سشانت سنگھ کی خودکشی، نام نہاد کامیابی کا نوحہ

اتوار 21 جون 2020

Muhammad Abdullah

محمد عبداللہ

آج ہندوستان میں سکھوں کی خالصتان تحریک زور پکڑ چکی ہے۔انڈین آرمی چائنہ کے ہاتھوں گاجر مولی کی مانند کٹ رہی ہے اوراقلیتوں کی زندگی جہنم بن چکی ہے لیکن انڈین میڈیا کے لیے بریکنگ نیوزصرف بالی ووڈ کے ستارے ہیں۔سلمان خان نے سیگریٹ چھوڑ دی، کترینہ نے فلم فئیر ایوارڈ میں کس ڈیزائنر کا سوٹ پہنا، سونم کپور کے کتے کو ڈپریشن جیسا خوفناک مرض لاحق حتیٰ کہ سیف علی خان اور کرینہ کپور کے بیٹے تیمور نے کس رنگ کا پیمپر پہنا جیسی چٹ پٹی خبریں ہی میڈیا کے لیے اہم ہیں۔


دہلی، بمبئی اور شملہ جیسے بڑے شہروں کے ائرپورٹس پر ملک کے بڑے اخباروں اور ٹی وی چینلز کے نمائندے گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔جونہی کوئی فلمی ہیرو یا ہیروئن وی آئی پی لاؤنج میں قدم رکھے تو پورے ائرپورٹ پر ہلچل مچ جاتی ہے جیسے کسی ملک کے بادشاہ یا شہزادی نے قدم رنجہ فرمائے ہوں۔

(جاری ہے)

میڈیا کے نمائندے اور فوٹو گرافر فلمی ستارے کی طرف بھکاریوں کی مانند لپکتے ہیں اور میڈم، میڈم، سر، سر ایک تصویر صرف ایک تصویر کی رٹ لگاتے ہیں۔

فلمی ستارے ان بھیک منگوں کی التجا پر مصنوعی مسکراہٹ اچھالتے ہوئے ایک آدھ فوٹو کا پوز دے کر چلتے بنتے ہیں۔
بھارت کی نوجوان نسل، بالی ووڈفلم انڈسٹری کے چمکتے ستاروں کی پرتعیش طرز زندگی کی دیوانی ہے۔ ریاست بہار کے ضلع پورنیا کے رہائشی، سشانت سنگھ راجپوت نے 2003ء میں دہلی کالج آف انجینئرنگ کے، مکینیکل انجینئرنگ کے شعبہ میں ایڈمیشن لیا تو اس کی آنکھوں میں بھی ہیرو بننے کے سپنے کسی چراغ کی مانند روش تھے۔


سشانت سنگھ نے مکینکل انجینئرنگ کی ڈگری کو تیسرے سال ہی خیر باد کہہ دیا اور شوبز کی دنیا میں قدم رکھ دیا۔شوبز کی دنیا میں آتے ہی قسمت نے یاوری کی اور سال 2008ء میں اسے ٹی وی ڈرامہ" جس دیش میں ہے میرا دل " میں کاسٹ کر لیا گیا جس نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔
سشانت سنگھ کی بلاک بسٹر فلموں میں پی کے، رابطہ، ویلکم تو نیو یارک اور ڈرائیو شامل ہیں۔

سشانت فلم نگری بمبئی میں رہائش پذیر تھے۔بالی ووڈ کے ابھرتے ہوئے سٹار سشانت سنگھ نے 14جون2020ء کو بمبئی میں اپنی رہائش پر خودکشی کر لی۔سشانت سنگھ کی موت پر انڈین میڈیا کی چیخ و پکارکی بدولت بھارتی فوجیوں کی چائنہ کے ہاتھوں ہلاکت اور چائنہ کی فوج کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی جیسی بڑی خبریں پس پشت چلی گئیں۔سشانت کی خودکشی کا ذمہ دارکبھی کرن جوہر کو ٹھہرایا گیا تو کبھی بالی ووڈ فلم انڈسٹری کے بڑوں کی بے حسی کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ۔


لیکن حقیقت یہ ہے کہ سشانت ڈپریشن کے مریض تھے۔سشانت ڈپریشن کی بدولت تنہائی کاشکار تھے اور دن میں تین بار اینٹی ڈپریشن کی ادویات استعمال کرتے تھے۔ڈپریشن ایک نفسیاتی بیماری ہے جس میں مریض مایوسی اور نا امیدی کا شکار ہو جاتا ہے اور بڑی سے بڑی کامیابی بھی اسے خوش نہیں کر سکتی۔مایوسی اور نا امیدی اس ا نتہا کو چھو جاتی ہے کہ آدمی خودکشی پر مجبور ہو جاتا ہے۔

دنیا بھر میں سالانہ دو کروڑ افراد، اور اوسطاً ایک منٹ میں60 افراد ڈپریشن کی بدولت خودکشی کر لیتے ہیں۔
ڈپریشن جیسے خوفناک نفسیاتی مرض کے افراد کو دواؤں کے ساتھ سائیکالوجیکل کونسلنگ کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے۔زندگی پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا تاج ہے۔انسان کو جہاں کامیابیاں ملتی ہیں وہاں ناکامیاں بھی زندگی کا حصہ ہیں۔جس شخص کے مخلص دوست ہوں وہ ڈپریشن سے بچ جاتا ہے۔

انسان کو اپنے دکھ، درد اور غموں کے اظہار کے لیے ایک کندھے کی ضرورت ہوتی ہے جس پر سر رکھ کر چند آنسو بہانے سے تکلیف کافی کم ہو جاتی ہے۔بے لوث دوست ڈپریشن اور مایوسی کو دور کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
جدید تحقیق کے مطابق کامیاب افراد میں خودکشی کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے۔ کامیاب لوگوں کا المیہ ہوتا ہے کہ وہ ہر وقت دوسروں کے ساتھ موازنہ کرتے رہتے ہیں۔

دوسروں کی شاندار گاڑیاں، پر تعیش گھر اور بنک بیلنس دیکھ کر کڑھتے رہتے ہیں۔قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے کہ "تمھیں زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے کی خواہش نے غافل کر دیا یہاں تک کہ تم قبروں میں جا پہنچے"(سورہ التکاثر) حدیث شریف میں ہے کہ ابن آدم کو اگر سونے سے بھرا جنگل بھی دے دیا جائے تو وہ دوسرے جنگل کی خواہش کرے گا۔اگر آپ ڈپریشن اور مایوسی سے بچنا چاہتے ہیں تو عہدے، ا ولاد، اور مال و دولت میں دوسروں سے موازنہ کرنا چھوڑ دیں۔

اپنی پوری کوشش اور محنت کے بعد اللہ تعالیٰ نے جو کچھ عطا کیا ہے اس پر راضی ہو جائیں۔اللہ تعالیٰ تھوڑے مال میں ہی برکت ڈال دے گا۔
انسان کسی بھی شعبے میں کام کر رہا ہوتو سٹرگل کے دنوں میں بہت سے حاسداور مخالفین اس کی ٹانگیں کھینچتے ہیں، اس کی راہوں میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں، اس کی کامیابیوں پر مبارکباد دینے کی بجائے اس سے نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے، اسے کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ناکام شخص ہے اور زندگی میں کچھ نہیں کر سکتا۔

جس کی بدولت انسان مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔مایوسی انسان کے جذبے، ہمت اور قوت ارادی کو آٹوپس کی طرح جکڑ لیتی ہے اور انسان کسی کام کا نہیں رہتا۔مایوس انسان بہت جلد نا امیدی کی اتھا ہ گہرائیوں میں ڈوب جاتا ہے۔مایوسی اور نا امیدی سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ انسان کا اپنے رب کے ساتھ مضبوط تعلق ہو۔ اس دنیا میں ایک پتہ بھی اللہ کے حکم کے بغیر نہیں ہل سکتا۔انسان کا پختہ ایمان ہونا چاہیے کہ جس اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر پہنچایا ہے وہی آگے بھی راستے کھولے گا۔اللہ تعالیٰ خود ہی لوگوں کے دلوں میں آپ کی محبت ڈال دے گا اور کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :