دغاباز قوم

پیر 28 دسمبر 2020

Mufti Mohiuddin Ahmed Mansoori

مفتی محی الدین احمد منصوری

دینا میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 4200 مذاہب ہیں ان میں یہودی واحد مذہب ہے جو ماسوائے یہودیت کے تمام مذاہب کو باطل ان کے ماننے والوں گمراہ سمجھتے ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ کائنات میں یہودیوں کے مقابلے میں تمام اقوام حقیر اور غلام ہیں ، اسی متکبرانہ سوچ کی وجہ سے یہودی ایک متشدد، انتہاپسند مذہبی گروہ کی حیثیت سے دنیا بھر میں پہچانا جاتا ہے، یہ وہ قوم ہے جو حضرت موسیٰ  سے خاتم المرسلین حضرت محمد ﷺ تک کسی سے وفا نہیں کی اور پھر رسول اللہ ﷺ کے ادوار سے آج تک کسی فرد یا حکمران کو دل سے قبول نہیں کیا بلکہ احسان کرنے والوں کے ساتھ بھی احسان فراموشی اور دغابازی ان کا وطیرہ خاص رہا ہے، یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہودیت روز اول سے عالم انسانیت اور بلخصوص عالم اسلام کا دبدترین دشمن ہے، اس وقت پوری دنیا میں یہودیوں کی تعداد 14707400 ”ایک کڑوڑ سینتالیس لاکھ سات ہزار چار سو “ سے زیادہ نہیں ہے باوجود اس کے دنیا کے تمام بڑے فیصلے ان کی خواہشات یا پھر اشاروں کے عین مطابق ہوتے ہیں،(یہودی ایک ایسی شاطر قوم ہے کہ انہوں نے انتہائی چالاکی دغابازی سے دنیا کے طاقتور طبقے کو اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے)یہودی دنیا کی واحد قوم ہے کہ ان کے پا س اپنی کوئی زمین نہیں بلکہ استعماری قوتوں بین الاقوامی آقاوں کی مدد سے مشرق وسطیٰ کے قلب ارضِ مقدس انبیاء علیہ السلام کی سرزمین فلسطین پر بزورِ قوت ناجائز قابض ہیں،19 ویں صدی میں 2000 یہودی پناہ گزین کے طور پر ارض مقدس مشرق وسطیٰ میں داخل ہوئے(یہودی اس سفر کو پہلا ”عالیہ“ کہتے ہیں) اس ہجرت کا مقصد ارضِ مقدس پہ قابض ہونانہیں تھا بلکہ روسی اور رومانیائی قتل عام سے اپنے آپ کومحفوظ رکھنا تھا،اور دوسری ہجرت جوکہ 1905ءء میں کی اسے ”عالیہ دوم“ کہتے ہیں یہ ہجرت کہی ناکہی یقینا بددیانتی پر مبنی تھی،کیونکہ 1896ءء میں تھیوڈ رو ہرزل کی کتاب ”دی جیوئش اسٹیٹ“ کی اشاعت کے بعد یہودیوں نے اپنی ریاست کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا شروع کردیا تھا، یہودی ارض مقدس میں داخل ہوتے ہی یہودی ریاست کے لئے تگ ودو شروع کردی تھی اور عالمی قوتوں کے ذریعے مشرق وسطیٰ کے مسلم خاص کرکے عرب رہنماوں پر دباؤ ڈالنا شروع کردیا واضح رہے کہ سلطنتِ عثمانیہ یہودی ریاست کے سب سے بڑے مخالف تھے اور عرب رہنما بہر صورت سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ کرکے عرب ریاست بنانے کے خواہش مند تھے،(یہودیوں نے عربوں کی اس کمزوری سے خوب فائدہ اُٹھایا اور مسلمانوں کے آپس کے اس اختلاف کو یہودی ریاست کے قیام کے لئے سنگ میل بنایا) یہودی بظاہر پناہ گزین کے طور پر ارض مقدس مشرق وسطیٰ میں داخل ہوئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے حاکم بن بیٹھے، مشرق وسطی کے اہم ترین ممالک میں مصر ، اردن ، ایران ، لبنان ، عراق ، فلسطین ، شام اور قابض اسرائیل شامل ہے کبھی کبھی قبرص ، لیبیا ، کویت ، یونان اور ترکی کو بھی مشرق وسطیٰ میں شامل کیا جاتا ہے بحرین ، ْقطر،کویت، سعودی عرب، جنوبی یمن،شمالی یمن،اومان اور متحدہ عرب امارات یہ وہ اسلامی ممالک ہے جسے عرب ممالک یا جزیرہ نمائے عرب کہا جاتا ہے،(ان اسلامی ریاست کے درمیان اسرائیل کا وجود مسلم ممالک کے وجود پر سوالیہ نشان ہے) تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہودی ایک مکار اور دغاباز قوم ہے جو اپنے مفادات کے لئے پوری انسانیت کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتے ، واضح رہے کہ جس دن سے یہودی مشرق وسطی میں داخل ہوئے اور اسرائیل کی بنیاد رکھی اس دن سے مشرق وسطی تخریب کاری،بدعنوانی اور دہشت گردی کی آماجگاہ بن گیا ہے، اسرائیل کی خیانت اور دغا بازی کو دیکھتے ہوئے بیشتر مسلمان حکمرانوں نے آج تک اسرائیل کو قبول نہیں کیا اور اگر کسی مسلمان حاکم نے قبول بھی کیا ہوتو عوام کسی صورت قبول کرنے کو تیار نہیں ، الحمداللہ آج بھی عام مسلمانوں کا نظریہ اور سوچ یہ ہے کہ اسرائیل ایک غاصب اور ظالم ریاست ہے اسے ایک ریاست کے طور پر قبول کرنے کو تیار نہیں ، یہودیوں نے اپنے مقاصدکے حصول کے لئے جہاں ظلم و بربریت کا راستہ اپنایا دوسری جانب نہایت ہی مکاری اور چالاکی سے مسلمان حکمران کے ساتھ اپنے تعلقات ناصرف استوار کئے بلکہ استعماری قوتوں کے ذریعے مسلمان ملکوں سے اپنے اثر و رسوخ کو بڑھایا آج دنیا کے چند ممالک کے علاوہ تمام اسلامی ممالک اسرائیل کو تسلم کرچکے ہے جن ممالک نے اب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ان میں پاکستان اور سعودی عرب سرفہرست ہیں، جن ممالک نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ان کا موقف واضح ہے کہ اسرائیل کوتسلم کرنا فلسطینوں سے غداری کے مترادف ہے دوسری جانب اسرائیل اپنا وجود منوانے کے لئے سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہے ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے مقصد کی جانب کامیابی سے گامز ن ہے چند روز پہلے اخبار کی شہ سرخیوں میں یہ خبر چھپی ہوئی تھی کہ اسرائیل سے پہلی کمرشل پرواز سعودی فضائی حدود استعمال کرتے ہوئے امارات پہنچ گئی،یہ خبر کسی بھی مسلمان کے وجود کو جھنجوڑنے کے لئے کافی تھی کہ یہ خبر بھی گردش کررہی ہے کہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تاریخی امن معاہدہ کرنے جارہا ہے ( پاکستانیوں کو علم ہونا چاہیئے کہ ہمارے حکمران کا کردار بھی اس معاملے میں حوصلہ افزاء نہیں، قائد اعظم محمد علی جناح کے مضبوط نظریہ اور عوامی ردعمل کے خوف سے واضح موقف پیش نہیں کررہا ہے وگرنا ان حضرات کا دلی ملان اسرائیل کی طرف صاف نظرآتا ہے)
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسرئیل کے ساتھ کوئی معاہدہ کامیاب بھی ہوسکتا ہے ؟ کیا اسرائیل سے یہ امید کیا جاسکتا ہے کہ وہ عہد وفا کریگا ؟ کیاماضی میں عرب دنیاسے کئے گئے کسی معاہدہ کا پاس رکھا ؟ 1977ءء میں پی ایل او نے اسرائیل کو امن کے حوالے سے ایک مکمل معاہدہ پیش کیا مگر اسرائیل اس میں شامل نہیں ہوا، 1977ءء ہی کے اواخر میں امریکہ اور روس نے باہم مل کر امن کا ایک مشترکہ منصوبہ پیش کیا جسے پی ایل او نے منظور کرلیا لیکن اسرائیل کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے امریکہ اس منصوبے سے دستبردار ہوگیا، نومبر1978ءء یاسر عرفات نے معمولی شرائط و ضوابط پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا عندیا دیا اور ریپلیکن ممبر ” پال فنڈے“ کو بتایا کہ وہ امن کے معاملے پر امریکہ سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں لیکن اسرائیل نے یاسر عرفات کی اس کوشش کونظرانداز کردیا، 1982ءء میں سعودی عرب ، عراق، شام اور اردن سب نے مل کر امن کی پیشکش کی لیکن اسرائیل نے حسب روایت ان ممالک کی پیشکش کی طرف التفات نہیں کیا ، 1933ءء میں جب تیس ہزار یہودی فلسطین میں داخل ہوئے اور فسادت کا آغاز ہوا تب سے مسلمان حکمران اسرائیل کو صرف مزاکرات کی میز پر بلا ہی رہے ہیں اور اسرائیل ہے کہ ظلم اور بربریت کے ساتھ فلسطین پر قبضہ بڑھا ہی رہا ہے،کیا نام نہاد امن کے متلاشی مسلم حکمران یہ بھول گئے کہ اسرائیل عالم اسلام کے قلب میں گھونپا گیا وہ خنجر ہے جس نے مسلمانوں خاص کرکے عربوں کی تاریخ کو زخموں سے چور کیا ہوا ہے ، پھر اس دغاباز قوم پر اعتماد کیوں؟ اورصہونیوں کی نظر میں مسلمان حکمرانوں کی حیثیت کیا ہے؟ یاد رہے کہ اسرائیل بزور قوت فلسطین پر گھس بیٹھا ہے اسرائیل اپنی جانب سے کسی کو فائدہ نہیں پہنچاتا حتیٰ ے خود یہودیوں کو بھی نہیں، پھر بھلا مسلمانوں کا خیر خواہ کیسے ہوسکتا ہے، یاد رہے یہودیوں کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ وہ کسی صورت کسیمعاہدے کی زنجیر میں مقید نہیں ہونا چاہتے اور اگر وقتی فائدے یا مجبوری کے پیش نظر معاہدہ کربھی لیں تو اس کو پورا نہیں کرتے ، کیاصحرائے سینا کا تاریخی واقعہ، بنو قریظہ ، خیبر کا واقعہ اور ماضی قریب و بعید کے سیکڑوں واقعات صدیوں پر محیط تاریخ یہودیوں کی منافقت اور دغابازی کو سمجھنے کے لئے کافی نہیں ؟۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :