خدمت خلق ، راحت قلب کا نسخہ

جمعرات 23 جولائی 2020

Muhammad Abdullah

محمد عبداللہ

قدرت کا اٹل قانون ہے کہ درخت اپنا پھل خود نہیں کھاتے۔ سورج اپنی شعاعوں سے استفادہ نہیں کرتا،۔پھول اپنی خوشبو پھیلا کردل و دماغ کو معطر کرتے ہیں۔ چاند تاریک رات کی وحشت میں چاندنی بکھیر کر دلوں میں محبت کی جوت جگاتا ہے اوردریا اپنا پانی خود نہیں پیتے۔دوسروں کے کام آنا ہی اصل زندگی ہے۔
 جو شخص مخلوق خدا کی خدمت میں لگ جائے اللہ تعالیٰ اس کی عمر، روزی اور معاملات میں برکت ڈال دیتا ہے۔

وہ مٹی کو ہاتھ لگائے تو وہ سونا بن جاتی ہے۔کامیابی اس کے گھر کی لونڈی بن جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں اس شخص کی محبت ڈال دیتا ہے۔
سلیمان الراجحی بھی ایسا ہی نیک بخت سخی ہے ۔ سلیمان الراجحی کا شمار دنیا کے 20 سخی ترین افراد میں ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

سعودی عرب کے شہر القصیم میں واقع کھجوروں کے ایک باغ میں کم و بیش کھجور کے 2 لاکھ درخت ہیں ۔

یہ باغ سلیمان الراجحی کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف ہے۔اس باغ میں45قسم کی کھجوریں ہیں۔اس باغ کی سالانہ پیداوار10ہزار ٹن کھجور ہے۔۔اس باغ کی کمائی سے دنیا کے مختلف ممالک میں مساجد کی تعمیر، خیراتی کام اور حرمین شریفین میں افطاری کا انتظام کیا جاتا ہے۔
سلیمان الراجحی نے غربت میں آنکھ کھولی۔وہ سکول کے طالب علم تھے تو سکول نے ایک تفریحی ٹور تشکیل دیا جس میں شمولیت کے لیے ایک ریال فیس تھی۔

گھر میں غربت و افلاس کے ڈیرے تھے ۔ان حالات میں ایک ریال کہاں سے آتا۔تفریحی ٹورسے پہلے سلیمان الراجحی نے کلاس میں پوزیشن لی تو ایک فلسطینی استاد نے اسے ایک ریال انعام دیا۔وہ ایک ریال سلیمان کے لیے خزانہ قارون سے کم نہ تھا۔سلیمان نے ریال ہاتھ میں پکڑ کر تشکرآمیز اور اشک بار نظروں سے استاد کی طرف دیکھا۔استاد کا شفیق چہرہ اس کی یاد داشت اور دل کے آنگن میں محفوظ ہو گیا۔

وہ ایک ریال ہاتھ میں پکڑے دوڑتا ہوا مسئول کے پاس گیا اور فیس جمع کروا دی۔
وقت کی گھڑی کی ٹک ٹک میں ماہ و سال گزرتے رہے۔سلیمان نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد جدہ میں ایک چھوٹے سے کمرے کو بنک کام دے کر کام شروع کر دیا۔کچھ سالوں میں ہی سعودی عرب میں الراجحی کے نام سے بنکوں کا جال بچھ گیا اور سلیمان الراجحی سعودی عرب کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہونے لگے۔


سلیمان نے اپنی مصروف ترین زندگی میں ہر پل فلسطینی استاد کو یاد رکھا۔سلیمان الراجحی ستاد کو ملے تو وہ ریٹائر ہو چکے تھے۔ان کی کمر جھک چکی تھی، چہرے پر جھریوں کا جال تھا اور غربت و افلاس کی بدولت جسم و جان کا رابطہ رقائم رکھنا بھی محال تھا۔اپنے محسن کی حالت زار دیکھ کر سلیمان کا دل خون کے آنسو رویا۔انہوں نے استاد کو گاڑی میں بٹھایا اور کہا کہ میں آپ کا قرضدار ہوں۔

استاد نے کہا کہ مجھ مسکین کا کس پرقرض ہو سکتا ہے۔
سلیمان الراجحی نے استاد کو یاد ، دلایا کہ بچپن میں آپ نے میری ایک نا آسودہ خواہش کی تکمیل کے لیے ایک ریال انعام دیا تھا۔فلسطینی
 استاد مسکرایا اور کہا کہ تم مجھے وہ ریال لوٹانا چاہتے ہو۔سلیمان الراجحی انہیں ایک عالی شان بنگلے میں لے گئے جس کے گیراج میں ایک بیش قیمت گاڑی کھڑی تھی۔

سلیمان نے کہا کہ آج سے یہ بنگلہ اور گاڑی آپ کے لیے ہے۔مزید آپ کے روزمرہ کے اخراجات میرے ذمہ ہیں۔فلسطینی استاد کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اس نے کہا کہ یہ گاڑی اور بنگلہ تو ایک ریال سے بہت زیادہ ہیں ۔سلیمان الراجحی نے کہا کہ جب بچپن میں آپ نے مجھے ایک ریال دیا تھا تو مجھے اس سے بھی بڑھ کر خوشی ہوئی تھی۔
سلیمان الراجحی نے2010ء میں اپنے بچوں، بیگمات اور عزیز و اقارب کو بلا کر اپنی ساری جائیداد، ان میں تقسیم کر دی اور اپنے حصے کی جائیداد وقف کر دی۔

سلیمان الراجحی کے وقف کی مالیت 60 ارب ریال ہے۔سلیمان الراجحی نے کرونا وائرس کے لیے 170ملین ریال امداد دی اور مکہ مکرمہ میں اپنے دو ہوٹل وزارت صحت کو دیے۔
اللہ تعالیٰ ایسے محسن شناس اور سخی دل انسان کو ضائع نہیں کرتا اور اسے بے بہا رزق، عزت اوراطمیان قلب بخشتا ہے۔سلیمان الراجحی کی جائیداد کی کل مالیت تقریباً 6 ارب امریکی ڈالر ہے اور ان کے پولٹری کے بزنس، بنک اور الوطنیہ کمپنی کے ملازمین کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہے۔سلیمان الراجحی نے سعودی عرب کے ہر شہر میں د عوتی سنٹر اور خیراتی ادارے قائم کر رکھے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت میں کمر بستہ ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :