پنجاب کے نئے ترجمان اور حکومتی معاملات

منگل 2 نومبر 2021

Mohsin Goraya

محسن گورایہ

کوئی چالیس دنوں کے بعد کینیڈا سے  وطن واپسی ہوئی ہے مگر یہاں کے اکثر حالات ویسے ہی ہیں ،چالیس دنوں میں بدلنا بھی کیا تھا یہاں تو چالیس سالوں میں کچھ نہیں بدلا ،ہاں پنجاب حکومت کو ایک اچھا ترجمان ضرور مل گیا ہے،جسے اچھی تبدیلی  کہا جا سکتا ہے  ۔میری ان سے جان پہچان نہیں  مگر ان کے بیانات اور گفتگواخبارات اور ٹیلی وژن پر دیکھ کر ایک طمانیت ملی ، اپنے  وزیر اعلیٰ  عثمان بزدار  جیسا   تحمل  مزاج،نرم دم گفتگو مگر دلیل سے بات کر کے حجت تمام کرنے والا  سافٹ سپوکن ۔

نئے ترجمان اور وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی حسان خاور بیوروکریٹ ہیں، اپنی تعیناتی کے دوران مختلف  حکومتی عہدوں پر خدمات انجام دے چکے ہیں،حسان خاور کو بین الاقوامی اداروں کیساتھ بھی کام کرنے کا وسیع تجربہ ہے،وہ پنجاب یونیورسٹی شعبہ صحافت کے سابق سربراہ عبدالسلام خورشید کے نواسے ہیں جو خود ایک معروف شخصیت تھے،انہیں ڈفیڈ سیڈ پراجیکٹ کے ٹیم لیڈر کے طور پر بھی کام کرنے کا اعزاز حاصل ہے،پنجاب تھرمل اینڈ انرجی ہولڈنگ کمپنی میں بطور ڈائریکٹر اور پبلک پالیسی ریسرچر بھی خدمات انجام دیتے رہے ہیں،وزیر اعظم ٹاسک فورس برائے آسٹریٹی اینڈ گورنمنٹ ری سٹرکچرنگ میں بھی جوہر دکھا چکے ہیں،اعلیٰ تعلیم یافتہ  اور بیوروکریٹک بیک گراؤنڈ ہونے کی وجہ سے اعدادو شمار ان کی انگلی کی پوروں پر  دکھائی  دیتے  ہیں خوشی کی بات یہ کہ  وہ اپوزیشن کی ہر تنقید اور صحافیوں کے ہر سوال  کا جواب فیکٹس اینڈ فیگر سے دیتے ہیں،جس کی بناء پر الزامات کی گرد کم اڑتی ہے اور کام کی بات زیادہ ہوتی ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ سیاسی کشیدگی کے اس ماحول میں وہ تہذیب و شائستگی  کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے جس کی وجہ سے جلتی پر تیل نہیں ڈالا جاتا بلکہ معاملات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

(جاری ہے)


پنجاب حکومت نے اپنے تئیں صوبہ کو ترقی کی راہ پر تیز تر چلانے کیلئے بے   تحاشا کام کیا ہے مگر جانے کیا بات ہے کہ حکومتی ذمہ دار اس کارکردگی کو عوامی سطح پر اجاگر نہ کر سکے شائد اس کی وجہ ماضی میں اپنے کارناموں کی بجائے اپوزیشن کے الزامات کے جواب دینے پر توجہ مرکوز کرنا رہی،اب حسان خاور کی تعیناتی سے  اب حکومتی کارناموں اور ترقیاتی کاموں کو عوامی سطح پر بہتر انداز سے روشناس کرایا جا سکے گا،پنجاب حکومت کے میڈیا سے تعلقات میں بھی اس عرصہ کے دوران اونچ نیچ آتی رہی،  حکومت کے  متعدد  ترجمانوں کے باوجود میڈیا سے تعلقات بہتر نہ  ہو سکے  ؟ان وجوہات پر عثمان بزدار کو ضرور غور کرنا چاہئے،میڈیا دراصل حکومت اور اپوزیشن کی آواز ہوتا ہے،اپنی آواز کو خاموش کرا دینا کسی بھی طرح دانشمندی نہیں اس لئے وہ وجوہات تلاش کی جائیں جن کی وجہ سے تعلقات میں رخنہ آیا اور انہیں دور کیا جائے تاکہ باقی ماندہ عرصہ میں حکومت اور میڈیا کے تعلقات میں گرم جوشی آئے۔


پنجاب حکومت نے زراعت اور ٹیکسٹا ئل  کے شعبوں کی ترقی کیلئے نمایاں خدمات انجام دی ہیں،عثمان بزدار کی زیادہ تر توجہ صوبہ کی ترقی و خوشحالی پر مرکوز رہی جس کی وجہ سے ان دونوں شعبوں نے مختصر عرصہ میں بہترین کارکردگی دکھائی،کسان خوشحال ہواء اور مزدور کو روزگار میسر آیا،اب بھی بہت سے سرمایہ کار پنجاب میں مختلف شعبوں میں  بھاری سرمایہ کاری کے خواہش مند ہیں مگر حکومتی سطح پر ان کی بجا طور پر  راہنمائی کا کوئی میکنزم موجود نہیں،کچھ محکمہ لیبر کے قواعد و ضوابط اور کچھ ٹیکس نظام اور بہت سے مزدور یونینز کی کارستانیوں کو دیکھ کر کنی کترا جاتے ہیں،اس صورتحال کا تقاضا ہے کہ سرمایہ کاروں کی حکومتی سطح پر رہنمائی کی جائے ایک چھت تلے ان کے ہر سوال کا جواب اور مسائل کو حل کرنے کیلئے میکنزم قائم کیا جائے ، سرمایہ کاروں کو تنگ یا بلیک میل کرنے والے عناصر کی بیخ کنی کی جائے،تاکہ سرمایہ کار خوشدلی سے سرمایہ کاری کرے اور اسے کوئی خوف لا حق نہ ہو۔


   پنجاب میں ایک اور   تبدیلی بیوروکریسی کا معمول کے مطابق بلا خوف و خطر فرائض کو انجام دینا ہے،نیب،ایف آئی اے کی لٹکتی ننگی تلواریں بیوروکریسی کی گردنوں سے  کافی حد تک  ہٹ گئی ہیں،الزامات کی بنیاد پر گرفتایوں کا سلسلہ بھی رک چکا ہے،تعلیم یافتہ،نیک نام سرکاری افسروں کی پگڑیاں بھی نہیں اچھالی جا رہی ہیں،اب ضروری ہے کہ بیوروکریسی فرائض کی انجام دہی میں تیزی لائے اور جو وقت ضائع ہو چکا ہے اس کا ازالہ کر کے عوام کو ریلیف دیا جائے،عوام کو ریلیف دینے کیلئے اہم ترین اقدام مہنگائی پر قابو پانا ہے،سچ یہ ہے کہ ملک بھر میں مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے بلکہ غریب عوام کا تو بھرکس نکل چکا ہے،اگر چہ مہنگائی کی ایک وجہ ایندھن کا مہنگا ہونا ہے مگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں پوری دنیا میں اضافہ کا رحجان ہے، کوئی ذمہ دار عوام کو اعدادوشمار کے ذریعے حقائق نہیں بتا رہا،وقت کا تقاضا ہے کہ عوام کو پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ  کی وجہ اور  عالمی منڈی میں قیمتوں کے جائزہ سے روشناس کرایا جائے،بجلی کے نرخ میں اضافہ کی وجہ بھی تیل کا مہنگا ہونا ہے مگر اس حوالے سے عوام کو آگاہ کرنے میں کوتاہی برتی جا رہی ہے جس کی وجہ سمجھ سے بالا تر ہے،اس سے کم از کم عوام کو ڈھارس تو بندھے گی کہ عالمی مارکیٹ میں قیمت کم ہوتے ہی ان کو بھی ریلیف ملے گا،مگر مہنگائی کی وجہ صرف یہ نہیں گراں فروشی کی بڑی وجہ ناجائز منافع خوری بھی ہے اس لئے حکومت پرائس کنٹرول کمیٹیوں اور مارکیٹ کمیٹیوں کو فعال بنائے ضلعی انتظامیہ کو متحرک کرے تاکہ مصنوعی مہنگائی پر قابو پایا جا سکے، نئے چیف سیکرٹری ایک نیک نام افسر ہیں مگر ان کے آنے سے نظام بدلا دکھائی نہیں دیا ،کہا جا سکتا ہے کہ ،، وہی ہے چال بے ڈھنگی  جو پہلے تھی سو اب بھی ہے ،،لاہور اور بہاولپور کے کمشنر شائد ان سے زیادہ با اثر ہیں جنہوں نے کورس  پر جانے کے حکم کو ہی واپس کرا دیا ہے تاکہ انکی صاحب بہادری کا سکہ چلتا رہے،دوسری طرف اچھے افسر  طویل عرصے  سے تعیناتی کے منتظر ہیں۔

محکمہ داخلہ اور پولیس نے پچھلے دنوں اپنی پالیسیوں سے نہ صرف عوام کو مشکلات میں ڈالا ہوا ہے بلکہ  پولیس فورس کےجوانوں کے مورال کو گرانے کا سبب بھی بنے ہیں،جو پولیس جوان شہید  ہوئے ان کے لواحقین کو مکمل سہارا ملنا چاہئے مگر بڑے بڑے ٹریلروں اور خندقیں کھود کر اگر مظاہرین کو روکا نہیں جا سکتا  تھا تو پھر یہ ساری ایکسر سائز  کیا عوام کو تکلیف  میں دالنے کے لئے تھی؟      
احتجاج  اور  دھرنوں کے اس بے ثمر موسم میں بھی وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے ہر کسی کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی ہے،فراخ دلی اور خندہ پیشانی کے اس مظاہرے کا مقصد ذاتی یا سیاسی مفاد  ہر گز نہیں ہو سکتا  مگر اس پیش قدمی کے جواب میں  انہیں  ہمیشہ بے اعتنائی ملی، انکی کابینہ کے اکثر  لوگ بھی جھنڈے اور ڈنڈے  کے باوجود  کچھ نہیں کر رہے  جس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :