ڈوبتا کراچی، ارباب بست وکشاد کی بے حسی کا شاخسانہ

پیر 10 اگست 2020

Muhammad Abdullah

محمد عبداللہ

ملک بھر میں عید ایثار کی خوشیاں منائی جا رہی تھیں۔کراچی شہر میں صبح سے ہونے والی ہلکی ہلکی بارش سے موسم خوشگوار ہو گیا تھا۔وہ اپنی بیوی اور بیٹے کے ہمراہ عید کی تیاریاں کر کے خوش و خرم گلبرگ کے علاقے، کے بی آر سوسائٹی میں محو سفر تھا۔ٹریفک جام کی بدولت اس نے شارٹ کٹ لینے کی کوشش کی جس کی بدولت گاڑی قریبی سیوریج نالے میں گر گئی۔


گاڑی کے شیشے کھلے ہونے کی بدولت گاڑی میں غلیظ اور بدبودارپانی بھرنا شروع ہو گیا۔اس کی بیوی اور بچی نے خوف سے چیخنا چلانا شروع کر دیا۔سیٹ بیلٹ کی بدولت گاڑی سے نکلنا مشکل ہو رہا تھا۔غلاطت اور بدبو کی بدولت سانس لینا محال تھا۔وہ افراتفری میں کبھی اپنی بیوی اور بچی کی طرف دیکھتا اور کبھی سیٹ بیلٹ کے پھنس جانے والے بکل کو کھولنے کی کوشش کرتا۔

(جاری ہے)


ناگاہ اس کی سیٹ بیلٹ کھل گئی اور وہ گاڑی سے آندھی کے بگولے کی مانند نکل گیا۔ گاڑی سے نکلتے ہی جیسے ہدبودار پانی کے بھنور میں پھنس گیا۔اس کی آنکھیں، ناک اور منہ غلاظت سے بھر گیا ، سانس اکھڑنے لگی اور اسے موت کے فرشتے کے پروں کی پھڑاپھڑاہٹ سنائی دی۔نالے کی بے رحم لہریں اس کی لاش نا معلوم منزل کی طرف لے گئیں۔
قارئین! یہ کہانی ہے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے شہری مظفر کی جو عید الاضحیٰ کے دن اپنی بیوی یاسمین اور بیٹے عبید کے ہمراہ گلبرگ کے علاقے میں محو سفر تھا۔

مظفر کی گاڑی نالے میں گرنے کے بعد انتظامیہ نے روائتی بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی ایکشن نہ لیا۔علاقہ مکینوں نے اپنی مدد آپ کے تحت کرینوں کی مدد سے گاڑی تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن گاڑی اور لاشوں کا کوئی پتہ نہ چلا۔منتخب نمائندوں اور اسسٹنٹ کمشنر کی درخواست پر پاک نیوی کے غوطہ خوروں کی ٹیم ریسکیو کے لیے پہنچی۔جس نے گاڑی اور لاشیں نکالیں۔


تاریخ گواہ ہے کہ ارباب بست و کشاد کے لیے کراچی کے 1 کروڑ، 60 لاکھ، 94 ہزار لوگوں کی زندگیوں کی کوئی قیمت نہیں۔کراچی کے باسیوں کو کبھی دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔کبھی ایم کیو ایم کے آکٹوپس نے اہل کراچی کا خون چوسا اور کبھی بھتہ خوری کے لیے معصوم لوگوں کا خون پانی کی طرح بہایا گیا۔گزشتہ دنوں کراچی میں ہونے والی بارشوں نے حکومتی نا اہلی کا پول کھول دیا۔


موسلا دھار بارش کی بدولت کراچی الیکٹرک کمپنی کے200 فیڈرز ٹرپ کر گئے۔بارش کی بدولت کراچی شہر کے 514 بڑے اور38 چھوٹے نالوں میں بارش کا پانی بہتا رہا جس کی بدولت سیورج سسٹم چوک کر گیا۔درجنوں لوگ کرنٹ لگنے، نالوں میں ڈوبنے اور چھتیں گرنے سے ہلاک ہو گئے۔
حکومتی نمائندوں اور پیپلز پارٹی کے درمیان لفظی جنگ عروج پر رہی۔جناب وزیر اعلیٰ مرادعلی شاہ نے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے تاریخی بیان دیا کہ نالوں کی صفائی ہمارا کام نہیں۔

حضور! عوام جانتے ہیں کہ آپ کا کام صرف اپنے آقاؤں کو خوش کرنا اور اپنی پارٹی کا دفاع کرناہے لیکن جان کی امان ملے تو ایک عرض ہے کہ اگر آپ عوام کی تکلیفوں کو دور نہیں کر سکتے تو کم از کم ان کی بے بسی کا مذاق تو نہ اڑائیں۔
وزیر اعظم کی ہدائت پر پاک فوج، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور فیڈرل ورک آرگنائزیشن کراچی کے سیورج سسٹم کی بحالی اور کچرے کی صفائی کے لیے سندھ حکومت کی مدد کو آئیں۔

کراچی میں کچرے کے ڈھیر نکاسی آب میں بڑی رکاوٹ ہیں۔شہر میں روزانہ20ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے اور 70فیصد کچرا نالوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔نیشنل دیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق شہر میں ڈیڑھ کروڑ ، ٹن کچرا پڑا ہے جسے شہر سے باہر ڈمپ کرنے کی ضرورت ہے۔
کراچی میں نکاسی آب کے لیے 552 نالے ہیں لیکن ان نالوں کے راستوں میں کئی قانونی اور غیر قانونی آبادیاں ہیں۔

جس کی بدولت نکاسی آب میں شدیدمشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بارش کے دوران نالوں میں پانی بھر جاتا ہے اور سیوریج کا غلیظ اور بدبودار پانی گھروں میں داخل ہو جاتا ہے۔سیوریج کے پانی کی نکاسی کا انتظام نہ ہونے کی بدولت تعفن، بدبو، گندگی اور بیماریاں پھیلتی ہیں۔جس کی بدولت عوام کا جینا دو بھر ہو چکا ہے۔
کراچی میں روزانہ 472ملین گیلن سیورج پیدا ہوتا ہے۔

جس میں سے صرف 150 ملین گیلن سیوریج کو ٹریٹمنٹ پلانٹس کے ذریعے دوبارہ استعمال کے قابل بنایا جاتا ہے۔روزانہ 322 ملین گیلن سیوریج کی شہر سے باہر منتقلی کے لیے نالوں کی بروقت صفائی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے گزارش ہے کہ وہ وزیر بلدیات سندھ محترم ناصر حسین شاہ صاحب سے باز پرس کریں کہ حضور! کراچی واٹراینڈ سیوریج بورڈ کے سالانہ بجٹ پر 36کروڑ لاگت کے باوجود محکمے کی کارکردگی بہتر کیوں نہیں ہو سکی۔

کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا بجٹ 10لاکھ روپے روزانہ ہے لیکن کارکردگی زیرو ہے۔
سندھ کے وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ کے زیر انتظام، کراچی واٹراینڈ سیوریج بورڈ کی کارکردگی مایوس کن رہی۔وزیر موصوف کام کرنے کی بجائے فوٹیج کے جعلی اور پرانا ہونے پر ماتم کناں رہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ کراچی میں واٹر اینڈ سیوریج سسٹم کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے تا کہ بارشوں کی بدولت شہر پانی میں ڈوبنے سے بچ سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :