صحت ادویات اور مہنگائی کا سونامی

جمعہ 2 اکتوبر 2020

Mufti Mohiuddin Ahmed Mansoori

مفتی محی الدین احمد منصوری

بزرگ شہری کسی بھی باوقار معاشرے میں قابلِ شفقت و قابلِ احترام طبقہ ہے خاص کرکے اسلام نے سفید ریش بزرگوں کو عزت و احترام سے نوازا اس کی مثال جدید تمدنی معاشرہ پیش کرنے سے قاصر ہیں ، بڑھاپا وہ حقیقت ہے جو انسان کی زندگی میں آکر ہی رہتا ہے جہاں توانائی ، جوش ، ہمت و استقامت لزرکر رہ جاتی ہے ، بزرگ شہری ہمارے معاشرے میں ماں ، باپ ، دادا، دادی ، نانا ،نانی اور دیگر رشتوں کی صورت میں ہمارے گھروں میں موجود ہے ، حقیقت یہ ہے کہ بچے اگر گھر کی رونق و رحمت ہیں تو بزرگ(ضعیف) والدین سائبان و برکت ہے، ان کا خیال رکھنا علاج و معالج کا معقول بندوبست کرنا سعادت مند اولاد کا فریضہ ہے، جو کہ مشرقی اور خاص کرکے اسلامی معاشرہ میں اولاد بحسنِ خوبی بطور سعادت اپنا حق سمجھ کر کرنے کو بھرپور کوشش کرتے ہیں،
آپ کے علم میں ہوگا کہ ہمارے ملک کے محکمہء صحت کی ناقص حکمت عملی اور ناکافی وسائل کی وجہ سے نظام صحت خوفناک صورت حال سے دوچار ہے ،شہریوں کو صحت مند معاشرہ فراہم کرنے کے لئے حکومت کے پاس کوئی مثبت حکمت عملی ہے اور ناہی سنجیدگی سے مرتب کرنے کی کوشش کی ہے، (سندھ بلخصوص کراچی کے تعفن زدہ آب و ہوا میں صحت مند معاشرہ محض خواب سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں)جس کی وجہ سے آئے روز مختلف بیماریاں بچوں اور بزرگوں کو لگی رہتی ہیں،عام طور پہ ہمارے معاشرے میں 40/45سال کے بعد زندگی کے بقایا ایام دواؤں کے سہارے گزرتی ہے یعنی یوں سمجھے کہ زندگی کی کمائی کا ایک خطیر حصہ صحت و تندرستی کے تعاقب میں دواؤں کے نذر ہوجاتا ہے،
حکومت وقت کی جانب سے اچانک دواؤں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کی خبر نے ہراس شہری کو ہلاکر رکھ دیا ہے جن کے گھر میں بزرگ والدین حیات ہے اور وہ اپنے آمدنی کا بڑا حصہ والدین کی علاج و معالج میں صرف کرتے ہیں ، وہ سفید پوش طبقہ جو پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے تکلیف دہ زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، اور انتہائی مشکل حالات سے دوچار ہوکر اپنے بچوں کی خوشیوں کو قربان کرکے فیملی کا پیٹ کاٹ کر بزرگ والدین کی خدمت میں معمور ہے ( ان کے علاج و معالج کا انتطام کررہے ہے) ان کے لئے حالات انتہائی مایوس کن ہے،والدین کی خدمت کریں یا گھر چلائے ، آخر یہ سفید پوش (مڈل کلاس) طبقہ جائے تو کہا جائے، سندھ بھر کے سرکاری ہسپتالوں کا تو اللہ ہی حافظ ہے ، صفائی ستھرائی سمیت سہولیات کا شدید ترین فقدان ہے ، اگر کوئی مرد قلندر سیکورٹی گارڈ ، سوئیپر، واڑد بوئے اور نرسوں سے لڑ جھگڑ کر تمام تکلیفیں اور صعوبتیں برداشت کرکے علاج و معالج کے لئے داخل کروابھی دیں تو پھر بھی دوائیاں ہسپتال میں ناپید ہیں ، کہنے کو تو شہر بھر میں خیراتی ہسپتالوں کی کوئی کمی نہیں مگر وہاں پر بھی سہولیات ناہونے کے برابر ہیں، بہت زیادہ اگر خیر خواہی کا مظاہرہ کربھی لیں تو30سے 40فیصد سے زیادہ رعایت بہت مشکل ہے اس میں بھی دوائیاں شامل نہیں ہوگی دوائیاں بہر صورت باہر سے لینی ہوں گی (مزید یہ کہ مجھ میں پرائیویٹ ہسپتالوں کی نظام شاہی کو بیان کرنے کی سکت نہیں ) ایسی تابناک صورت میں غریب یا متوسطہ طبقے کے شہری کریں تو کیا کریں، گھر والوں کی کفالت کریں ، بچوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کریں یا پھر بزرگ والدین کے لئے دواؤں کا انتظام کریں، حکمرانوں کی اولین ذمہ داری یہ ہونی چاہئے کہ شہریوں کو سہولت فراہم کریں امن و امان کے ساتھ خرد و نوش کی قیمتوں پر استحکام برقرار رکھیں، علاج و معالج کا عمدہ انتظام کریں پر بدقسمتی سے ایسا لگتا ہے کہ حاکم وقت ان بنیادی ذمہ داریوں سے ناصرف غافل ہیں بلکہ احساس ذمہ داری سے ہی نا آشنا ہیں ، حکومت کا کام صرف مہنگائی بڑھانا اورٹیکس جمع کرنا نہیں بلکہ شہریوں کی خبر گیری کرنا اوربنیادی سہولت مہیا کرنا بھی ہے، حکومت نے حج بیت اللہ اور دیگر پروجیکٹ جن کا فائدہ براہِ راست عوام کو پہنچتا ہے یہ کہہ کر سبسڈیز ختم کردی کہ حکومت سبسڈی دینے کی متحمل نہیں، دوسری جانب احساس پروگرام سمیت دیگرخیراتی پروگرام کے نام پر اربوں روپے تقسیم کرنا کہاکی دانشمندی ہے حکومت اگر کھربوں روپے ان پروگراموں میں ضائع ناکرکے اس خطیر رقم سے اشیاء خورد ونوش، علاج و معالج و دواؤں کی مد میں سبسڈی دیتے تو ناصرف غریب عوام کو بلکہ ملک بھر میں متوسطہ طبقے سے تعلق رکھنے والے سفید پوش شہری بھی مستفید ہوتے،انہیں کچھ آسانی میسر آتی ،کچھ بوجھ ہلکا ہوتا، اس کمرتوڑ مہنگائی میں گھر کی کفالت کے ساتھ بچوں کو اچھی تعلیم دینا اور دلجمی کے ساتھ والدین کی خدمت کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں، کیونکہ بزرگوں کی خدمت کاایک بڑا ذریعہ ان کے علاج و معالج کا اہتمام کرنا ہے ان کی صحت و تندرستی کیلئے بروقت دواؤں کا انتظام کرنا ، مجھے حیرت ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی زندگی کا ایک حصہ مسیحا کی طرح مریضوں لاچاروں کی خدمت کی ،ہسپتال بنایا عوام کو علاج و معالج کی سہولت فراہم کی ، انہیں غریبوں اور مریضوں کی تکلیف کا ادراک ہونے کے باوجودان کے دور حکومت میں دواؤں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ سمجھ سے بالا تر ہے،
وزیراعظم عمران خان کی خدمت میں اپیل ہے کہ وہ غریبوں کی آہوں سسکیوں کو محسوس کریں ان کے دکھوں کامدوا نہیں کرسکتے تو کم از کم اس میں اضافہ بھی ناکریں، مجبور عوام پر استعداد سے زیادہ بوجھ نا ڈالیں، ضرورت کے پیش نظر قیمتیں بڑھائیں ٹیکسیں لگائیں مگر ان اشیاء پر جن تعلق ضروریات زندگی سے ناہوں، خدارا ! دواؤں کی قیمتیں بڑھاکر خدمت کے جذبے سے سرشار اولاد کو بے بس مجبور کرکے نافرمان نابنائیں ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :