
کیا یہ انسانوں کی بستی ہے؟
بدھ 6 فروری 2019

محمد اکرم اعوان
سوچ عمل کی صورت میں عیاں ہوکررہتی ہے۔پھراسی سوچ کے تحت ہم سمجھتے ہیں، کہ ہم جوکچھ کررہے ہیں،وہ ہمارا حق ہے۔کون ہمیں دیکھ رہاہے ۔ہم یہ نہیں سوچتے کہ دُنیا میں کسی طرح ہمارے عمل کی خبرنہ ہو،دُ نیامیں اپنے جرم کی سزا سے بچ بھی جائیں،توبھی کون ساہمارا، اس دُنیامیں مستقل قیام ہے۔
(جاری ہے)
ہماری اجتماعی بداعمالیوں کے سبب آج معاشرہ مکمل طور پرتبا ہ وبرباد ہوچکا ہے اور ہم اخلاقی پستی کی آخری حدوں کوچھو رہے ہیں۔ہمارے اعمال معاشرے میں بگاڑاورعدم استحکام کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ہمارے دلوں کی سختی اور اخلاقی پستی کی حالت یہ ہے کہ آئے روز ظلم کی نئی داستان سننے کوملتی ہے ،تھوڑی دیر ہم لرزتے ہیں،پھرویسے کے ویسے ۔دوسرے دن پھرکوئی منحوس خبرسنتے ہیں اورپھروہی کیفیت ۔ہرطرف دُکھ ، مصیبتیں اورپریشانیاں ہیں۔ہرطرف آہ وبکااورکسی کی جان و مال، عزت وآبروتک محفوظ نہیں۔
جس معاشرے میں غرور،تکبر، نفرت، غصّہ، عدم توازن ،ناہمواری بڑھ جائے پھراُسے تباہ اوربربادہونے سے کوئی طاقت نہیں بچا سکتی۔ جس کسی نے بھی اللہ کے بندوں کے حقوق مارے، ستایا،تکلیف کا ذریعہء بنا، کسی قسم کی زیادتی کی یا نقصان پہنچایا، ناحق قتل کیا تو یہ ظلم ہے ۔ یہی وجہ ہے آج ہم اِطمینان ِ قلب اور سکون سے محروم ہیں۔بیماریاں،پریشانیاں اور مصیبتیں موجودہ حالات کی صورت میں ہماری بداعمالیوں کی سزا ہیں۔ارشادِ نبویﷺ کامفہوم ہے کہ جن میں ہمدردی کا جذبہ نہ ہو، ان پر کوئی رحمت نازل نہیں ہوتی۔
گئے گزرے وقت کی بات ہے، بھائی نے اپنے سگے بھائی کا قتل کردیا،جائیداد کا مسئلہ ہوگا،دولت کی تقسیم پراختلاف ہوگا،شایدسلطنت یا اقتداراوربادشاہت کاحصول اس کی وجہ ہو ۔نہیں ان میں سے کوئی وجہ بھی قتل کی نہیں تھی، سگے بھائی کے قتل کی وجہ تھی ، ایک درخت ، ہاں محض ایک درخت۔ایک نے کہایہ میرے حصے کی زمین پرہے، دوسرے نے کہانہیں یہ درخت میراہے،کیونکہ یہ میرے حصے کی زمین پرہے،بات اتنی بڑھی کہ بھائی نے طیش میں آکراپنے سگے بھائی کا قتل کردیا، یہ پرانی کہانی ہے، گئے گزرے وقتوں کی بات ہے۔جب جہالت کا دور دورہ تھا،علم اورشعورنہیں تھا، لوگ ترقی یافتہ نہیں تھے۔شہروں سے دورجنگل کی کسی ڈھوک،وسیب یاچندافرادپرمشتمل دیہات کی بات ہے۔ مگراب تو تعلیم عام ہے،ترقی اتنی کہ باپ کوپاپااورماں کوموموکہاجاتاہے۔ لیکن آئے روزنئے سے نئے مظالم کے واقعات رونما ہوئے رہے ہیں ۔ رحم اورترس نام کی کوئی چیزرہ ہی نہیں گئی۔غریب طبقہ پرتشدد،بچوں پرظلم،گھروں میں کام کرنے والی معصوم جانوں کو طرح طرح کی اذیت دینے کے واقعات، کہیں شہروں سے دور بہت دور ریگستان،صحرا، پہاڑوں، جنگلوں یا ان پڑھ،جاہل،انسانیت کے دُشمن آدم خوروحشی اور غیر مہذب قبائل کے نہیں،بلکہ اسلام آباد، لاہور ، شیخوپورہ ،میانوالی،ایبٹ آباد،کراچی اورپاکستان بھرکے بڑے شہروں کی اشرافیہ،پڑھے لکھے، وکیل،جج،اُستاد،ڈاکٹر،سیاستدان،قانون نافذکرنے والے اداروں کے ملازمین اوراپنے آپ کومہذب کہلانے والے طبقہ کی درندگی، وحشت، بربریت اورمظالم کی داستان ہیں۔
گھریلوملازمہ عظمیٰ کوجس ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا گیا ،یہ سن کرانسانیت شرما جائے۔ عظمیٰ غریب گھرکی بیٹی تھی ،شایداسی لئے ذرا بھی ڈریا خوف نہ آیا۔فرض کریں، اونچی ذات کی پلیٹ سے نوالہ کے علاوہ بھی عظمیٰ کاکوئی اورسنگین جرم تھا،پھربھی مسلسل اذیت،تشددکرنے کاحق کس نے دیاتھا،یہ اندر کاتکبراور سوچ ہی تھی کہ ہمارا کوئی کیا بگاڑلے گا۔اتنی بے رحمی اورظلم روا رکھا،اس اذیت سے بھی دل کی سختی کم نہ ہوئی،نہ ترس آیابلکہ مزیدبے رحمی سے قتل کردیا،پھرلاش کوگندے نالے میں پھینک دیا ۔اپناجرم چھپانے کے لئے اُلٹاچوری کامقدمہ درج کروا دیا۔
اس انسانیت سوزواقعہ سے ہمارے اس بے حس معاشرہ میں کیاہوگا،کچھ بھی نہیں ہوگا،ہم کچھ دن افسوس کریں گے، مذمت کریں گے، کسی نئے واقعہ ،نئے حادثہ،نئے ظلم کا انتظار کریں گے،پھرکوئی کم ذات پلیٹ سے ایک نوالہ کھانے،کام میں سستی کرنے یاگھرکاقیمتی برتن توڑنے،چائے،پانی دینے میں تاخیر یاکسی بھی معمولی غلطی پرقتل کردیا جائے گا۔
کیا یہ انسانوں کی بستی ہے؟نہیں ہرگزنہیں،بلکہ اپنے معاملوں میں بے رحم ہوجانے والے بدمست جانوروں، درندوں کا مسکن ہے۔ پورے کاپورا سماج غرور،تکبر، بے رحمی کی انتہاکی وجہ سے ظلم وجبر،تشددپراُترچکا ہے۔دراصل ہمارا معاشرہ درندگی اور حیوانیت کی حدوں سے بھی گرچکا ہے۔جہاں معصوم بھانجے کواس لئے جینے کے حق سے محروم کردیا جاتاہے کہ وہ میرے بیٹے سے زیادہ خوبصورت کیوں ہے،اسلام آباد میں قانون کی طالبہ سے وکیل کی مبینہ جنسی درندگی، میو ہسپتال لاہورمیں بیمار بچے کو لے کرآنے والی ماں سے درندگی،حویلیاں میں 3سالہ فریال سے درندگی وقتل، شیخوپورہ کے علاقہ ستار شاہ میں درندگی،جہاں4سالہ نورین کوقتل کرکے نعش گندے نالے میں پھینک دی گئی اورکراچی میں اڑھائی سالہ معصوم ننھی پری کوماں کے ہاتھوں سمندربردکرنے جیسے بیہمانہ واقعات کا تسلسل اس بات کی دلیل ہے کہ تعلیم وترقی بھی کچھ نہیں بدل سکی، ہمارا معاشرہ بے راہ روی،غرور،تکبراور ذہنی طورپربیمارمعاشرہ بن چکاہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد اکرم اعوان کے کالمز
-
آوارہ کتے شہریوں کے لئے وبال جان !
منگل 28 جنوری 2020
-
کہیں پرندے بھوکے نہ رہ جائیں!
جمعرات 23 جنوری 2020
-
وحشی معاشرہ!
بدھ 15 جنوری 2020
-
بادشاہ رعیت سے ہی تاجدارہوتا ہے!
بدھ 8 جنوری 2020
-
اے عقل تم ہمیشہ دیرسے کیوں آتی ہو !
بدھ 1 جنوری 2020
-
ہمارا مسئلہ کیا ہے !
جمعرات 26 دسمبر 2019
-
حکمران اورعوام
جمعرات 12 دسمبر 2019
-
ہمارے تعلیمی مسائل اورسرکاری و نجی تعلیمی ادارے
جمعرات 5 دسمبر 2019
محمد اکرم اعوان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.