منفرد اسلوب کے انقلابی شاعر، راحت اندوری داغ مفارقت دے گئے

جمعرات 13 اگست 2020

Muhammad Abdullah

محمد عبداللہ

شاعری لفظ ، خیال اور مشاہدے کا حسین امتزاج ہے۔شاعر ایک طرف تو معاشرے میں پھیلی نفرت، بے حسی اور بے اعتنائی کو اجاگر کرتا ہے جبکہ دوسری طرف محبت، وفا اور چاہت کے موتی بکھیر کر دلوں میں محبت کی جوت جگاتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے لوگوں نے شاعروں کوہمیشہ دل کی مسند پر بٹھایا ۔ڈاکٹر راحت اندوری لفظوں کے بادشاہ اور کروڑوں دلوں کی دھڑکن تھے۔

ان کی شاعری کی قوس قزح میں عشق، پیار اور چاہت کے رنگ سجے ہیں۔
وہ معاشرے کے نبض شناس تھے۔ان کی شاعری معاشرے کی تلخ حقیقتوں کو بے ساختگی کے سانچے میں ڈھال کر دل پر دستک دیتی ہے۔سوشل میڈیا، فیس بک ، ٹک تاک اور انسٹاگرام پر ان کی شاعری کے چرچے ہیں۔ان کے آفیشل یوٹیب چینل پر 12لاکھ 90ہزارسبسکرائبرز ہیں جبکہ10کروڑ، 68 لاکھ لوگ ان کی شاعری سن چکے ہیں۔

(جاری ہے)


ڈاکٹر راحت اندوری ہنس مکھ، غیرت مند اور خوددار انسان تھے۔انہوں نے زبوں حالی کے دنوں میں کبھی حکومت کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا۔وہ پاکستان اور بھارت میں اخوت و محبت کے قائل تھے۔وہ جون ایلیا کے دیرینہ دوست تھے۔وہ پاکستان میں کئی بار مشاعروں میں شرکت کے لیے آئے۔وہ مشاعروں کی جان تھے۔ان کے سٹیج پر آتے ہی حاضرین کے چہرے کھل اٹھتے تھے اور لوگ کھڑے ہو کر تالیوں کی گونج سے ان کا استقبال کرتے تھے۔


ڈاکٹر راحت اندوری محبتوں کے سفیر تھے۔ان کا شاعری پڑھنے کا انداز دلوں کو چھو لیتا تھا۔جب وہ بولتے تھے تو ان کے منہ سے پھول جھڑتے تھے۔ان کی آواز میں جادو تھا۔ان کی آنکھوں میں غم ہلکورے لیتا تھا، دل درد سے بھرا ہوتا تھا لیکن چہرے پر خوشیوں کے رنگ جھلملاتے تھے۔
بھارت میں بڑھتے ہوئے کرونا انفیکشن نے11، اگست 2020ء کو لفظوں کے بادشاہ، شاعر دلنواز اور کروڑوں دلوں کی دھڑکن محترم راحت اندوری کی جان لے لی۔

وہ پہلے سے شوگر اور دل کی بیماری میں مبتلا تھے ۔انہوں نے10اگست کو ٹوئٹ کیا کہ کوویڈ کی شروعاتی علامتیں نظر آنے کے بعد کل میرا کرونا ٹیسٹ کیا گیاجس کی رپورٹ پازیٹو آئی ہے۔میں آربندو ہسپتال میں ایڈمٹ ہوں دعا کریں کہ جلد از جلد کرونا کو شکست دے دوں۔
70 سالہ شاعر ڈاکٹرراحت اندوری نے ٹوئیٹر پیغام میں لوگوں سے دعا کی اپیل کی اورساتھ ساتھ یہ بھی گذارش کی تھی کہ ان کی خیریت دریافت کرنے کے لیے فون نہ کیا جائے۔


راحت اندوری یکم جنوری1950ء کو بھارت کے شہر اندور میں پیدا ہوئے۔وہ ایک ٹیکسٹائل مل کے ملازم رفعت اللہ قریشی اور مقبول النساء کی چوتھی اولاد تھے۔انہوں نے مدھیہ پردیش بھوج اوپن یونیورسٹی سے 1985ء میں اردو ادب میں پی ایچ ڈی کی۔وہ اردو کے بہترین پروفیسر ، شہرہ آفاق شاعر اور ہر د لعزیز گیت نگار تھے۔ان کے گیت زبان زد عام ہیں۔
راحت اندوری کے شعری مجموعوں میں رت، دو قدم اور سہی، میرے بعد، دھوپ بہت ہے، چاند پاگل ہے، موجود اور ناراض شامل ہیں۔

انہوں نے کئی فلموں کے گیت لکھے۔ان کے مشہور گیتوں میں تم سا کوئی پیار کوئی معصوم نہیں ہے، تم مانو یا نہ مانو، دل کو ہزار بار روکا اور کوئی جائے تو لے آئے سر فہرست ہیں۔
راحت اندوری ادب کے آسمان کا درخشندہ ستارہ تھے۔ان کی موت سے شاعری کا ایک باب ختم ہوا۔اللہ تعالیٰ ان کوجنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :