مہنگائی،عثمان بزدار اور انتظامی افسران

جمعہ 1 اکتوبر 2021

Mohsin Goraya

محسن گورایہ

مہنگائی اس وقت ہمارے ملک کا سب سے بڑا ایشو ہے ،تاجر حضرات کسی نہ کسی بہانے قیمتوں  میں اضافہ کر دیتے ہیں مگر کوئی ان کو روکنے یا ان سے باز پرس کرنے والا نظر ہی نہیں آتا تھا  ،اشیائے خوردونوش غریب ،امیر سب کے لئے ضروری ہیں مگر اس مہنگائی نے غریب عوام کی تو کمر ہی توڑ کر رکھ دی ہے۔  تاخیر سے ہی سہی مگر پنجاب حکومت کو آخر کار مہنگائی کے حوالے سے عوام کی اس  تکلیف اور اذیت کا احساس ہو ہی گیا،تحریک انصاف حکومت کی آئینی مدت تیزی سے اختتام پذیر ہو رہی ہے،اس تمام عرصہ میں حکومتی کارکردگی سے قطع نظر عوام کو سب سے زیادہ پریشانی بڑھتی ہوئی مہنگائی سےہوئی،اپوزیشن کو بھی تنقید طعن و طنز کے خوب خوب مواقع ملے مگر سچ یہ ہے کہ عوام کا بھرکس نکل گیا،اچھی یا بری حکومتی کارکردگی کا پیمانہ اس وقت روز افزوں مہنگائی ہے،جس کا اثر آئندہ انتخابی نتائج پر بھی لازمی طور پڑے گا،وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے اس کڑوی حقیقت کو تسلیم کیا اور نئے چیف سیکرٹری پنجاب ڈاکٹرکامران علی افضل  کو منافع خوری اور مہنگائی کو قابو کرنے کا ٹاسک دیا اور اس ضمن میں ان کو مکمل طور پر با اختیار بنا دیا،جس کے بعد چیف سیکرٹری نے ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کو پرائس کنٹرول  میجسٹریٹ  کے اختیارات تفویض کرتے ہوئے فوری طور پر مہنگائی کیخلاف متحرک ہونے کا حکم جاری کیا، چیف سیکرٹری خود بھی مہنگائی  کے مسئلے  پر قابو پانا چاہتے ہیں اور انہوں نے اس کو اپنی پہلی ترجیح بنا رکھا  ہے، انتظامی افسروں سے اپنے پہلے اجلاس میں بھی چیف سیکرٹری نے انہیں ہنگامی بنیاد پر منافع خوروں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا ٹاسک دیا،جس کے نتیجے میں ضلعی انتظامیہ مہنگائی پر قابو پانے کیلئے پوری قوت اور استعداد سے فعال ہو گئی،جس کے اثرات بھی نمودار ہونا شروع ہو گئے ہیں اور سبزی پھلوں کی قیمت میں واضح کمی آئی ہے۔

(جاری ہے)

چیف سیکرٹری کو میرا مشورہ ہے کہ وہ مہنگائی کے خاتمے کے لئے اسسٹنٹ کمشنروں کو  زیادہ سے زیادہ متحرک کریں ،ان کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دیں  اور ان پر اعتماد کریں  اس سطح پر  صوبائی افسر ،وفاقی افسروں کی نسبت بہتر نتائج دے سکتے ہیں،آپ لاہور شہر میں ہی پی اے ایس اور پی ایم ایس اسسٹنٹ کمشنروں کا موازنہ کر لیں دودہ کا دودہ اور پانی کا پانی ہو جائے گا ۔

 
ملک میں مہنگائی حقیقی نہیں مصنوعی ہے،منافع خور مافیا عوام کی جیب پر دونوں ہاتھوں سے ڈاکہ ڈال رہا ہے،متعلقہ ادارے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے نوٹس لینے سے پہلے تک خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے،اور منافع خور دندناتے پھر رہے تھے،مصنوئی مہنگائی کے خاتمہ کیلئے مصنوعی نوعیت کے اقدامات بروئے کار لائے جا رہے تھے جس کا نتیجہ حقیقی طور پر ناکامی کی شکل میں سامنے آرہا تھا مگر  اب  چیف سیکرٹری کے حرکت میں آنے کے بعد مصنوعی مہنگائی کے خاتمہ کیلئے حقیقی اقدامات کے نتائج بھی حقیقی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں اگر چہ ابھی اس ضمن میں  بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے،مگر جیسے گزشتہ کالم میں نشاندہی کی تھی کہ پرچون فروشی کو بھی صنعت کا درجہ دینا ہو گا،جب تک پرچون فروشی کسی لکھت پڑھت میں نہیں آتی مہنگائی پر قابو پانا ممکن نہیں،اسی وجہ سے حکومتی اداروں کا کنٹرول بھی نہیں اور ہر دکاندار بلکہ ریڑھی بان کے اپنے ہی ریٹ ہیں ہر کوئی  دائو لگاتا ہےجیسے کہتے ہیں کہ لگ گیا تو تیر ورنہ تکا،سزا مگر عوام کو بھگتنا پڑتی رہی۔


اس حوالے سے سخت قانون سازی کی ضرورت بھی ہے مگر سابق ادوار میں تاجر طبقہ کو خوش کرنے کیلئے قانون سازی سے گریز کیا گیا اور حالیہ حکومت اپوزیشن کے عدم تعاون کی وجہ سے قانون سازی کرنے سے قاصر ہے،وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو اسی وجہ سے انتظامی افسروں اور ضلعی انتظامیہ کو انتظامی آرڈر کے تحت اختیارات دینا پڑے،ترقی یافتہ ممالک میں ایسے جرائم کی سزائیں انتہائی سخت ہیں جن کے ذریعے انسانی زندگی کو اذیتناک بنایا جاتا ہے یا شہریوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر لوٹا جاتا ہے،مہذب ممالک کے تاجر منافع خوری کے حوالے
 سے کچھ اصول اور اقدار بھی رکھتے ہیں جو انہوں نے اخلاقی طور پر اپنائی ہیں اس حوالے سے کوئی قانون موجود نہیں،مثال کے طور پر تہواروں کے موقع پر تاجر رضاکارانہ قیمتوں میں کمی کر دیتے ہیں تاکہ ہر شہری اور اس کے بچے تہوار کا لطف لے سکے،مگر ہمارے ہاں گنگا
الٹی بہتی ہے ، مذہبی اور قومی تہواروں کے موقع پر بے تحاشا مہنگائی کر دی جاتی ہے جس کی وجہ سے غریب شہریوں کی اکثریت کیلئے تہوار بے مزہ ہو جاتا ہے اور ان کے بچے احساس محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں۔


ارکان پارلیمنٹ کی بنیادی ذمہ داری قانون سازی ہے مگر ہمارے ہاں ارکان کی اکثریت کو قانون سازی سے کچھ غرض نہیں پارٹی کی طرف سے جس ترمیم یا بل کی حمائت کا اعلان ہو اس کی بلا سوچے سمجھے تائید کر دی جاتی ہے اور جس کی مخالفت پارٹی قیادت کرے اسے بغیر سوچے مسترد کر دیا جاتا ہے،مہذب قوم کے منتخب ارکان ہر وقت قانون کا جائزہ لیتے ہیں اور جہاں کوئی قانون  ظالمانہ ہے یا عوا م کی ضرورت کو پورا نہیں کر رہا تواس میں ترامیم کا بل پیش کر دیتا ہے،منتخب ارکان بھی عوام کو آسائش سہولت اور آرام دینے کیلئے ہر وقت تیار و آمادہ ہوتے ہیں،پارٹی قیادت کی طرف سے حمائت یا مخالفت کا انتظار نہیں کرتے،مہنگائی عام شہری کا سب سے برا مسلٔہ ہےمگر ہمارے منتخب نمائندوں میں سے کسی نے اس حوالے سے قانون سازی کی ضرورت پر زور نہیں دیا کسی نے کوئی ترمیمی بل متعارف نہیں کرایا،اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو ہی آخر کار اس حوالے سے اقدام  اٹھانے پڑے  اور قوانین نہ ہونے کے باوجود منافع خوروں کیخلاف کارروائی کیلئے انتظامیہ کو اختیارات تفویض کئے۔


وزیر اعلیٰ اضلاع کی مساوی ترقی کے اپنے وژن پر بھی تیزی سے پیش رفت کر رہے ہیں،اس ضمن میں پسماندہ اضلاع کے بعد اب لاہور کی ترقی کیلئے منصوبہ تیار کیا گیا ہے،لاہور کو سمارٹ سٹی بنانے کیلئے تین سالہ منصوبہ کی منظوری دی گئی،جس کے تحت وسطی شہر کو جدید ترین بنایا جائے گا،اس میں داخلہ کے اوقت مقرر کئے جائیں گے،پرانے شہر کو ماڈل اور پرکشش بنایا جائے گا،ہر کام نیٹ اور موبائل کے ذریعے کرانا ممکن ہو سکے گا،شہری سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹر سے بھی موبائل فون پر وقت لے سکیں گے،کار پارکنگ ،فون بیلنس ،یوٹیلیٹی  بلوں کی ادائیگی،ہوٹلنگ سب نیٹ کے ذریعے ممکن ہو سکے گی،یوں لاہور کے شہری جدید ترین مراعات کیساتھ زندگی سے لطف اندوز ہو سکیں گے،ٹائم کے علاوہ روپے کی بھی بچت ہو گی،اور بروقت سہولیات بھی حاصل ہونگی،یہ اس وزیر اعلیٰ کی سوچ ہے جس کے بارے مخالفین کا خیال ہے کہ وہ نا تجربہ کار ہیں،امید کی جاتی ہے کہ حکومت کی باقیماندہ مدت میں عثمان بزدار پنجاب کا نقشہ بدل دیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :