پنجاب پولیس کی کارکردگی اور حکمرانوں کی بے حسی

منگل 28 جنوری 2020

Muhammad Abdullah

محمد عبداللہ

پاکستان کے سابق نگران وزیر اعظم میر بلخ شیر کے پوتے اور پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر، سردار دوست محمد مزاری اتوار 26 جنوری2020ء کو وزیراعلیٰ ہاؤس کے دروازے پر پہنچے تو پولیس نے انہیں روک لیا اور گزارش کی کہ سر آپ کے ساتھ سٹاف کا بندہ اندر نہیں جا سکتا۔جس پر محترم ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ میرے ساتھ جانے والا بندہ غیر مسلح ہے اس لیے اسے میرے ساتھ جانے دیں لیکن پولیس والوں نے انکار کر دیا۔


پولیس کے ناروا سلوک کے خلاف محترم دوست محمد مزاری پنجاب اسمبلی میں تحریک استحقاق جمع کرواتے ہوئے ماتم کناں ہوئے کہ میں پنجاب اسمبلی کا کسٹوڈین ہوں پولیس کا میرے ساتھ یہ رویہ ہے تو عام لوگوں کے ساتھ کیا ہوتا ہو گا۔انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت کی شروع سے پالیسی ہے کہ پولیس کو عوام دوست بنائیں گے لیکن یہ کوشش رائیگاں جا رہی ہے۔

(جاری ہے)

ڈپٹی سپیکر سے پولیس کے ناروا سلوک پر سپیکر پنجاب اسمبلی سمیت کئی ارکان اسمبلی سیخ پا تھے اور اس عظیم جرم کی پاداش میں آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کو منگل کے روز ڈیڑھ بجے اسمبلی میں طلب کر لیا گیا۔

جہاں محکمہ پولیس کے خلاف حکومت اور اپوزیشن ارکان اسمبلی کے خدشات دور کیے جائیں گے۔
پنجاب پولیس کی آفیشل ویب سائیٹ کے مطابق پنجاب میں گذشتہ سال 2019 ء میں قتل کے3ہزار7 سو72 ، اقدام قتل کے 5ہزار4اور ہتک عزت کے14ہزار74 مقدمات درج ہوئے، اغوا کے 13ہزار8 سو97 واقعات جبکہ اغوا برائے قتل کے66 واقعات رجسٹر ہوئے، ریپ کے 3ہزار6 سو48 مقدمات جبکہ گینگ ریپ کے 1سو88 مقدمات درج ہوئے، پنجاب بھر میں ڈکیتی کی8 سو 16، نقب زنی کی 15ہزار7 سو32 جبکہ چوری کی 11ہزار1سو46 واداتیں ہوئیں، پنجاب میں 21ہزار9سو72 موٹرسائیکلیں چوری ہوئیں جبکہ گاڑیاں چھیننے کے 3 ہزار7سو52 واقعات ہوئے۔

پنجاب بھر میں مویشی چوری کی6ہزار3سو39 وارداتیں ہوئیں۔ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں مجموعی طور پر 4لاکھ47ہزار8سو 66 پولیس کیس رجسٹرڈ ہوئے۔جن میں 3 لاکھ28ہزار7سو3 کیسوں کے چالان پیش ہوئے، 73ہزار2 سو19 انڈر انوسٹی گیشن ہیں جبکہ20ہزار وارداتوں کا کوئی سراغ نہیں لگ سکا جن میں تقریباً1ہزار قتل اور قدام قتل اور اغوا برائے تاوان کے140مقدمات کے مجرموں کا کچھ پتہ نہیں چل سکا۔


جناب وزیر قانو ن راجہ بشارت صاحب! کیا آپ نے کبھی سوچا کہ پنجاب پولیس ، پولیس اسٹیشن جا کر مقدمہ درج کروانے والے مدعی کے ساتھ کتنی عزت سے پیش آتی ہے؟ پولیس کس طرح پہلے مدعی اور پھر ملزم کی جیبیں صاف کرتی ہے؟ ایس ایچ او علاقے کا بادشاہ ہوتا ہے۔جووڈیروں، سیٹھوں، تاجروں اور ارکان سمبلی کی چاپلوسی کو ہی اپنی ڈیوٹی سمجھتا ہے۔جناب اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہیٰ صاحب بخوبی جانتے ہیں کہ ایم پی اے اور ایم این اے صاحبان کے حکم پر مخالفین پر کس طرح کے مقدمات درج کیے جاتے ہیں؟ ان کے چچا چوہدری ظہور الہیٰ پر بھینس چوری کا مقدمہ بھی پنجاب پولیس نے ہی درج کیا تھا۔


جناب راجہ بشارت صاحب کبھی پنجاب اسمبلی کے شاندارکیفے ٹیریا میں خوشگوار کافی کے گھونٹ بھرتے ہوئے سوچیئے گا کہ پنجاب بھر میں اغوا ہونے والے تقریباً 3ہزار خاندانوں پر کیا گزرتی ہوگی جن کے پیارے ایک سال گزرنے کے باوجود بازیاب نہیں ہو سکے۔ان ماؤں کی پتھرائی ہوئی آنکھوں کے رت جگوں کے بارے میں سوچیئے گا جو دروازے پر ہونے والی ہر آہٹ پر چونک جاتی ہیں۔

ان سہاگنوں کے بکھرتے خوابوں اور روتی بلکتی آنکھوں کے بارے میں سوچیئے گا جن کے خاوندوں کو محبت کی شادی کی پاداش میں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا اور وہ انصاف کی دہلیز پر سر پٹخ پٹخ کر بے حال ہو گئیں لیکن انصاف کی دیوی مہربان نہ ہو سکی۔ان 23 سو لوگوں کے بارے میں سوچیئے گا جن کی عزت کو سر بازار اچھالا گیا اور وہ ایک سال سے انڈر انوسٹی گیشن مقدمات کے عذاب کو سہہ رہے ہیں۔


جناب وزیر اعلیٰ عثمان بزدار صاحب اگر بادشاہ سلامت کو خوش کرنے کے عظیم کام سے فرصت ملے تو پنجاب پولیس کے عوام الناس سے روا رکھے گئے ناروا سلوک پر نوٹس لینے کی جرات کیجئے گا۔پنجاب پولیس کے تھرڈ ڈگری ٹارچر کی بدولت مرنے والے بے گناہوں کے خاندانوں کے رستے زخموں پر مرہم کون رکھے گا؟
میری ارباب بست و کشاد سے گذارش ہے کہ کبھی آئی جی پنجاب کو اسمبلی بلا کر پوچھیں کہ جناب سال2019ء میں ہونے والی 73ہزار2 سو19 انڈر انوسٹی گیشن مقدموں کی تفتیش کب مکمل ہو گی اور 20ہزار وارداتوں کا کب سراغ ملے گا اور کب ان کے مجرم کیفر کردار تک پہنچیں گے۔


 وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت اور وزیر اعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار سے گزارش ہے کہ جناب محترم ڈپٹی سپیکر کے ساتھ گستاخی کرنے والے پولیس افسران کو سر عام پھانسی کی سزا دیں تاکہ محکمہ پولیس کے کسی افسر کو ارباب بست و کشاد کی شاہی سواریوں کو روکنے کی جرات نہ ہو۔حکمرانوں کے دوغلے رویے کی بدولت پولیس اصلاحات دیونے کا خواب بن کر رہ گئی ہیں۔جب پولیس کا ناروا سلوک حکمرانوں کی طبع نازک پر گراں گزرتا ہے تو ان کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے اور متعلقہ افسران کو معطل کر کے خوش ہو جاتے ہیں۔ لیکن جب یہی پولیس عوام کو سر عام ذلیل و رسوا کرے تو ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :