اصل مسئلہ کیا ہے ؟

بدھ 12 دسمبر 2018

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

انسانی تاریخ میں بارہ ہزارسال قبل مسیح دنیا کی کل آبادی ایک کروڑ نفوس پر مشتمل تھی۔ 1650میں یہ آبادی ساڑھے چون کروڑ ہو گئی۔ 1850میں یہ آبادی ایک ارب سترہ کروڑ دس لاکھ تھی اور 1950 میں یہ آبادی دو ارب پچاس کروڑ تک جا پہنچی تھی۔ آج انسانی آبادی نے سات ارب کا ہندسہ عبور کر لیا ہے اور پاپولیشن ریفرنس بیورو کی رپورٹ کے مطابق2050 تک دنیا کی یہ آبادی دس ارب ہوجائے گی ،جبکہ اگلی صدی تک یہ تعداد سو لہ ارب تک پہنچ جائے گی۔

اگر ہم صرف برصغیر کی آبادی کو دیکھیں تو1872میں برصغیر کی آبادی بیس کروڑ ساٹھ لاکھ تھی۔1931 میں یہ آبادی بڑھ کر اکتیس کروڑ اکیاسی لاکھ ہوئی اور1941 میں یہ آبادی اڑتیس کروڑ نوے لاکھ ہوگئی تھی۔قیام پاکستان کے وقت صرف مغربی پاکستان کی کل آبادی تین کروڑ بیس لاکھ تھی جو اس وقت بڑھ کر تقریبا اکیس کروڑ ہو چکی ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن چکا ہے ۔

پاکستان میں آبادی میں اضافے کی شرح دواعشاریہ چار فیصد ہے جو بھارت ،سری لنکا، ملائشیا اور بنگلہ دیش سے زیادہ ہے۔ اس وقت ملک میں 44فیصد بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ آبادی کا پانچواں حصہ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے جبکہ تعلیمی سہولیات کے فقدان کے باعث 46فیصد سے زائد آبادی نا خواندہ ہے۔ ناخواندگی اور تہذیب و شعور نہ ہونے کی وجہ سے مہنگائی، بے روزگاری، تعلیمی مسائل، صحت کی ناکافی سہولیات، غذائی قلت،توانائی کا بحران، کرپشن اور غربت جیسے مسائل نے جنم لیا ہے۔

سٹریٹ کرائمز، چوری، ڈکیتی، اغو اور قتل و غارت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔دہشت گردی، شدت پسندی ، طلاق اورخود کشیوں کی بڑھتی ہوئی شرح بھی جہالت ، ناخواندگی اور علم وآگہی نہ ہونے کے مضمرات میں سے ہے۔کثرت آبادی کے مسئلہ کو سماجی علوم خصوصامعاشیات اورسماجیات کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ اس موضوع پر سب سے پہلے تھامس مالتھس نے 1978میں ایک مضمون لکھا جو بعد میں علم آبادیات کی بنیاد بنا۔

مالتھس کا کہنا تھا کہ انسانی آبادی میں اضافہ جیو میٹریکل (Geometrical)اندازمیں ہوتاہے جیسے 2۔4۔8۔16 جبکہ اسکے بالمقابل غذائی اجناس کی پیداوار ارتھمیٹکل (Arithmetical) انداز میں ہوتی ہے جیسے 1۔2۔3۔4۔5۔مالتھس کے مطابق انسانی آبادی ہر 25 سال میں دوگنا ہوجاتی ہے جبکہ زرعی پیدوار میں اس شرح سے اضافہ نہیں ہوتا۔یعنی کسی ملک کی آبادی 2000ء میں اگر ایک کروڑ تھی تو وہ 2025ء میں دو کروڑ ہوجائے گی جبکہ پیداوار میں اضافہ ایک کروڑ کی بجائے پچاس لاکھ ہوگا۔


کچھ دنوں سے پاکستان میں آبادی کے حوالے سے زور و شور سے بحث جاری ہے ، میرا اضطراب مگر یہ ہے اصل بات کی طرف توجہ نہیں دی جا رہی ، ساری بحث کو غیر ضروری باتوں میں الجھا دیا گیا ، حکومتی سطح پر اکثر معاملات میں ابہام تو خیر معمول کی بات ہے مگر اہل علم اور مذہبی طبقے کی طرف سے بھی سنجیدہ رویے کا مظاہرہ نہیں کیا گیا ۔ میرے خیال میں اصل مسئلہ آبادی میں اضافے یا کمی کا نہیں بلکہ علم ، تہذیب ، شعور اور آگہی کا ہے ۔

آپ ﷺ کی جن احادیث سے کثرت اولاد پر استدلال کیا جاتا ہے ان کی بھی درست تفہیم نہیں کی جاتی ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہر معاملے میں اعتدال کا درس دینے والی ذات اولاد کے معاملے میں بے اعتدالی کا سبق دے ۔ ذیل میں ہم دونوں پہلووٴں کا مختصرا جائزہ لیتے ہیں ۔ پاکستان ایسے ممالک میں سرفہرست ہے جہاں آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ جن ممالک میں آبادی بے ہنگم طریقے سے بڑھتی ہے وہاں سوچ ، علم اورآگہی کے دروازے بند ہو جاتے ہیں،تہذیب و شعور وفات پا جاتے ہیں اور تنگ نظری اور گھٹن کا ماحول جنم لیتاہے۔

صحت و تعلیم کی سہولتیں عنقا ہو جاتی ہیں۔ انصاف، بنیادی حقوق، روزگار اور تفریح کے مواقع خواب بن جاتے ہیں اور ریاستی وسائل چند ہاتھوں میں مرتکز ہو جاتے ہیں۔ دنیا کے جن ممالک میں آبادی 2.4 فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی ہے ان میں وطن عزیز کے علاوہ افغانستان، ایتھوپیا، موزمبیق، نائجیریا، لائبیریا، انگولا، کانگو، چاڈ، بنین، برکینا فاسو، عراق، مالی اور گنی بساؤ جیسے ممالک شامل ہیں۔

ان ممالک میں امن و امان کی صورتحال، بنیادی سہولتوں، انصاف، فی کس آمدنی، غربت کی شرح، نظم و ضبط، عام آدمی کی عزت نفس اور جہالت و جذباتیت جیسی بلاؤں کا راج ہے۔ہماری شرح خواندگی جنوبی ایشیا میں سب سے کم یعنی 57 فیصد ہے۔ یہاں پچیس فیصدلوگ ذہنی مریض ہیں۔ انصاف کے لیے یہاں نسلیں رْلتی ہیں اور سکول جانے کی عمر کے بچوں کی نصف تعداد یعنی اڑھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔

یہ بچے سکولوں سے باہرکیا کرتے ہیں، یہ ناخواندہ اور نیم خواندہ شہری کس کام آتے ہیں، ان بے روزگاروں کا کیا شغل ہے، خط غربت سے نیچے رینگنے اور انصاف کے لیے رْلنے والوں کی مصروفیات کیا ہیں، یہ پچیس فیصد ذہنی مریض کس مشن پر ہیں ؟یہ سب سوالات ہماری بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے سوالیہ نشان ہیں۔آپ ایک گھر کی مثال لیجئے، اگرکسی مزدور کے دو تین یا چاربچے ہوں گے تو اسے بہت عزیز ہوں گے، وہ ان پربھرپور توجہ دے گا اور بساط بھر تعلیم دلا کر انہیں معاشرے میں باعزت مقام دلانے کی سعی کرے گا۔

اور اگر اس مزدور کے دس بچے ہوں گے تو اس کی محدود آمدنی کسی کو بھی ا چھی تعلیم و تربیت فراہم نہیں کر سکے گی۔
 اگرآبادی کو خواندگی اور علم و تہذیب کے دائرے میں لایا جائے تو یہ قدرت کا عظیم تحفہ ثابت ہوسکتی ہے ۔کچھ عرصہ قبل جب چین کی آبادی پچاس کروڑ تھی تو یہ ساری دنیا کا محتاج تھا جبکہ آج اس کی آبادی ایک سو بیس کروڑ ہے تو وہ ساری دنیا سے با وقار قوم ہے ،کیوں ؟کیونکہ اس نے آبادی کو علم اور تہذیب سے مسلح کر دیاہے۔

اس کے بر عکس اگر ہم افریقہ کی آبادی کو کم کر کے ایک لاکھ کر دیں اور ان کے نظریات اور روایات جوں کی توں رہنے دیں اور انہیں علم اور تہذیب کے زیور سے آشنا نہ کریں تو اس تھوڑی سی آبادی کے وسائل بھی جوں کے توں ہی رہیں گے۔ مسائل حل کرنے کے لئے ضرورت آبادی گھٹانے کی نہیں بلکہ نظریات ، ثقافتی روایات ،علم ، تہذیب اور شعور و آگہی کو پروان چڑھانے کی ہے۔

لوگوں کو ثقافتی پسماندگی کی دلدل سے نکالنے اور انسانی وسائل کو سائنسی مصرف میں لانے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لئے زیادہ محنت درکار ہوتی ہے اور محنت کا انحصار آبادی کی مقدار پر ہوتا ہے۔انسانی محنت ذیادہ ہوگی تومشینی ترقی بھی بڑھے گی۔آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک جس جگہ پر کھڑے ہیں اس کے پیچھے پسماندہ دنیا کی محنت ہے جسے استعمال میں لا کر مشینی ترقی میں اضافہ کیاگیاہے۔

یہ محنت ہی ہے جو مشینوں کی صورت میں مادی روپ دھار لیتی ہے اور جس سے مشینوں کے زریعے پیداوار میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ محنت ہی ٹیکنالوجی کو بنیادیں فراہم کرتی ہے۔ آج دنیا نے ٹیکنالوجی میں جتنی ترقی کی ہے اگر دنیا کی آبادی نصف کر دیں تو ترقی بھی نصف رہ جائے گی کیونکہ جب صارفین ختم ہو جائیں گے تو تجارتی آمدنی ختم ہو جائے، تجارتی آمدنی ختم ہو گی تو ٹیکنالوجی کی تحقیق کے لئے فنڈز ختم ہو جائیں گے،فنڈز نہیں ہوں گے تو ٹیکنالوجی کا ارتقا ختم ہو جائے گا۔

انسانی تاریخ کے آغاز میں آٹھ مربع میل کا رقبہ تھا جسے انسان شکار کے لئے استعمال کرتا تھا ،یہ بہت تھوڑے انسانوں کی کفالت کر سکتا تھا لیکن جب انسان نے آبادی کے فروغ سے مجبور ہو کر زراعت کی نئی تکنیکس دریافت کر لیں تو وہی آٹھ مربع میل کا رقبہ سینکڑوں گنا زیادہ آبادی کے لئے کفیل ہو گیا۔ پھر زرعی ٹیکنالوجی نے زیادہ آبادی پیدا کی تو زیادہ آبادی نے صنعتی ٹیکنالوجی کو پیدا کر کے مزید آبادی کی گنجائش پیدا کردی۔

یہ ارتقا کا بنیادی قانون ہے کہ آبادی، وسائل اور ٹیکنالوجی ایک توازن سے دوسرے توازن اور دوسرے سے تیسرے کی طرف بڑھتے ہیں۔ جب کوئلہ ختم ہو ا تو تیل آ گیا، تیل کم ہوا تو ایٹمی توانائی آ گئی، ایٹمی توانائی میں کمی آئی تو شمسی توانائی آ گئی۔ جب کپڑے کے لئے روئی کم ہو ئی تو کپڑا بنانے کے لئے مصنوئی دھاگا آ گیا، جب خالص گھی کم ہوا تو مصنوعی گھی آ گیا۔

آج انسانی غذا کے کتنی اجزا ء کاربوہائڈریٹس، وٹامنز، روغنیات اور پروٹین وغیرہ مصنوعی طور پر تیار ہو رہے ہیں۔ آج جنیٹک انجینئرنگ نے اناج اور گوشت کے ذخیروں میں کتنے گنا اضافہ کر دیاہے۔ ڈیری فارمنگ، ماہی پروری اور مرغ بانی کی صنعتیں کتنی ترقی کر چکی ہیں۔ یہ سب علم، تہذیب اور ٹیکنالوجی کے کمالات ہیں اور خود ٹیکنالوجی انسانی آبادی میں اضافے کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے ۔ یہ اصل مسئلے کے دونوں رخ ہیں، المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اصل مسئلے کی بجائے بات کو غلط رنگ دے کر اپنی مرضی کے نتائج اخذ کیئے جاتے ہیں اور پھرا نہیں قبول کرنے پر جارحانہ رویہ اپنایا جاتا ہے جو کسی طور قابل قبول نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :