پٹواری سے امریکہ تک تبدیلی

پیر 21 جون 2021

Mohsin Goraya

محسن گورایہ

اور  تبدیلی کیا ہوتی ہے؟  جس  پٹواری کو ڈھونڈنے کے لئے  چراغ جلانے  اور نذرانے دینے  پڑتے تھے ،وہ  آپ کو سلام کر کے منٹوں میں آپ کا کام کرتا ہے اور قلیل وقت میں آپکی  زمین  کی  فرد ملکیت آپ کے ہاتھ میں  ہوتی ہے  ،دوسری طرف قرضوں میں ڈوبے ہوئے کرپشن زدہ ملک  کا  وزیر اعظم امریکہ جیسے  امیر ترین بلکہ بدمعاش ملک کو فوجی اڈے دینے کی بجائے ،لگی لپٹی کے بغیر ،،ایبسلیوٹلی ناٹ ،، کہ دیتا ہے،انکار کر دیتا ہے۔

پٹواری کی طاقت  اور امریکہ کی اجارہ داری  کو ختم کرنا ہی اصل   تبدیلی ہے  ، وہ وقت بھی تھا  کہ  ہمارے ملک میں والدین اپنے بچوں کو دعائیں دیتے تھے کہ جا ،اللہ تینوں پٹواری لائے اور ہمارے سیاستدان اقتدار حاصل کرنے کے لئے  امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگے رہتے تھے، گریڈ سترہ کے  ایک امریکی اہلکار کے ساتھ تصویر اتروا کر اتراتے تھے کہ اب وہ اگلے حکمران ہوں گے۔

(جاری ہے)

آج وزیر اعظم عمران خان  نے اس روائت کو توڑا ہے تو یہی تبدیلی ہے جس کے لئے قوم نے تگ و  دو  کی ہے۔ایسی ہی تبدیلی پنجاب میں آ چکی ہے  عثمان بزدار جیسا نرم خو اور  اپنی دھن میں مگن ، عوام کی  خدمت کرنے والا وزیر اعلیٰ آہستہ آہستہ کامیابی کی سیڑھیاں چڑھتا  چلا جا رہا ہے۔   
    سینکڑوں سال  پرانا کوئی نظام جس میں حکام،عمال اور اہلکاروں کی مکمل اجارہ داری قائم ہو اور جن کی مرضی کے بغیرکوئی کام کرانا دودھ کی نہر کھودنے کے مترادف ہو ایک مشکل نہیں ناممکن کام ہے،لیکن اگر ایسے محکمہ کو جدید خطوط پر استوار کر کے قلم،رجسٹر اور پٹواری کی مرضی کے بغیر ٹیکنالوجی پر منتقل کر دیا جائے تو یہ ایک بڑا کارنامہ ہو گا،سابق حکومت نے اراضی کے معاملات کو پٹواری سے آزاد کرا کے کمپیوٹر پر منتقل کرنے کے کام کا آغاز کیا مگر ان کے دو  ادوار میں یہ کام مکمل نہ ہو سکا،اور جو ہواء اس پر بے شمار اعتراضات سامنے آئے جس کے بعد اس اہم منصوبہ پر عملدرآمد ہی روک دیا گیا۔

عثمان بزدار حکومت نے اراضی کے معاملات ایک چھت تلے لانے اور عوام کو فرد انتقال کے حصول کیلئے سہولت دینے کے اس کام پر نئے سرے سے کام شروع کیا  اور پٹواری کے سافٹ  وئیر کو اپ گریڈ کر کے  اس سے بہتر نتائج  حاصل کر لئے ۔ آج اراضی کے تمام معاملات ایک چھت تلے انجام دیکر عوام کو سہولت دی جا رہی ہے،بورڈ آف ریونیو کے سینئر ممبر بابر حیات تارڑ کو حکومت پنجاب کی طرف سے یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے اور انہوں نے دن رات کی محنت سے محکمہ مال جو کبھی کرپشن کے حوالے سے محکمہ پولیس کے ہم پلہ تھا کو نہ صرف کرپشن سے پاک کر دیا بلکہ عوام کو ایک چھت تلے اراضی کے تمام معاملات نبٹانے کی سہولت بھی فراہم کر دی۔

بابر حیات تارر کا دعویٰ ہے کہ اس سال کے اختتام تک صوبہ بھر میں آٹھ ہزار کمپیوٹرائزڈ مال مراکز فعال کر دئیے جائیں گے،دلچسپ بات یہ کہ وہ کہتے ہیں اس منصوبہ پر حکومت کو اضافی فنڈز بھی نہیں دینا پڑیں گے،دستیاب وسائل میں ہی یہ منصوبہ مکمل کر کے صوبہ بھر کے عوام کو سہولت فراہم کی جائیگی۔
ماضی میں پولیس ،ایریگیشن اور محکمہ مال کرپشن کی دوڑ میں شانہ بشانہ تھے،مگر اب کچھ بنیادی اصلاحات سے محکمہ مال کو کرپشن فری کرنے میں بڑی مدد مل رہی ہے ا ور اس میں اہم اور نمایاں ترین کردار بابر حیات تارڑ کا ہے،  بابر تارڑ  پنجاب  کا  بیٹا ہے ،زمین کا بیٹا ہے اس لئے اسے ان کاموں کی سمجھ ہے   اگر سابق دور میں یہ منصوبہ شروع کرنے سے پہلے اس میں اصلاحات متعارف کرائی جاتیں اور کچھ ضروری امور بر وقت انجام دئیے جاتے تو اب تک محکمہ مال مثالی محکمہ بن چکا ہوتا،اس محکمہ کی اہم ضرورت اراضی شماری ہے،ملک بھر میں اراضی کے حوالے سے گھپلے قیام پاکستان کے بعد سے ہی شروع ہو گئے تھے جن میں سے اکثر آج بھی موجود ہیں،اہم تریں ضرورت تھی پٹواریوں کے رجسٹروں کو اپ ڈیٹ کرنے کی،سرکاری اراضی،متروکہ وقف املاک،وقف املاک،وفاقی،صوبائی،ضلعی اراضی،پارکس،گرین بیلٹس ،جنگلات کیلئے وقف اراضی دیہات میں شام لاٹ کی الگ سے نشاندہی کی جاتی،اگر ایسی اراضی کسی کے قبضے میں ہے تو اسے واگزار کرایا جاتا،شہری اور دیہی یا رہائشی اور زرعی اراضی کی بھی نشاندہی کی جاتی،جس اراضی پر ملکیت یا قبضہ کا جھگڑا ہے اس کو الگ کر کے باقاعدہ ایک عدالتی کمیشن بنا کر مختصر وقت میں یہ تنازعات حل کئے جاتے،اس کے بعد کمپیوٹرا ئزیشن کی جاتی تو مستقبل میں بہت سی قباحتوں سے نجات مل سکتی تھی،مگر ماضی میں  ان تمام تنازعات،جھگڑوں،اختلافات کو چھیڑے بغیر اراضی کی کمپیوٹرائزیشن کا کام شروع کر دیا گیا جو ابتداء میں ہی ناکامی سے دوچار ہو گیا۔


موجودہ  پنجاب  حکومت  وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی سر براہی میںکسان کو خوشحال بنانے اور زراعت کی ترقی کیلئے اقدامات کر رہی ہے مگر ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے، چند خامیوں کے باوجود  محکمہ مال کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنا بھی اہم ہے،ایک تبدیلی تو پٹوار خانوں کے پرانے ماحول میں میں آئی اور خوش آئند بھی ہے،انگریز دور سے پٹوارخانہ میں پٹواری دیگر عملہ اور سائلین چٹائی پر بیٹھتے،پٹواری کا رجسٹر اور پٹواری کا زور آور قلم ،جس کے لکھے کو کوئی چیلنج کر سکتا تھا نہ مخالفت،اب پٹواری اور عملہ مال مراکز میں میز کرسی پر بیٹھیں گے اور قلم کے بجائے کمپیوٹر پر کام کریں گے،اراضی ریکارڈ میں ردو بدل بھی نا ممکن ہو گئی ہے،فرد ،انتقال اور اراضی سے متعلق تمام معاملات ایک چھت تلے مکمل کئے جائیں گے۔


  ایک زمانہ تھا جب  پٹواری کی من مانی،کرپشن کے بارے میں بھی بہت سی کہانیاں تھیں،پٹواری سے ملاقات ہی ممکن نہ تھی،جبکہ پٹواری سے فرد یا انتقال لے کر پھر رجسٹرار یا اسسٹنٹ کمشنر کے آفس میں دھکے کھانا پڑتے تھے مگر اب یہ سب کام ایک ہی عمارت میں انجام پا رہے ہیں،پہلے  پوری تحصیل میں اس مقصد کیلئے ایک بلڈنگ مخصوص تھی لوگ دور دراز سے وہاں آنے پر مجبور تھے مگر اب 807مراکز فعال ہیں اور رواں سال صوبہ بھر میں آٹھ ہزار مراکز مال فعال ہو جائیں گے جس سے عوام کو اپنے گائوں کے نزدیک بلکہ دہلیز پر اراضی کے معاملات حل کرنے کی سہولت حاصل ہو گی،انہی مراکز پر ڈومیسائل،ڈیتھ اور برتھ سرٹیفیکیٹ بھی فراہم کرنا کا منصوبہ ہے،جس سے شہریوں کو مزید سہولت میسر آئے گی،تاہم ابھی تک ان مراکز پر رجسٹری،انتقال اور فرد کے اجراء کی سہولت دستیاب ہے،مراکز پر موجود افراد کا کہنا ہے کہ آدھے گھنٹے سے کم میں سارے معاملات انجام پا جاتے ہیں،فیس جمع کرا کے آئیں اور دس سے پندرہ منٹ میں انتقال،رجسٹری،فرد حاصل کی جا سکتی ہے جو انتہائی اہم پیش رفت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :