نشہ ایک لعنت

منگل 22 دسمبر 2020

Muhammad Abdullah

محمد عبداللہ

ریلوے اسٹیشن کے قریب کچرے کے ڈھیر سے بدبو اور تعفن اٹھ رہا تھا۔وہ کچرے کے ڈبے کے قریب بے حس و حرکت پڑا تھا۔جسم میل کچیل سے اٹا ہوا تھا ، پورے جسم پر کپڑوں کے نام پر چند چیتھڑے لٹکے ہوئے تھے، ہونٹوں سے رال بہہ رہی تھی ، چہرے پر موجود جھاڑ جھنکاڑ داڑھی پر مکھیاں بھنبھا رہی تھیں اور آنکھیں فضا میں موجود نامعلوم نقطے پر مرکوز تھیں۔

سردی کی بدولت اس کا بدن خزاں زدہ پتے کی مانند لرز رہا تھا۔نشہ نہ ملنے کی بدولت اس کا بدن ٹوٹ رہا تھا اور سانس لینے میں شدیددشواری محسوس ہو رہی تھی۔میں جب اس کے قریب پہنچا تو آہٹ کی بدولت وہ بوکھلا کر اٹھا اور خالی خالی نظروں سے مجھے دیکھنے لگا۔
وہ کون تھا؟ وہ کسی بے بس ماں کی آنکھوں کا تارا تھا، کسی سہاگن کی آرزوؤں کا چراغ تھا، کسی بہن کا لاڈلا بھائی تھا اورکسی باپ کی امنگوں کا ترجمان تھا ۔

(جاری ہے)

وہ کیا وجوہات تھیں جن کی بدولت وہ محنت مزدوری کرنے والا نوجوان نشے کی طرف راغب ہوا۔ہاں، وہ بھی زندگی کی جولانیوں سے بھرپور جوان تھا جس کی آنکھوں میں سپنوں کے دیے روشن تھے۔
جب دن رات محنت و مشقت کر کے خاندان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے باوجود، خاندان والوں نے سراہنا تو دور کی بات، عزت سے بات کرنا بھی چھوڑ دے۔جب دوست ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے پھینک دیں اور مشکل وقت میں کام آنے کی بجائے حیلے بہانوں سے دل بہلانے کی کوشش کریں۔

جب بیوی زندگی کے دکھوں میں سہارا بننے کی بجائے محض فرمائشوں اور طعن و تشنع کو وطیرہ بنا لے۔
جب زندگی کے صحرا میں دوڑتے دوڑتے سراب کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آئے تو انسان زندگی سے مایوس ہو کر وقتی خوشی اور لذت کا متلاشی بن جاتا ہے۔جدید تحقیق کے مطابق نشہ اعصابی نظام کو پرسکون کر دیتاہے۔جس کی بدولت انسان وقتی طور پر اپنی پریشانیاں، دکھ اور مسائل بھول جاتا ہے اور خود کو ہواؤں میں اڑتا محسوس کرتا ہے۔

انسان لذت اور سکون کی وادیوں میں گم ہو جاتا ہے۔لیکن جب نشے کا زور ٹوٹتا ہے تو جسم کو دوبارہ اسی سکون کی طلب ہوتی ہے۔جس سے انسان نشے کی لعنت میں بری طرح گرفتار ہوجاتا ہے۔
ملک خداددادپاکستان میں 1کروڑ افراد منشیات کے عادی ہیں۔جن کی تعداد میں6 لاکھ سالانہ اضافہ ہو رہا ہے۔ملک بھر میں نشہ کرنے والے افراد میں80فیصد مرد، جبکہ20 فیصد خواتین شامل ہیں۔

منشیات کی عالمی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کی 90 فیصد پوست(جس سے ہیروئن پیدا کی جاتی ہے) افغانستان میں پیدا ہوتی ہے۔جس کا 40 فیصد حصہ پاکستان کے راستے عالمی منڈی میں سمگل کیا جاتا ہے۔
#ملک بھر میں منشیات کے عادی افراد کے علاج کے لیے75ادارے ہیں۔جن میں 30ہزار افراد کا علاج ہو سکتا ہے۔جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔ماہرین نفسیات کے مطابق جب تک ہم اپنے معاشرتی رویے نہیں تبدیل کرتے نوجوان نسل کو نشے کی طرف راغب کرنے سے نہیں روکا جا سکتا۔


انسان کے نشے کی طرف راغب ہونے میں پہلا قصور والدین کا ہوتا ہے۔جو زندگی کی دوڑ میں اس قدر مصروف ہوتے ہیں کہ اپنے بچوں کو وقت نہیں دیتے، ان کی اخلاقی کج رویوں کا علم ہونے کے باوجود اگنور کرتے ہیں۔والدین اپنے بچوں کے ساتھ محبت کا رشہ استوار کروانے کی بجائے ان کو غلطی پر لعنت ملامت کرتے رہتے ہیں۔جس کی بدولت بچے بری صحبت کا شکار ہوکر نشے کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔
انسان کو یہ آفاقی حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ زندگی پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا تاج ہے۔مسائل، دکھ، درد اور رکاوٹیں زندگی کا حصہ ہیں۔انسان مسائل اور دکھوں کے دوران اللہ تعالیٰ سے تعلق کو مظبوط بنا لے تو بھٹکنے اور نشے کی طرف راغب ہو نے سے بچ سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :