سقوط ڈھاکہ، کیا کھویا کیا پایا

بدھ 15 دسمبر 2021

Mufti Mohiuddin Ahmed Mansoori

مفتی محی الدین احمد منصوری

پاکستان کا وجود امت مسلمہ کے لئے کسی نعمت عظمیٰ سے کم نہیں، پاکستان کا مقصد حقیقی اسلامی نظریاتی سرحدارت کو تحفظ فراہم کرنا تھا، ہمارے بزرگوں پر ہندوؤں کے ناپاک عزائم عیاں ہوچکے تھے وہ سمجھ چکے تھے کے ہندو سامراج صرف مسلمانوں کو غلام بنانے کو کوشش میں مصروف نہیں بلکہ اسلامی تشخص تک کو مٹانے کے درپے ہے(آج ہندوؤں کا کردار دیکھ کر واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کے حامی رہنماؤں کا موقف حق بجانب تھا) مسلمان رہنماؤں کی جہد مسلسل اور کاوشوں سے ملک خداداد وجود میں آ تو گیا مگر ہم اپنے اجداد کی میراث کی حفاظت نہ کرسکیں،بدقسمتی سے قائد اعظم محمد علی جناح کے سانحہ ارتحال کے بعد ہمارے کسی حکمران نے کوشش نہیں کی یا موقع میسر نہیں آیا کہ وہ اس نوزائیدہ مملکت خداداد کو اپنے مقصد عظمیٰ کی طرف گامزن سکے، وقت کا پہیا گھومتا رہا سسٹم میں موجودمافیا، خودغرض بیوروکریسی اور اداروں میں موجود آمرانہ سوچ کے حامل افسران مضبوط سے مضبوط تر ہوتے گئے اور سیاسی و عوامی قوتیں کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی گئیں، جس کا نتیجہ ملک کے دولخت ہونے کی صورت میں ظاہر ہوا، سقوط ڈھاکہ کا سانحہ کسی دو سیاسی جماعتوں یا شخصیتوں کی صرف خود غرضی کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ عشروں پر محیط ناانصافیوں اور زیادتیوں کا خمیازہ تھا، یقینا سقوط ڈھاکہ ایک عظیم المناک ناقابل تلافی سانحہ ہے جس نے تاریخ کے دھارے کو موڑ کر رکھ دیا، مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کا اتحاد صدیوں بعد دین اسلام کی درخشندہ تعلیم اخوت و بھائی چارگی کی بنیاد پر قائم ہوا تھا مگر ہمارے حکمران اور ادارے مساوات کو قائم نہ رکھ سکیں جس کی وجہ سے یہ مثالی اتحاد انانیت، بغض کینہ پروری اور حسد کی نذر ہوگیا، سانحہ سقوط ڈھاکہ اس قدر المناک اور جگرخراش ہے کہ نصف صدی گزرنے کے بعد بھی زخموں کی تکلیف کو محسوس کیا جاسکتا ہے، ہر گزرتا ہوا دسمبر خون و جگر کو ملامت کرتا ہوا ندامت کے آنسو دیئے گزرجاتا ہے، حقیقت حال یہ ہے کہ 16 دسمبر 1971ء کی صبح ہم نے عزت و وقار کے ساتھ ساتھ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست ہونے کا اعزاز بھی کھوچکے ہیں،
سقوط ڈھاکہ ایک سانحہ تھا جو گزرگیا پر ایک طبقہ آج بھی اس سانحہ کی وجہ سے متاثر ہے وہ طبقہ نصف صدی سے یہ ثابت کرنے سے قاصر ہے کہ سانحہ سقوط ڈھاکہ ان کی خواہشات کے برخلاف تھا (مشرق پاکستان میں موجود ایک بہت بڑا طبقہ مسلم لیگ ، جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کے سپوٹر اور ہمدردوں پر مشتمل تھا جو عوامی لیگ کے نظریات و افکار کے ناصرف مخالف تھا بلکہ دو قومی نظریہ نظریہ پاکستان کے زبردست حامی تھا اور یہ بات بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ عوامی لیگ کے تمام ووٹر پاکستان مخالف نہیں تھے بلکہ ان میں سے اکثر کا بیانیہ تھا کہ ہم نے شیخ مجیب کو وزیراعظم پاکستان بننے کے لئے ووٹ دیا تھا ملک دولخت کرنے کے لئے نہیں) یہ وہ طبقہ ہے جنہوں نے پاکستان سے والہانہ محبت کی اور پاکستان ہی کو اپنا ایمان کاحصہ قرار دیا، یہ وہ طبقہ ہے جنہوں نے پاکستان کی محبت میں اپنے رشتہ داروں اپنے ہمسایوں، اپنے ہم زبان لوگوں کی ناراضگی کا پرواہ کئے بغیر پرخطر حالات کے باوجود پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرہ بلند کئے، یہ وہ طبقہ ہے جو کوملا،جاشور، سلہٹ ڈھاکہ، کھلنا، بیسال،راج شاہی سمیت مشرق پاکستان میں موجود ہرایک فوجی چھاؤنی میں پاک فوج کے سپاہیوں کے ساتھ مل کر پاکستان کے تحفظ کے لئے ہراول دستے کردار ادا کیئں، تاریخ کے اوراق میں ان مجاہدین کو رضاکار، الشمش اور البدر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جنہوں نے حب الوطنی کی وہ مثال قائم کی جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی، دشمنوں کے خلاف ہتھیار اٹھانا ان سے لڑنا بہت آسان ہے مگر وطن کی محبت میں اپنوں کے خلاف صف آراء ہونا مشکل ترین جنگ ہے جو جنگ مشرق پاکستان کے بنگالی مسلمانوں نے لڑی، (میں نے درجنوں ایسے غازیوں سے ملاقات کی جو 1971ء کے جنگ میں پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑ چکے ہیں مکتی باہنی کی گولیوں کا نشانہ بن چکے ہیں پاکستان کی محبت میں اسیری کے مشقت بھرے لمحات گزار چکے ہیں میں نے ان سے پوچھا وہ کونسی قوت تھی جس کی بنا پر آپ نے اپنوں کے خلاف ہتھیار اٹھائے سب کا ایک ہی جواب تھا کہ ہم نے اور ہمارے بزرگوں نے ایک آزاد اسلامی مملکت کا خواب دیکھا تھا جس کے لئے لازوال قربانیاں دیں اس عظیم مملکت اسلامیہ کو محض نظام سے مایوس ہوکر حالات کے رحم و کرم پہ چھوڑ کر کیسے دولخت ہونے دے سکتے تھے) جس کی پاداش میں ان مسلمانوں پر باوجود وسعت کے مشرق پاکستان کی زمین تنگ کردی گئی ان کے مال و املاک کو نذر آتش کردیا گیا بے دریغ قتل عام کیا گیا مؤرخین لکھے ہیں ہے صورتحال ایسی وحشت ناک تھی کہ زیرقلم لانا مشکل ہے شیطانیت کا ایسے دور دورہ تھا ایسی وحشت کا عالم تھا کہ خونی رشتہ دار ان وطن پرست مجاہدوں کو پناہ دینے سے گریزاں تھے المیہ یہ تھا کہ جو جہاں ملتا جنونیت سے لبریز عوامی لیگ کے غنڈے انہیں وہی قتل کردیتے، نوے ہزار اہلکاروں کو تو بھٹو صاحب مرحوم لے آئے مگر ان نوے ہزار اہلکاروں کے ساتھ ڈٹے ہوئے پاکستان کے رضاکار فورس، الشمش فورس اور البدر فورس اور ان کے خاندانوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا، وہ صرف مہاجر کیمپوں میں موجود بہاری نہیں بلکہ اس سے کئی زیادہ تعداد میں بنگالی مسلمان تھے جو وہاں رہ گئے جنہوں نے مختلف طریقوں سے بمشکل صرف اپنے جانوں کے ساتھ پاکستان کی جانب ہجرت کی یا جن کے خاندان مغرب پاکستان میں پہلے سے موجود تھے وہ شہری عوامی لیگ کے نظرمیں غدار ٹہرے ان کی زمین جائیداد سب ضبط کرلی گئے، جو بطور مجبوری سفر کی سکت نہیں رکھتے یا اثر و رسوخ کی وجہ سے چند سال روپوش ہوکر واپس اپنے علاقوں میں چلے گئے عوامی لیگ کی قیادت انہیں تک کو نہیں بخشا، نصف صدی گزرنے کے باوجود پاکستان سے محبت کرنے والوں کو برداشت کرنے کو تیار نہیں، آج بھی نحیف کمزور اور بوڑھیں بزرگوں کو تاحیات اسیری کی سزا سنارہے ہے جھوٹے اور بے بنیاد الزامات کی پاداش میں پھانسیاں دے رہے ہیں میں قربان جاؤں ان عظیم مجاہدوں پر جو تختہ دار میں کھڑے ہوکر بھی پاکستان زندہ باد کے نعرے لگارہے ہیں،
وہ طبقہ آج بھی پاکستان میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے میں مجبور ہیں دنیا چاند سے آگے ستاروں کی جانب سرگرداں ہیں اور یہ طبقہ سانحہ سقوط ڈھاکہ کے نصف صدی بعد بھی شناخت کی جنگ لڑرہے ہیں ،کیا اس طبقے کا کوئی پرسان حال بھی ہے؟ یقینا یہ مقام فکر ہے کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد ہم نے کیا کھویا کیا پایا۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :