
مہنگائی،عثمان بزدار اور انتظامی افسران
جمعہ 1 اکتوبر 2021

محسن گورایہ
(جاری ہے)
ملک میں مہنگائی حقیقی نہیں مصنوعی ہے،منافع خور مافیا عوام کی جیب پر دونوں ہاتھوں سے ڈاکہ ڈال رہا ہے،متعلقہ ادارے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے نوٹس لینے سے پہلے تک خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے،اور منافع خور دندناتے پھر رہے تھے،مصنوئی مہنگائی کے خاتمہ کیلئے مصنوعی نوعیت کے اقدامات بروئے کار لائے جا رہے تھے جس کا نتیجہ حقیقی طور پر ناکامی کی شکل میں سامنے آرہا تھا مگر اب چیف سیکرٹری کے حرکت میں آنے کے بعد مصنوعی مہنگائی کے خاتمہ کیلئے حقیقی اقدامات کے نتائج بھی حقیقی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں اگر چہ ابھی اس ضمن میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے،مگر جیسے گزشتہ کالم میں نشاندہی کی تھی کہ پرچون فروشی کو بھی صنعت کا درجہ دینا ہو گا،جب تک پرچون فروشی کسی لکھت پڑھت میں نہیں آتی مہنگائی پر قابو پانا ممکن نہیں،اسی وجہ سے حکومتی اداروں کا کنٹرول بھی نہیں اور ہر دکاندار بلکہ ریڑھی بان کے اپنے ہی ریٹ ہیں ہر کوئی دائو لگاتا ہےجیسے کہتے ہیں کہ لگ گیا تو تیر ورنہ تکا،سزا مگر عوام کو بھگتنا پڑتی رہی۔
اس حوالے سے سخت قانون سازی کی ضرورت بھی ہے مگر سابق ادوار میں تاجر طبقہ کو خوش کرنے کیلئے قانون سازی سے گریز کیا گیا اور حالیہ حکومت اپوزیشن کے عدم تعاون کی وجہ سے قانون سازی کرنے سے قاصر ہے،وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو اسی وجہ سے انتظامی افسروں اور ضلعی انتظامیہ کو انتظامی آرڈر کے تحت اختیارات دینا پڑے،ترقی یافتہ ممالک میں ایسے جرائم کی سزائیں انتہائی سخت ہیں جن کے ذریعے انسانی زندگی کو اذیتناک بنایا جاتا ہے یا شہریوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر لوٹا جاتا ہے،مہذب ممالک کے تاجر منافع خوری کے حوالے
سے کچھ اصول اور اقدار بھی رکھتے ہیں جو انہوں نے اخلاقی طور پر اپنائی ہیں اس حوالے سے کوئی قانون موجود نہیں،مثال کے طور پر تہواروں کے موقع پر تاجر رضاکارانہ قیمتوں میں کمی کر دیتے ہیں تاکہ ہر شہری اور اس کے بچے تہوار کا لطف لے سکے،مگر ہمارے ہاں گنگا
الٹی بہتی ہے ، مذہبی اور قومی تہواروں کے موقع پر بے تحاشا مہنگائی کر دی جاتی ہے جس کی وجہ سے غریب شہریوں کی اکثریت کیلئے تہوار بے مزہ ہو جاتا ہے اور ان کے بچے احساس محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ارکان پارلیمنٹ کی بنیادی ذمہ داری قانون سازی ہے مگر ہمارے ہاں ارکان کی اکثریت کو قانون سازی سے کچھ غرض نہیں پارٹی کی طرف سے جس ترمیم یا بل کی حمائت کا اعلان ہو اس کی بلا سوچے سمجھے تائید کر دی جاتی ہے اور جس کی مخالفت پارٹی قیادت کرے اسے بغیر سوچے مسترد کر دیا جاتا ہے،مہذب قوم کے منتخب ارکان ہر وقت قانون کا جائزہ لیتے ہیں اور جہاں کوئی قانون ظالمانہ ہے یا عوا م کی ضرورت کو پورا نہیں کر رہا تواس میں ترامیم کا بل پیش کر دیتا ہے،منتخب ارکان بھی عوام کو آسائش سہولت اور آرام دینے کیلئے ہر وقت تیار و آمادہ ہوتے ہیں،پارٹی قیادت کی طرف سے حمائت یا مخالفت کا انتظار نہیں کرتے،مہنگائی عام شہری کا سب سے برا مسلٔہ ہےمگر ہمارے منتخب نمائندوں میں سے کسی نے اس حوالے سے قانون سازی کی ضرورت پر زور نہیں دیا کسی نے کوئی ترمیمی بل متعارف نہیں کرایا،اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو ہی آخر کار اس حوالے سے اقدام اٹھانے پڑے اور قوانین نہ ہونے کے باوجود منافع خوروں کیخلاف کارروائی کیلئے انتظامیہ کو اختیارات تفویض کئے۔
وزیر اعلیٰ اضلاع کی مساوی ترقی کے اپنے وژن پر بھی تیزی سے پیش رفت کر رہے ہیں،اس ضمن میں پسماندہ اضلاع کے بعد اب لاہور کی ترقی کیلئے منصوبہ تیار کیا گیا ہے،لاہور کو سمارٹ سٹی بنانے کیلئے تین سالہ منصوبہ کی منظوری دی گئی،جس کے تحت وسطی شہر کو جدید ترین بنایا جائے گا،اس میں داخلہ کے اوقت مقرر کئے جائیں گے،پرانے شہر کو ماڈل اور پرکشش بنایا جائے گا،ہر کام نیٹ اور موبائل کے ذریعے کرانا ممکن ہو سکے گا،شہری سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹر سے بھی موبائل فون پر وقت لے سکیں گے،کار پارکنگ ،فون بیلنس ،یوٹیلیٹی بلوں کی ادائیگی،ہوٹلنگ سب نیٹ کے ذریعے ممکن ہو سکے گی،یوں لاہور کے شہری جدید ترین مراعات کیساتھ زندگی سے لطف اندوز ہو سکیں گے،ٹائم کے علاوہ روپے کی بھی بچت ہو گی،اور بروقت سہولیات بھی حاصل ہونگی،یہ اس وزیر اعلیٰ کی سوچ ہے جس کے بارے مخالفین کا خیال ہے کہ وہ نا تجربہ کار ہیں،امید کی جاتی ہے کہ حکومت کی باقیماندہ مدت میں عثمان بزدار پنجاب کا نقشہ بدل دیں گے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محسن گورایہ کے کالمز
-
اعتماد سے عاری اپوزیشن
جمعرات 17 فروری 2022
-
ٹکے ٹوکری سیکرٹیریٹ
منگل 15 فروری 2022
-
مقامی حکومتیں ضروری ہیں
ہفتہ 12 فروری 2022
-
’’آ ملے ہیں سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک‘‘
منگل 8 فروری 2022
-
پنجاب ،بلدیاتی انتخابات اور گورننس؟
جمعرات 3 فروری 2022
-
چیف سیکرٹری پنجاب ؟
پیر 31 جنوری 2022
-
مقامی حکومتیں اور با اختیار بیوروکریسی
جمعرات 27 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کی باتیں؟
پیر 24 جنوری 2022
محسن گورایہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.