں کا تیل کھایا جاتا تھا۔

اس طرح وقت گزرنے لگا۔ انیس سو باون ( ۱۹۵۲) میں حکومت پاکستان نے اعلان کیا کہ جو مہاجرین ہندوستان سے آئے ہیں اگر وہ زمیندارہ کر ناچاہتے ہیں ان کو سرکاری زمین جو تقریباً ہر گاؤں میں بے کار پڑی تھی ۔ ان کاٹینڈر کرکے ٹھیکے پر دے دی جائے اس طرح کسی کو پانچ ایکڑ کسی کو آٹھ ایکڑ زمین دے دی گئی ۔ ہم سب کو جو زمین ملی اس کے لئے پانی نہیں تھا ۔

اور مقامی لوگ پانی دینا نہیں چاہتے تھے بڑی کوشش کے بعد پانی حاصل کیا گیا ۔ اس کے ساتھ ہی گاؤں میں باہر کی طرف خالی زمین پڑی تھی وہ ہم لوگوں کو رہائش کے لئے الاٹ کر دی گئی ۔ انیس سو چھیاسٹھ( ۱۹۶۶) میں حکو مت پاکستان نے اعلان کیا کہ جو زمین ٹھیکے پر مہاجرین کو دی گئی ہے اگر وہ زمین کی سرکاری قیمت ادا کردیں و ہ زمین کے مالک بن جائیں گے اس طرح ہم پاکستان میں زمین کے مالک بن گئے ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے وہ سب کچھ جو اس کی رہ میں قربان کیا تھا وہ منافع کے ساتھ عطاکر دیا ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ملک پاکستان کو ہمیشہ قائم ودائم رکھے امین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :