
پنجاب کے نئے ترجمان اور حکومتی معاملات
منگل 2 نومبر 2021

محسن گورایہ
(جاری ہے)
پنجاب حکومت نے اپنے تئیں صوبہ کو ترقی کی راہ پر تیز تر چلانے کیلئے بے تحاشا کام کیا ہے مگر جانے کیا بات ہے کہ حکومتی ذمہ دار اس کارکردگی کو عوامی سطح پر اجاگر نہ کر سکے شائد اس کی وجہ ماضی میں اپنے کارناموں کی بجائے اپوزیشن کے الزامات کے جواب دینے پر توجہ مرکوز کرنا رہی،اب حسان خاور کی تعیناتی سے اب حکومتی کارناموں اور ترقیاتی کاموں کو عوامی سطح پر بہتر انداز سے روشناس کرایا جا سکے گا،پنجاب حکومت کے میڈیا سے تعلقات میں بھی اس عرصہ کے دوران اونچ نیچ آتی رہی، حکومت کے متعدد ترجمانوں کے باوجود میڈیا سے تعلقات بہتر نہ ہو سکے ؟ان وجوہات پر عثمان بزدار کو ضرور غور کرنا چاہئے،میڈیا دراصل حکومت اور اپوزیشن کی آواز ہوتا ہے،اپنی آواز کو خاموش کرا دینا کسی بھی طرح دانشمندی نہیں اس لئے وہ وجوہات تلاش کی جائیں جن کی وجہ سے تعلقات میں رخنہ آیا اور انہیں دور کیا جائے تاکہ باقی ماندہ عرصہ میں حکومت اور میڈیا کے تعلقات میں گرم جوشی آئے۔
پنجاب حکومت نے زراعت اور ٹیکسٹا ئل کے شعبوں کی ترقی کیلئے نمایاں خدمات انجام دی ہیں،عثمان بزدار کی زیادہ تر توجہ صوبہ کی ترقی و خوشحالی پر مرکوز رہی جس کی وجہ سے ان دونوں شعبوں نے مختصر عرصہ میں بہترین کارکردگی دکھائی،کسان خوشحال ہواء اور مزدور کو روزگار میسر آیا،اب بھی بہت سے سرمایہ کار پنجاب میں مختلف شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری کے خواہش مند ہیں مگر حکومتی سطح پر ان کی بجا طور پر راہنمائی کا کوئی میکنزم موجود نہیں،کچھ محکمہ لیبر کے قواعد و ضوابط اور کچھ ٹیکس نظام اور بہت سے مزدور یونینز کی کارستانیوں کو دیکھ کر کنی کترا جاتے ہیں،اس صورتحال کا تقاضا ہے کہ سرمایہ کاروں کی حکومتی سطح پر رہنمائی کی جائے ایک چھت تلے ان کے ہر سوال کا جواب اور مسائل کو حل کرنے کیلئے میکنزم قائم کیا جائے ، سرمایہ کاروں کو تنگ یا بلیک میل کرنے والے عناصر کی بیخ کنی کی جائے،تاکہ سرمایہ کار خوشدلی سے سرمایہ کاری کرے اور اسے کوئی خوف لا حق نہ ہو۔
پنجاب میں ایک اور تبدیلی بیوروکریسی کا معمول کے مطابق بلا خوف و خطر فرائض کو انجام دینا ہے،نیب،ایف آئی اے کی لٹکتی ننگی تلواریں بیوروکریسی کی گردنوں سے کافی حد تک ہٹ گئی ہیں،الزامات کی بنیاد پر گرفتایوں کا سلسلہ بھی رک چکا ہے،تعلیم یافتہ،نیک نام سرکاری افسروں کی پگڑیاں بھی نہیں اچھالی جا رہی ہیں،اب ضروری ہے کہ بیوروکریسی فرائض کی انجام دہی میں تیزی لائے اور جو وقت ضائع ہو چکا ہے اس کا ازالہ کر کے عوام کو ریلیف دیا جائے،عوام کو ریلیف دینے کیلئے اہم ترین اقدام مہنگائی پر قابو پانا ہے،سچ یہ ہے کہ ملک بھر میں مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے بلکہ غریب عوام کا تو بھرکس نکل چکا ہے،اگر چہ مہنگائی کی ایک وجہ ایندھن کا مہنگا ہونا ہے مگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں پوری دنیا میں اضافہ کا رحجان ہے، کوئی ذمہ دار عوام کو اعدادوشمار کے ذریعے حقائق نہیں بتا رہا،وقت کا تقاضا ہے کہ عوام کو پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ کی وجہ اور عالمی منڈی میں قیمتوں کے جائزہ سے روشناس کرایا جائے،بجلی کے نرخ میں اضافہ کی وجہ بھی تیل کا مہنگا ہونا ہے مگر اس حوالے سے عوام کو آگاہ کرنے میں کوتاہی برتی جا رہی ہے جس کی وجہ سمجھ سے بالا تر ہے،اس سے کم از کم عوام کو ڈھارس تو بندھے گی کہ عالمی مارکیٹ میں قیمت کم ہوتے ہی ان کو بھی ریلیف ملے گا،مگر مہنگائی کی وجہ صرف یہ نہیں گراں فروشی کی بڑی وجہ ناجائز منافع خوری بھی ہے اس لئے حکومت پرائس کنٹرول کمیٹیوں اور مارکیٹ کمیٹیوں کو فعال بنائے ضلعی انتظامیہ کو متحرک کرے تاکہ مصنوعی مہنگائی پر قابو پایا جا سکے، نئے چیف سیکرٹری ایک نیک نام افسر ہیں مگر ان کے آنے سے نظام بدلا دکھائی نہیں دیا ،کہا جا سکتا ہے کہ ،، وہی ہے چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے ،،لاہور اور بہاولپور کے کمشنر شائد ان سے زیادہ با اثر ہیں جنہوں نے کورس پر جانے کے حکم کو ہی واپس کرا دیا ہے تاکہ انکی صاحب بہادری کا سکہ چلتا رہے،دوسری طرف اچھے افسر طویل عرصے سے تعیناتی کے منتظر ہیں۔محکمہ داخلہ اور پولیس نے پچھلے دنوں اپنی پالیسیوں سے نہ صرف عوام کو مشکلات میں ڈالا ہوا ہے بلکہ پولیس فورس کےجوانوں کے مورال کو گرانے کا سبب بھی بنے ہیں،جو پولیس جوان شہید ہوئے ان کے لواحقین کو مکمل سہارا ملنا چاہئے مگر بڑے بڑے ٹریلروں اور خندقیں کھود کر اگر مظاہرین کو روکا نہیں جا سکتا تھا تو پھر یہ ساری ایکسر سائز کیا عوام کو تکلیف میں دالنے کے لئے تھی؟
احتجاج اور دھرنوں کے اس بے ثمر موسم میں بھی وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے ہر کسی کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی ہے،فراخ دلی اور خندہ پیشانی کے اس مظاہرے کا مقصد ذاتی یا سیاسی مفاد ہر گز نہیں ہو سکتا مگر اس پیش قدمی کے جواب میں انہیں ہمیشہ بے اعتنائی ملی، انکی کابینہ کے اکثر لوگ بھی جھنڈے اور ڈنڈے کے باوجود کچھ نہیں کر رہے جس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محسن گورایہ کے کالمز
-
اعتماد سے عاری اپوزیشن
جمعرات 17 فروری 2022
-
ٹکے ٹوکری سیکرٹیریٹ
منگل 15 فروری 2022
-
مقامی حکومتیں ضروری ہیں
ہفتہ 12 فروری 2022
-
’’آ ملے ہیں سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک‘‘
منگل 8 فروری 2022
-
پنجاب ،بلدیاتی انتخابات اور گورننس؟
جمعرات 3 فروری 2022
-
چیف سیکرٹری پنجاب ؟
پیر 31 جنوری 2022
-
مقامی حکومتیں اور با اختیار بیوروکریسی
جمعرات 27 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کی باتیں؟
پیر 24 جنوری 2022
محسن گورایہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.