مولانا فضل الرحمن ، نوابزادہ نصراللہ خان ہرگز نہیں!

پیر 12 اکتوبر 2020

Mufti Mohiuddin Ahmed Mansoori

مفتی محی الدین احمد منصوری

بابائے جمہوریت جناب نوابزادہ نصراللہ خان (مرحوم) کی شخصیت اور کردار پاکستان کی جمہوری تاریخ کاسنہرا باب ہے آپ نے سیاسی زندگی کی نصف صدی بحالی جمہوریت کے لئے لازوال جدوجہد کی ، آپ کے حوالے سے آپ کے ہم عصر سیاسی ناقدین کی رائے کچھ بھی ہو،مگر آپ نے ہمیشہ آمرانہ حکومت اور آمرانہ نظام کے خلاف آواز حق بلند کی ، پھر چاہے وہ آمرانہ حکومت مارشل لاء کی صورت میں ہو یا پھر جمہوری حکومت میں آمرانہ سوچ کی صورت میں ہو، نواب صاحب نے ڈٹ کر اس کا مقابلہ کیا اور اپنی سوچ و نظرئے پر ملک کی چھوٹی بڑی سیاسی قوتوں کواکھٹاکرکے انقلابی تحریک چلائی، نواب صاحب بڑے عوامی رہنما تو نہیں تھے مگر رہنماؤں کے رہنما ضرور تھے ، نوابزادہ صاحب اپنے اصولی مئوقف کی وجہ سے بارہا مرتبہ پابند سلاسل ہوئے مگر اپنے اصولی موقف سے دستبردار نہیں ہوئے ،آپ پارلیمانی نظام کے حامی اور جمہوریت کے علمبردار تھے، نوابزادہ نصراللہ مرحوم ہمارے درمیان موجود نہیں مگر جب بھی ملک میں جمہوریت زیرِعتاب آ ئی، یا آئین کو پامال کیا گیا بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم بہت یاد آئے، درجنوں سیاستدان جنہیں نوابزادہ صاحب کی قربت نصیب ہوئی ان میں سے ایک بڑا نام مولانا فضل الرحمن کا بھی ہے مولانا فضل الرحمن ان سیاستدانوں میں سے ہے جن پر ملک کے انقلابی سوچ کے حامل سیاستدانوں اور خاص کرکے نوابزادہ صاحب کی خصوصی نگاہ تھی ، یہی وجہ ہے کہ مولانا کی شخصیت اور پہچان پالیمانی نظام کے داعی کے طور پر ہوئی، مولانا کی جمہوریت پسندی کے غیر بھی معترف ہیں مولانا فضل الرحمن چاہتے تو ملاعمر مجاہد کی طرح نفاذ شریعت کے لئے عملی جدوجہد کرتے مگر مولانا نے بُلٹ کے مقابلے میں بیلٹ کا راستہ اختیار کیا ، مولانا کو جس کی بھاری قیمت بھی چکانی پڑی مگر مشکل ترین حالات میں بھی مولانا کے قدم کو جمبش نہیں آئی بلکہ اپنے نظرئے اور موقف پر ڈٹے رہے، ویسے تو بہت سے معاملات میں مرحوم نواب صاحب اور مولانا کے درمیان ممالثتیں عیاں ہیں کہ مولانا بھی جمہوریت کے زبردست حامی ہے ، آمرانہ نظام کے خلاف مولانا کی قربانی جیل اور نظربندی کی صعوبتیں لازوال جدوجہد تاریخ کا سنہرا باب ہے، مولانا نے بھی کبھی کسی مصلحت کا شکار ہوکر نواب صاحب کی طرح آمرانہ حکومت قبول نہیں کیا، مولانا فضل الرحمن سیاست میں نواب صاحب کی طرح دائمی دوستی یا دشمنی کے قائل نہیں ہے مولانا اپنے سیاسی محسن مرحوم نوابزادہ کی طرح اعلیٰ ظرف کے مالک ہے اور شائستہ اور مہذبانہ سیاست کے علمبردار ہے ، مولانا کی مدبرانہ سوچ ، مدلل و باوقار انداز گفتگو میں نوابزادہ صاحب کا عکس موجود ہے، مولانا فضل الرحمن نے اپنے سیاسی استاد سے سیکھے ہوئے ہنر کا بخوبی استعمال کرتے ہوئے حالات کے پیش نظر مناسب وقت پر حزب اختلاف کے تمام جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پہ جمع کرکے PDMکی بنیاد رکھ کر سب کو حیران کردیا ، سیاسی تجزیہ نگار یہ کہے پر مجبور ہے کہ مولانا نے مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان کی یاد تازہ کردیi ،
ان سب ممالثتوں کے باوجود یہ بات مسلم ہے کہ مولانا فضل الرحمن ، نوابزادہ نصراللہ خان ہرگز نہیں ہے ، مولانا اپنی سیاسی زندگی میں صرف حزب اختلاف کا حصہ نہیں رہے بلکہ حزب اقتدار کے کلیدی عہدوں پر بھی فائز رہے خاص کرکے پاکستان کے سب سے بڑے مذہبی جماعت کے سربراہ اور پھر ایک عرصے تک ملکی کے خارجہ کمیٹی کے سربراہ رہنے کی وجہ سے اقوام عالم میں غیرمعمولی شہرت کے حامل ہیں، مولانا کی مدبرنہ سیاسی نقظہء نظراور عالمی منظرنامہ پر گہری نظر کی وجہ سے اسلامی ممالک کے علاوہ دوست ممالک کے ساتھ اعتماد اور احترام کا رشتہ قائم ہے، جس کی وجہ سے مولانا عالمی افق پر اپنی جداگانہ حیثیت رکھتے ہے، مرحوم نوابزادہ کے برعکس مولانا فضل الرحمن ملک کے بڑے سیاسی و مذہبی رہنما ہے ، مولانا کو دوسرے سیاسی جماعتوں کے وعدوں ارادوں اور کارکنوں پر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ مولانا کے جانثار کارکنان مولانا کے لئے کسی بھی قسم کے حالات سے نبردآزما ہونے کو تیار ہیں،2019ءء کے آزادی مارچ میں مولانا کی جماعت جمیعت علماء اسلام نے جس نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا سیاسی و مذہبی جماعتوں کے لئے مثال ہیں، یقینا ان امتیازی خصوصیات کے پیش نظر یہ بات واضح ہے کہ مولانا اپنے سیاسی محسن نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم سے زیادہ طاقتور رہنما کے طور پر ابھرے ہے،اور صاحب مسند و اقتدار کے لئے مولانا ماضی کے نوابزادہ سے زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتے ہے، PDMکی ازسرے نو بنیاد اور اس کے جاندارمطالبات اپنی جگہ ، پر اس وقت حکومت کے لئے مولانا اور PDMسے زیادہ خطرناک خود حکومت کی ناقص پالیسی حکومت کے لئے مشکلات کا باعث ہے، مہنگائی کے سونامی سے بیزار عوام تبدیلی سے مایوس ہوچکے ہیں ، اس وقت پاکستان میں میں عالمی استعماری قوتوں کا جتنا عمل دخل ہے ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی ، ملکی قرضوں کی وجہ سے IMF اور دیگر عالمی داریں پاکستان میں اپنی جڑیں مضبوط کرچکے ہیں،ملکی معیشت مکمل تباہی کے دہانے پر ہے ویسے بھی موجودہ حکومت کی نااہلی اور ناقص حکمت عملی نے ملکی عزت و وقار کے مینار کو زمین بوس کردیا ہے ، اور حکومت ہے کہ عوامی مسائل حل کرنے مہنگائی کو کنٹرول کرکے بجائے ریاست کو انتقامی سیاست کا آماجگاہ بنایا ہواہے ایسی تاب ناک حالات میں مولانا فضل الرحمن کا حزب اختلاف جماعتوں کے PDMکا سربراہ بننا حکومت کے لئے اچھی نوید نہیں اور اگر پاکستان مسلم لیگ (ن)اور پاکستان پیپلز پارٹی کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوئی تو تحریک کی کامیابی یقینی ہیں۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :