حاکم ایسے بھی تھے

بدھ 19 اگست 2020

Mufti Mohiuddin Ahmed Mansoori

مفتی محی الدین احمد منصوری

حاکم یا حکمران کا نام سنتے ہی ہمارے ذہنوں میں بہترین لباس میں ملبوس ایک شخصیت کا تصور آتا ہے جن کے پیچھے پرووٹوکول کی لمبی قطار ہو، آگے پیچھے نوکروں اور خادموں کی ایک جماعت ہو، بڑے بڑے محلات جن کے بہترین حفاظتی انتظامات ہوں، کیونکہ صدیوں سے ہم نے یہی سنا اور مشاہدہ کیا ہے ، حکمرانوں کی اس قسم کی شاہی زندگی ہونے کی وجہ سے عوام الناس حاکم وقت سے ملنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے عموماََ دیکھنے میں آتا ہے کہ حکمران عوام الناس کی بنیادی تکلیف سے نا آشنا ہوتے ہیں، جبکہ تکلیف میں مبتلا عوام کااپنا دکھڑا حاکم تو کجا ان کے مشیر تک پہنچنا محال ہے،
محض چودہ صدی پہلے تاریخ اسلام میں حاکم ایسے بھی تھے، جو راتوں کو شہریوں کی خبر گیری کے لئے دارالخلافہ کی گلیوں میں گشت کرتے تھے ، ایک روز دوران گشت ایک شہری(بدو) کو پریشان حال دیکھ کر خیر و خیریت معلوم کرنے کے غرض سے ساتھ بیٹھ گئے اتنے میں کسی خاتون کی درد سے کراہنے کی آواز آئی پوچھنے پر معلوم ہوا کہ شہری کی بیوی درد ِ زہ کی وجہ سے کراہ رہی ہے حاکم اٹھا اور فوراََ خاتون اول کو ساتھ لے آیا ، شہری(بدو) کی اجازت سے خاتون اول کو گھر میں داخل کیا اور خودشہری کو تسلی دینے لگا اتنے میں اندر سے آواز آئی اے امیرالمومنین اپنے دوست کو خوشخبری دیجئے کہ ان کے یہاں بیٹا ہوا ہے ، شہری (بدو) کے کانوں سے لفظ امیرالمومنین سنتے ہی باادب کھڑاہوگیا کہ حاکم وقت ان کا دوست اور خاتون اول دائی بن کر ان کے گھر تشریف فرما ہیں حاکم وقت نے اس شہری(بدو) کو تسلی دی اور فرمایا کہ صبح مسجد میں تشریف لے آنا بچے کا وظیفہ مقرر کردونگا،
ایک مرتبہ کا تذکرہ ہے کہ خلیفہ ء وقت حسبِ معمول رات کی تاریکی میں دارالخلافہ کی گلیوں میں گشت پر معمور تھے کہ ایک گھر سے بچوں کے رونے کی آواز سنی وجہ معلوم کرنے پر معلوم ہوا کہ بچے بھوک کی وجہ سے بلبلارہے ہیں اور گھر میں کھانے کا کچھ بھی نہیں ہیںآ پ فوراََ بیت ُالمال کی جانب روانہ ہوئے بیتُ المال کے چوکیدار کو آرام کرتے ہوئے دیکھ کر اُٹھانا مناسب نہیں سمجھا اور خود ہی گھر والوں کے لئے راشن اپنے کندھے پر رکھ کر گھر کی جانب روانہ ہو ہی رہے تھے کہ غلام نے کسی کی آہٹ محسوس کی اور جاگ گیا، خلیفہ کے کندھوں پر سامان کا بوجھ دیکھ کر کہا کہ امیر المومنین یہ بوجھ میرے کندھوں پر رکھ دے میں منزل تک پہنچا دونگا، آپ نے یہ کہ کر خادم کو منع کردیا کہ کیا تم روزِ حشرمیرا یہ بوجھ اٹھا سکتے ہو، یہ کہہ کر منزل کی جانب روانہ ہوگئے اور جب تک بچوں اور اہلخانہ کو سیر ہوکر کھاناکھاتے اپنے آنکھوں سے نہیں دیکھابیٹھے رہے، یہ کوئی احسان نہیں تھا بلکہ احساسِ ذمہ داری تھی حاکم وقت کو معلوم تھا کہ شہریوں کی خبر گیری میری ذمہ داری ہے ان کے مسائل حل کرنا میرا کام ہے، میری وجہ انتخاب یہی ہے کہ میں شہریوں کی خدمت کروں ، اگر میں نے اپنی ذمہ داری سے کوتاہی برتی جس کی وجہ سے شہریوں کو تکلیف ہو تو روز محشر اللہ بزرگ و برتر کے حضور جوابدہ ہونگا، جن کے زہد وقناعت کی یہ حالت تھی کہ دور خلافت میں کبھی نرم آرام دہ کپڑا نہیں پہنا، سادگی کا یہ عالم تھا کہ سر پر پھٹا ہوا عمامہ پاؤں میں مرمت شدہ پرانے جوتے اور بارہ بارہ پیوند لگے ہوئے کرتے زیب تن فرماتے تھے ، پر رعب دبدبہ ایسا کہ وقت کی سپر پاور قواتیں قیصر و کسریٰ کے شہزادوں، وزیروں و سفیروں کو خلاف ِشرح لب کشائی کی جرات نہیں ہوتی،یہ عظیم حکمران کوئی اور نہیں محسن ِانسانیت ومعلمِ کائناتﷺ کے تربیتی یافتہ شاگرد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ خلیفة المسلمین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں ، آپ رضی اللہ عنہ نے ہی عالم انسانیت کو خدمت ، عدل و انصاف پر مبنی حکمرانی کا درس دیا ، آپرضی اللہ عنہ کے دورِخلافت کا نظام عدل و انصاف و احتساب تاریخ کا روشن باب ہے ، آپرضی اللہ عنہ نظام عدل میں اصولِ مساوات کا لحاظ رکھتے اور کسی کاامتیاز نہیں فرماتے، جس کی وجہ سے کسی بھی شخص کو ظلم وزیادتی کی جرات نہ ہوتی، چاہے وہ حکمران ہو یا رعایا، گورنر ہو یا عامل سخت احتساب فرماتے تھے ، آپرضی اللہ عنہ پہلے خود انصاف پسند بنے اور شہریوں کے لئے مثال بن کردکھایا اور پھر شہریوں میں عدل و انصاف قائم کیا، آپرضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں مصر کے گورنر عمرو بن عاصرضی اللہ عنہ کے بیٹے نے عبد اللہ نامی شہری کو کوڑا مارا جس کی شکایت حج کے موقع پر اس شہری نے امیر المومنین سے کی ، آپرضی اللہ عنہ نے حضرت عمروبن عاصرضی اللہ عنہ اور عہدیداروں سے مخاطب ہوکر ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا: " تم نے ان لوگوں کو کب سے غلام بنا لیا ہے جبکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جناتھا" پھر مصری کو کہا ''یہ لو کوڑا اور بڑوں کے اولاد سے اپنا بدلہ لو'' اس قسم کے درجنوں عدل ، انصاف واحتساب پر مبنی واقعات تاریخ کا پر نور حصہ ہے،تاریخ عالم ایسا حکمران پیش کرنے سے قاصر ہے جسے اپنے عوام کی مجبوریوں ، پریشانیوں اور ضرورتوں کااس قدر احساس ہو، پھر ایسا نظام صرف دارالخلافہ تک محدود نہیں تھا ،بلکہ بائیس لاکھ مربع میل کے وسیع عریض سرزمین پر موجود مسلم و غیر مسلم شہریوں کے لئے ایسا نظام متعارف کروایا کے شہریوں کے مسائل کے حل اور پریشانیوں کے ازالہ کیلئے کافی و شافی تھا،سیدنا عمر بن خطابرضی اللہ عنہ کے دور خلافت قیامت تک آنے والے حکمرانوں کے لئے مشعل راہ ہے ، آپ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں عراق ، مصر،روم وفارس جیسے عظیم سلطنتیں اور پہلی مرتبہ بیتُ المقدس(یروشیلم) فتح ہوکر اسلامی حکومت کے زیر نگین آئی، فتوحات کے ساتھ ہی مفتوحہ علاقوں میں انتظامی شعبہ جات کے قیام کی ضرورت شدت سے محسوس کی گئی، جس کے پیش نظر آپ رضی اللہ عنہ نے پولیس اور فوج کا نظام، جیل خانہ جات کانظام، بیتُ المال کا قیام اور ٹیکس کا نظام، محکمہ ڈاک خانہ کا نظام، تعلیم وتربیت کا نظام، نہری نظام ، فوجی چھاؤنی اور ہجری تاریخ کا قیام آپ ہی کی مدبرانہ کاوشوں کا نتیجہ ہے اور خاص کرکے عدل و انصاف و احتساب کا ایسا مضبوط اور ہمہ گیر نظام متعارف کروایا کہ آج بھی جدید تمدنی ممالک اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں، خلیفة المسلمین سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ کو گزرے چودہ سوسال سے زیادہ کا عرصہ گزرچکا ہے مگر آپرضی اللہ عنہ کا بنایا ہوا نظام دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں کسی ناکسی صورت نافذالعمل ہے، خلیفة المسلمین حضرت عمررضی اللہ عنہ کا دور اسلامی تاریخ کا درخشندہ اور مثالی دور ہے، آپ کی طرز حکمرانی پر عمل پیرا ہوکر ہمارے حکمران قوم و ملت کی بہترین خدمت سر انجام دے سکتے ہیں،
 ہمیں انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑھتاہے لہ تاریخ کے اوراق میں تو اس عظیم حکمران کا تذکرہ ملتا ہے مگر عملی زندگی میں ا ن کی طرزحکمرانی محض خواب بن کر رہ گئے ہیں ،ہمارے حکمرانوں کو غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ترقی، عزت و عظمت دورِجدید کے حکمرانوں کی تقلید سے حاصل نہیں ہوگی بلکہ اسلامی تہذیب و تمدن اور اسلامی طرزحکمرانی میں ہیں، ان شخصیات کے زندگی کے روشن پہلوں پر عمل کرکے ملک و ملت کی عظمت رفتاں کو بحال کرسکتے ہیں۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :