ہماری پولیس محافظ یا رہزن

بدھ 4 نومبر 2020

Mufti Mohiuddin Ahmed Mansoori

مفتی محی الدین احمد منصوری

محافظ سرحدوں کی حفاظت میں معمور ہو یا شہر میں شہریوں کی دونوں ہی ہمارے لئے قابل احترام ہے ،سرحدوں میں دشمن کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے فوجی جوان ہو یا شہر میں جرائم کے خلاف ڈٹاہوا پولیس کا جانباز جوان، وطنِ عزیز کے لئے ان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں، گزشتہ 72 سالوں میں افواج پاکستان کو جوکامرانی و کامیابی عطاہوئی ہوئی وہ اظہر من الشمس ہے پاک فوج کے جوانوں نے اپنی محنت و لگن اور نظم وضبط سے دنیا بھر میں اپنی قابلیت کا لوہا منوایا،آج پاکستان کے سب سے منظم اور طاقتور ادارہ کے طور پر پہچانا جاتا ہے، دوسری جانب عدم توجہی کی وجہ ے ہمارے ملک کے محکمہء پولیسمیں نظم و ضبط کا شدید فقدان ہے، محکمہء کی ذبوحالی ہر زبان زد عام ہے، افواج پاکستان کی شاندار کارکردیگی کی وجہ سے پاکستان کے ہر شہری محسوس کرتے ہیں ملک کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے اور ہم محفوظ ہیں دوسری جانب پولیس کی غیرمعیاری پرفارمنس کی وجہ سے ہر شہری اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں ، یقینا محکمہء پولیس کسی بھی ترقی یافتہ پر امن معاشرہ کے لئے شہ رگ کی حیثیت رکھتے ہیں ، اس شعبے کی قیام کا مقصد معاشرے کو بدعنوانی ، جرائم ، وحشت سے پاک صاف وشفاف ماحول فراہم کرنا ہے ، جہاں شہریوں کا مال و متاع جان ، عزت و آبرو اور اس کا تشخص محفوظ ہو، مگر بدقسمتی سے معاملہ اس کے برعکس ہے ، سانحہء ساہیوال و نقیب اللہ محسود جیسے درجنوں واقعات پولیس محکمہ کے لئے لمحہ فکر ہے، آج تو ہم یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں کہ آیاں ہماری پولیس محافظ ہے یا رہزن ۔

(جاری ہے)

۔۔۔
حال ہی میں پولیس محکمہ سے جوڑی اپنی نوعیت کا ایک انوکھا واقعہ بفرزون میں پیش آیا کہ مورخہ 25اکتوبر2020ءء کوصبح صادق کے وقت تقریباً 04:10amبجے چند پولیس اہلکار جس میں ایک خاتون اہلکار بھی شامل تھی بغیرکسی وارنٹ کے ایک شہری کے گھر میں داخل ہوئے اور پھر گھر کے مرد عورت اور بچوں کو حراساں کرکے کمرے میں بند کردیا پہلے پہل تو گھر والوں سے اسلحہ طلب کیا ، گھر والوں کے منع کرنے پر پولیس اہلکاروں نے گھر والوں کوایک کمرے میں بند کرکے گھر کی تلاشی لی ، گھر میں موجود لاکھوں روپے کیش ، لاکھوں روپے مالیت کے طلائی زیورات لوٹ کے فرار ہوگئے ، حیرت کی بات یہ ہے کہ پولیس اہلکار پولیس وردی میں تھے جو ایک نئی پولیس موبائل وین میں آئے تھے پر اتفاق سے پولیس موبائل وین کی نمبر پلیٹ نہیں تھی ، اور اب خود علاقائی پولیس ورطہ حیرت میں ہے کہ ایسا کیسے ممکن ہے ،(اب وہ احتجاج کرے یا تحقیق؟) آج ایک ہفتہ سے زاید کا عرصہ گزرنے کو ہے پر ہمارا محکمہء یہ معلوم کرنے سے قاصرہے کہ یہ اہلکار کون سے تھانے کے تھے ، ناتحقیق نا تفتیش ، کیا یہ کوئی ایسا واقعہ ہے جس سے چشم پوشی کی جائے ، کیا اس قسم کے واقعات خود محکمہء پولیس کی ساکھ کے لئے نقصاندہ نہیں ہے ،
پولیس کی وردی میں موجود راہزنوں نے محکمہء پولیس کو متنازع بنادیا ہے، حال ہی میں مفتی عبدللہ پر قاتلانہ حملے کے بعدپکڑے جانے والے مجرم کے موبائل فون سے معلوم ہوا کہ مجرم مفتی عبداللہ کو ٹارگٹ کرنے سے پہلے علاقے کے ایس ایچ او سے مکمل رابطے میں تھے ، اس ہوشرباانکشاف نے عوام اور خواص سبھی کو شش وپند میں مبتلا کردیا کہ عوام کی حفاظت میں معمور محکمہ کے ذمہ دار اہلکار اگر ملک میں فسادات برپا کرنے والے قاتلوں کے دست راست اور سہولت کار ہے تو عوام کس کے رحم و کرم پر ہیں،اور شہر میں کیسے امن قائم ہوسکتا ہے، دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے امن ، سکون و راحت کی سب سے بڑی وجہ مضبوط اور مستحکم محکمہء پولیس کا نظام ہے، وہ اندرونِ شہر کے جرائم اور بدعنوانیوں کو ختم کرنے اور شہریوں کو امن و سلامتی پر مبنی معاشرے کے قیام کو یقینی بناتے ہیں یہی محکمے کی وجہ امتیازبھی ہے ، ترکی جس کی مثالیں دیتے ہمارے حکمران نہیں تھکتے ، ترکی کے صدر رجب طیب ارگان نے اقتدار سنبھالتے ہی سب سے پہلے ترجیحی بنیادوں پر پولیس محکمہء کی ناصرف اصلاح کی بلکہ ہرقسم کی جدید سہولیات سے آراستہ کیا ، شہریوں کو امن و امان کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے بااختیار ادارہ بنایا( آج کی ترکی کی پر امن فضا کا ضامن پولیس محکمہء کو ہی گردانا جاتا ہے) دوسری جانب ہماری پولیس بہتتر سالوں میں یہ تاثر دینے سے قاصر ہے کہ پولیس محکمہء شہروں کا ہمدد، مددگار اور محافظ ہے ، بلکہ محکمہء کے افسران و اہلکار اپنے حرکات و سکنات و غیرمہذبانہ کردار اور ناشائشتہ گفتگو کی وجہ سے عوام کے ذہنوں میں مثبت سوچ پیدا کرنے میں مکمل ناکام رہے ، افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس عظیم محکمہء نے عام شہریوں کے بجائے طاقتور طبقے کی خدمت کو ترجیح دی ، قانون صرف کمزور ، ناتواں، غریب و مفلس کے خلاف ایکشن میں نظر آتاہے محکمہ پولیس میں موجود نااہل کرپٹ افسران نے محکمہء کی عزت و وقار کو مجروح کیا ہے، آج ملک میں بڑھتی ہوئی جرائم کی ایک بڑی وجہ پولیس کی غیرمنصفانہ تفتیش بھی ہے یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ نظام تفتیش نظام عدل کی روح ہے نظام تفتیش کو موثر بناکربلاتاخیر فیصلوں سے جرائم پیشہ افراد کی بیخ کنی کی جاسکتی ہے، ہمارے ملک میں کسی بھی نوعیت کے مجرموں کا سزا سے بچنے کی اہم وجہ استغاثہ کی کمزوری ہے تفتیشی افسران انہماک اور دل جمی کے ساتھ تفتیش نہیں کرتے بلکہ تفتیش کو اپنا کمائی کا ذریعہ سمجھتے ہیں افسران کی ناقص طریقہ تفتیش ، رشوت خوری اور مجرمانہ غفلت کی وجہ سے مجرمان مکھن سے بال کی طرح قانون کے شکنجے سے بچ نکلتے ہیں،
اہلِ اقتدار نے کبھی بھی پولیس محکمہء کی اصلاح کی مثبت کوشش نہیں کی اور ناہی کبھی اس ادارے کو عوام دوست ادارہ بنانے کے لئے کوئی پیش رفت ہوئی، بلکہ اس ادارے کو ہمیشہ اپنے جائز و ناجائز مقاصد کے لئے استعمال کیا اپنے سیاسی مخالفین کو زیرِعتاب لانے کے لئے استعمال کیا اور ہمارے ادارے بھی ان طاقتور کرداروں کے سامنے بے بسی کی تصویر بنے رہے، ملک کی ترقی خوشحالی اور امن کی کی بحالی کیلئے سیاسی دباؤ سے پاک پولیس محکمہ کی اشد ضرورت ہے ،محکمہ کے اصلاح کی ساتھ جدید سہولیات سے آراستہ کرنا حکومت کی اہم ترین ذمہ داری ہے پولیس کی ساکھ کو بہتر کرنے کے لئے پولیس وردی میں موجود کالی بھڑیوں کا سدباب پولیس کی اہم ترین ذمہ داری ہے، مزید یہ کہ نوجوان پولیس اہلکار کی تربیت وصلاح کا خاص انتظام کیاجائے ان کی اخلاقیات پر خصوصی توجہ دی جائے انہیں باور کرایہ جائے کہ آپ جس ملک کے سپاہی ہے یہ شہری اسی ملک کے باشندے ہیں آئینی و اخلاقی تقاضہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی قدر کریں اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ کرپٹ اور رشوت خور افسران کی حوصلہ شکنی ہو اور ایماندار افسران کی حوصلہ افزائی بہت ضروری ہو اس کے لئے صرف تقاریر اور بیانات کافی نہیں بلکہ حکمران اور اعلیٰ افسران عملی اقدامات کریں،تاکہ محافظ اور راہزن کا فرق واضح ہو۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :