
مدرسہ ڈسکورس ان قطر! قسط نمبر 2
منگل 22 جنوری 2019

محمد عرفان ندیم
(جاری ہے)
مذکورہ بالا جتنے بھی سوالات اس ورکشاپ میں ڈسکس ہوئے اور جتنی بھی پریزنٹیشنز دی گئی ان کا بنیادی مقصد ان مسائل پر آذادانہ غور و فکر اور دور جدید کے تقاضوں کے مطابق ان کا حل پیش کرنا تھا ۔ مدرسہ ڈسکورس کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ کلاسیکی اسلامی علمی روایت کے احیاء کی کوشش کی جائے ۔ ایک اہم بات جو میں نے ورکشاپ میں بھی عرض کی تھی کہ کورس کے بعض شرکاء اور عمومی طور پر سوسائٹی میں بھی یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ ہمارے دینی ادارے اور علماء دور جدید کے ان سوالات کو رسپانڈکیوں نہیں کر رہے اور اس اعتراض کو بنیاد بنا کر بعض اوقات مدارس اور علماء کے بارے میں غیر مناسب اور ناشائستہ رویہ اپنایا جا تا ہے ، تو میں نے عرض کیا تھا کہ ہر کام کو مدارس اور علماء کے کھاتے میں ڈال دینا مناسب نہیں ۔ مدارس اور علماء کا دائرہ کار محدود اور وسائل بہت کم ہیں اور اتنے محدود وسائل کے ساتھ اپنا وجود برقرار رکھنا اور معاشرے کو دینی راہنمائی فراہم کرتے رہنا ہی بڑی بات ہے ۔ نظریہ ارتقاء اور اس جیسے دیگر سائنسی و فکری مسائل پر غور و فکر اور ریسرچ کے لیے وقت اور سرمایہ دونوں درکار ہیں ۔بذات خود مغرب میں اگران سوالات پر ریسرچ ہو رہی ہے تو یہ کام کلیسا یا کوئی مذہبی ادارہ نہیں کر رہا بلکہ وہاں کی یونیورسٹیوں میں ہو رہے ہیں اس لیے کچھ کام ہماری یونیورسٹیوں کو بھی کرنا چاہئے اور ہمارے عصری تعلیمی اداروں اور ماہرین تعلیم و تحقیق کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئے ۔ خود اسلامی علمی روایت جب اپنے عروج پر تھی تب یہ کام کسی مذہبی ادارے میں نہیں بلکہ عام تعلیمی اداروں میں ہوا تھا۔ ایک اور اہم بات کہ اپنی علمی روایت کے احیاء کے لیے ایسے افراد ناگزیر ہیں جو پختہ ذہن کے حامل ، اپنی علمی روایت کا گہرا ادارک ، بڑوں پر کامل اعتماد ، وسیع مطالعہ اور تنقیدی نقطہ نظر کے حامل ہوں ۔ ایسے لوگ جن کا ذہن ناپختہ ، مطالعہ محدود ، تنقیدی ذہن سے عاری ، ہر کس و ناکس سے متاثر اور ہر علمی و فکری مسئلے پرفورا ایمان لانے والے ہوں ان سے علمی روایت کے احیاء کی امید نہیں لگائی جا سکتی اورایسے لوگ بجائے فائدے کے الٹا نقصان کا باعث بنتے ہیں ۔ ایسے لوگ ادھر کے رہتے ہیں نہ ادھر کے اور کم از کم ایسے لوگوں سے کسی بہتری کی امیدنہیں کی جا سکتی ۔ علمی روایت کا احیاء بڑا اہم کام ہے کہ اس میں مختلف ذہن کھپانے پڑتے ہیں اور ہر ذہن اپنی استعداد کے مطابق غور فکر اور تحقیق و جستجو کرتا اور کسی نتیجہ فکر تک پہنچتا ہے ۔یہ تحقیق و جستجو اور نتائج غلط بھی ہو سکتے ہیں لہذا صحیح نتائج کے ساتھ بعضوں کے گمراہ ہونے کا خدشہ بھی بدستور موجود رہتا ہے ۔ اس لیے اس کام کے لیے ایسے افراد کا چناوٴ ناگزیرہے جو غیر معمولی صلاحیت کے حامل اورکامل درجے کا تنقیدی شعور رکھتے ہوں بصورت دیگر بجائے فائدے کے الٹا نقصان کا خدشہ ہے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد عرفان ندیم کے کالمز
-
ہم سب ذمہ دار ہیں !
منگل 15 فروری 2022
-
بیسویں صدی کی سو عظیم شخصیات !
منگل 8 فروری 2022
-
میٹا ورس: ایک نئے عہد کی شروعات
پیر 31 جنوری 2022
-
اکیس اور بائیس !
منگل 4 جنوری 2022
-
یہ سب پاگل ہیں !
منگل 28 دسمبر 2021
-
یہ کیا ہے؟
منگل 21 دسمبر 2021
-
انسانی عقل و شعور
منگل 16 نومبر 2021
-
غیر مسلموں سے سماجی تعلقات !
منگل 26 اکتوبر 2021
محمد عرفان ندیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.