
کاشتکار کا دکھ
پیر 7 جون 2021

محسن گورایہ
(جاری ہے)
ہوتا یہ تھا کہ کرشنگ سیزن کے دیر سے شروع ہونے کی وجہ سے کسان گنے کے جال میں پھنسے رہتے تھے اور یوں گندم کی فصل پرتوجہ نہ دے سکتے جس کے نتیجے میں گندم کا بحران پیدا ہوتا ۔ محکمہ خوراک نے بنک کھاتوں کے ذریعے کسانوں کے واجبات کی ادائیگی لازمی قرار دی تھی مگر اسمبلی میں خفیہ طریقے سے پاس بل میں یہ شق ختم کردی گئی، شوگر ملوں کو نقد ادائیگی کی آزادی دے دی گئی،جس کے بعدملوں کی طرف سے کاشتکاروں کو واجبات سے کٹوتیوں
کی وسیع پیمانے پر شکایات پیدا ہوتی ہیں اسی طرح ادائیگی میں تاخیر کرکے 15 فیصد سے زیادہ کٹوتیوں پر راضی ہونے پر مجبور کرتی ہیں، محکمہ خوراک کے آرڈیننس میں اس استحصال کا دروازہ بند کردیا تھا جسے 17 مئی 2021 کی ترمیم نے دوبارہ کھول دیا۔
اور یوں کسانوں کو شوگر ملوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا،ملوں کو تنازعہ کی صورت میں ادائیگیاں روکنے کا اختیار مل گیا، اس سے کسانوں کو ان کے جائز دعووں سے بھی محروم کردیا جائے گا، 1950 ء سے، شوگر فیکٹریاں گنے کی فراہمی کے پندرہ دن کے اندر اندر کسانوں کے واجبات ادا کرنے کی پابند تھیں، تاہم 17 مئی 2021 کو کی گئی ترمیم نے شوگر ملوں کو 30 جون تک ادائیگی نہ کرنے کا اختیار دیدیا،نومبر کے مہینے میں گنے کی فراہمی اور ادائیگی نہ ہونے سے کاشتکار 8 ماہ تک اپنے واجبات ہی نہیں لے سکیں گے، بینک اکاؤنٹ کے ذریعے ادائیگی کی شرط کو ختم کرنے کے ساتھ بر وقت ادائیگی نہ کرنے کاشتکاروں کو مل مالکان کے گھٹنوں میں ڈال دے گا جو اگلی فصل وقت پر بو سکیں گے نہ اچھی پیداوار حاصل کر سکیں گے، ان کے پیداواری اخراجا ت بھی پورے نہ ہو سکیں گے، وہ آڑھتی،مڈل مین یا ملز کے عملے کو اصل کے مقابلے میں کہیں کم قیمت پرفصل فروخت کرنے کے لئے مجبور ہوں گے،ماضی میں ایسے حربوں سے 25 فیصد تک کٹوتی کی جاتی رہی۔
1950 ء سے لاگو قانون کو شوگر ملوں کے فائدے میں تبدیل کرکے آرڈیننس کے ذریعے دفعہ 21 میں ترمیم کی گئی اور جرائم کونا قابل شناخت اور ناقابل ضمانت بنایا گیا، تاہم خفیہ ترمیم نے ان جرائم کو قابل ضمانت قرار دے دیا۔۔اس طرح درمیانی رابطے کے ذریعہ گنے کی غیر قانونی خریداری ایک بہانے یا دوسرے بہانے پر گنے کے وزن سے ملوں کے ذریعہ بھاری کٹوتی، قیمتوں میں کٹوتی وغیرہ سمیت ملوں کی زیادتیوں پر قابو پانے کا کوئی مؤثر ذریعہ نہیں ہوگا، کسان حتمی شکار ہوں گے، ریگولیٹری نظام کی کمی سے استحصالی مارکیٹ قوتوں کو تقویت ملے گی، اس کی وجہ سے گنے کی کاشت میں کچھ سالوں میں قلت پیدا ہوجائے گی اور دوسری فصلوں کی پیداوار میں بھی کمی واقع ہوگی، آئندہ کچھ سالوں میں چینی درآمد کرنا پڑے گی اور کاشتکاروں کا استحصال دگنا ہو جائے گا۔
منظور ہونے والا وہ مسودہ قانون نہیں تھا جو حکومت نے پیش کیا تھا،سیکرٹریٹ میں اس کے مندرجات کو خفیہ طور پر تبدیل کیا گیا کہ ہم نے تجاویز کا جائزہ لیا ہے اور اس کو منظور کیا ہے، افسوسناک بات یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے خفیہ طور پر دلچسپی لی تھی اور غیر قانونی طور پر اس مسودے کو تبدیل کیا اور اسے مافیا فرینڈلی اور کسان دشمن بنا دیا گیا۔
اس عمل سے کاشت کاروں میں بدامنی پھیل چکی ہے کیونکہ خفیہ طور پر پاس ہونے والا یہ ایکٹ گزشتہ اکتوبر میں جاری آرڈیننس کے خلاف تھا جس نے حکومت کو کرشنگ سیزن کے آغاز کی تاریخ طے کرنے کی طاقت دی تھی، ملرز کو گنے کی خریداری سے 15 دن کے اندر کاشتکاروں کوباقاعدہ بینکاری کے ذریعے واجبات ادا کرنے کا پابند کیا تھا، کاشتکاروں کو بچانے کے لئے دوسرے حفاظتی اقدامات کے علاوہ کم تنخواہوں اور غیرقانونی کٹوتیوں کے عمل کو جانچنا بھی شامل تھا،دلچسپ بات یہ کہ پارلیمنٹ کے قواعد سے انحراف کرتے ہوئے بل کی کاپیاں اراکین کو نہیں دی گئیں مگر ترمیم کرنے والوں کے ہاتھ لگ گئیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محسن گورایہ کے کالمز
-
اعتماد سے عاری اپوزیشن
جمعرات 17 فروری 2022
-
ٹکے ٹوکری سیکرٹیریٹ
منگل 15 فروری 2022
-
مقامی حکومتیں ضروری ہیں
ہفتہ 12 فروری 2022
-
’’آ ملے ہیں سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک‘‘
منگل 8 فروری 2022
-
پنجاب ،بلدیاتی انتخابات اور گورننس؟
جمعرات 3 فروری 2022
-
چیف سیکرٹری پنجاب ؟
پیر 31 جنوری 2022
-
مقامی حکومتیں اور با اختیار بیوروکریسی
جمعرات 27 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کی باتیں؟
پیر 24 جنوری 2022
محسن گورایہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.