بلال خان کے بعد !!

منگل 25 جون 2019

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

علم ، خواہ وہ علم وحی ہو یا جدید سائنسی علم، قوموں اور تہذیبوں کے عروج وزوال میں اس کا کردار بنیادی رہاہے ۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات یا کوئی دقیق علمی نکتہ نہیں کہ جس کی تفہیم کے لیے بہت ذیادہ محنت و ریاضت کی ضرورت ہے بلکہ یہ قضیہ تو تخلیق آدم کے ساتھ ہی حل کر دیا گیا تھا۔آج بھی اگر کو ئی فر د یا قوم یہ مقام حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے اسی اصل کی طرف رجوع کرنا ہو گا۔

جدید سائنسی علم اس لیے کہ اپنی انتہاء اور آخری نتیجے کے طور پر یہ انسان کو کسی صانع اور قادر مطلق پر ایمان لانے پر مجبو ر کر دیتا ہے ۔
پچھلی دو صدیوں میں جدید علم ایک نئی شکل میں مجسم ہو کر سامنے آیا ہے اور سائنسی علم کی اس جدید شکل کا نام ٹیکنالوجی ہے ۔ اب سائنس و ٹیکنالوجی لازم و ملزموہیں، بیسیوں صدی میں دنیا کی عظیم سلطنتوں نے علم پر ذیادہ سے ذیادہ سرمایہ کاری کی کہ تاکہ اس کے بدلے میں ٹیکنالوجی کی قوت ان کے ہاتھ میں آ سکے۔

(جاری ہے)

جنگ عظیم اول و دوم میں سائنسدانوں کو بہت ذیادہ فنڈز سے نوازا گیا صرف اس لیے کہ وہ نئی اور تباہ کن وار ٹیکنالوجی دریافت کر سکیں۔ جرمنوں نے آخری لمحے تک ہتھیار نہیں ڈالے کہ انہیں اپنے سائنسدانوں پر ضرورت سے ذیادہ اعتماد تھا، وہ اس خوش فہمی میں مبتلا رہے کہ ان کے سائنسدان ایسی نئی ٹیکنالوجی دریافت کریں گے کہ اتحادیوں کے پرخچے اڑ جائیں گے ، تاریخ البتہ ہٹلر کی خود کشی کی داستان سناتی ہے۔

آج بھی دنیا کے کئی ممالک میں حکومتیں توانائی کے لیے اربوں ڈالر خرچ کررہی ہیں ، یہی توانائی عوامی استعمال میں لائی جاتی ہے اور اس سے حاصل شدہ معاوضہ دوبارہ حکومتوں کی جیب میں چلا جاتا ہے ۔حکومت جہاں دس لگا تی ہے وہی دس پچاس بن کر دوبارہ حکومت کی جیب میں چلا جاتا ہے ، اسے کہتے ہیں گڈ گورننس۔
اکیسویں صدی اور ٹیکنالوجی کے سلاب نے اہل دعوت کا کام بہت آسان کر دیا ہے۔

اہل دعوت، خواہ وہ خیر کے داعی ہوں یا شر کے ان کے لیے دعوت کے امکانات بہت آسان بڑی حد تک وسیع ہو چکے ہیں، یہ امکانات مقامی اور عالمی سطح پر یکساں موجود ہیں ۔اہل شر کی دعوت کا عالم یہ ہے کہ آج دنیا میں سوائے ان جنگلی باشندوں کے جو افریقہ اور امریکہ کے جنگلات میں بسیرا کرتے ہیں دنیا کے ہر گھر میں ان کا پیغام پہنچ رہا ہے ۔ڈراما اور فلم انڈسٹری ، میڈیا، انٹرٹینمنٹ ،سوشل میڈیا اور فکری ونظریاتی پروگرامز یہ اہل شر کی دعوت کے میدان اور ذرائع ہیں ،اس ہمہ جہت یلغار سے کوئی بچ کر تودکھائے ، اگر یہی صورتحال رہی تو دنیا عنقریب اہل شر کے سامنے سرنڈر کر دے گی ۔

اس کے بر عکس اہل خیر کی صورتحال پریشان کن ہے ،یہ بیک وقت مختلف مسائل کا شکار ہیں، یہ خود کو اس دعوتی مشن کے لیے تیار ہی نہیں کر پائے اور یہ اکسیویں صدی اور جدید سائنسی ٹیکنالوجی سے استفادہ نہیں کر سکے ،یہ وہ ذہن ہی تیار نہیں کر پائے جو ان کی بات کو سنے ۔
موجودہ عصر انٹرنیٹ اورسوشل میڈیا کا دور ہے ،آپ خیر یا شر کا کوئی پیغام اپلوڈ کر دیں دنیا کے کروڑوں اربوں انسانوں تک یہ پیغام پہنچ جائے گا ۔

گویا انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا موجودہ عصر میں دعوت کے دو بنیادی ستون ہیں ۔ ان دونوں ذرائع نے دنیا کو ایک گاوٴں میں تبدیل کر دیا ہے ۔ اب اہل شر اور اہل خیر پر منحصر ہے کہ وہ دعوت کے ان امکانات سے کس حد تک فائدہ اٹھاتے اور اپنا پیغام آگے پہنچاتے ہیں ۔پچھلے دنوں مشہور سوشل میڈیا ایکٹویسٹ بلال خان کو شہید کر دیا گیا ، بلا ل خان سوشل میڈیا کے میدان میں خیر کی اسی دعوت کو عام کر رہا تھا وہ الگ بات ہے کہ اس کے لب و لہجے میں کبھی کبھار سختی درآتی تھی ۔

بلال خان کو اللہ نے بہت ساری صلاحیتوں سے نوازا تھا ،وہ بہترین لکھاری اور اچھا سپیکرتھا۔کسی بھی ایشو پر بروقت رد عمل اس کی خوبی تھی۔ اپنی حد تک اپنے حصے کا چراغ جلاتا رہا ۔ختم نبوت کا معاملہ ہو یا دفاع صحابہ کا ، عالمی سطح پر مسلمانوں کی زبوں حالی کی بات ہو یا داخلی سطح پر دینی قوتوں کو درپیش مسائل وہ ہر ایشو پر سب سے آگے کھڑا نظر آیا۔


 موجودہ دور میں اپنے موٴقف کی دعوت ،ابلاغ اور اس کی تشہیر کے وسیع مواقع موجود ہیں شرط مگر یہ ہے کہ آپ اپنے موٴقف کو تحمل وشائستگی اور دلیل و تہذیب کے ساتھ پیش کرنے کے اہل ہوں۔اس وقت دین اور اہل دین کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ کس طرح اپنے موٴقف کو دلیل و تہذیب کے ساتھ اگلے بندے کے دماغ میں اتارا جائے۔ دو ٹوک موٴقف اور غیر مناسب الفاظ اور رویے کی وجہ سے درست موٴقف بھی اپنی اہمیت و افادیت کھو دیتا ہے۔

دین کی تبلیغ او ر ترویج واشاعت ہمیشہ حکمت عملی کی متقاضی رہی ہے ،جو بھی کام حکمت عملی کے بغیر کیا جائے وہ کبھی درست نتائج تک نہیں پہنچاتا۔ موجودہ عصر میں حکمت عملی ،ریاست اور ریاستی اداروں کی ترجیحات کو سمجھنا، مخالفین کی ذہنی و نفسیاتی گرہوں کو مدنظر رکھ کر اپنے پروگرام کو آگے بڑھانا بہت ضروری ہے۔ اگر آپ ان تمام پہلووٴں کو نظر انداز کر کے محض جذبات کی بنیاد پرکوئی کام کرنا چاہتے ہیں تو کبھی درست نتائج حاصل نہیں کر سکتے۔

آپ کی سوچ ، نیت اور موٴقف درست سہی مگر آپ مذکورہ پہلووٴں کو نظر انداز کر کے کامیابی نہیں حاصل کر سکتے۔
 اللہ بلال خان کی لغزشوں کو معاف فرمائیں اور اس کے درجات بلند فرمائیں ، سوائے اس کے لہجے کی درشتی ،سخت الفاظ اور بڑوں پر غیر مناسب نقد کے وہ ہر اعتبار سے نوجوانوں کے لیے قابل مثال تھا۔آج دین کے ہر طالب علم کو سوشل میڈیا ایکٹویسٹ بننے کی ضرورت ہے ، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ اپنی بات کودلیل ، تہذیب اور شائستگی کے ساتھ پیش کریں۔

آج دعوتی عمل کی کامیابی اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ آپ اپنے نظریات اور پروگرام کودلیل ، تہذیب،مصلحت اور حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھائیں۔ایک اہم بات یہ کہ خود پر انحصار کی بجائے بڑوں پر اعتماد کیا جائے اور ان سے راہنمائی کا طلب گار رہا جائے ۔ بڑوں کے بارے میں ہمیشہ حسن ظن رکھا جائے اور اگر کبھی نقد کرنا بھی ہو تو الفاظ کا چناوٴ سوچ سمجھ کر کیا جائے۔


دنیا ایک گاوٴں بن چکی ہے اور اہل خیر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس گاوٴں کے ہر فر د تک اپنا پیغام پہنچائیں،اس سے بھی پہلے وہ ذہن تیار کریں جو ان کی بات کو سنے،دستیاب دعوتی ذرائع سے فائدہ اٹھائیں اور دعوتی امکانات کو بروئے کار لاکر خیر کے پیغام کو عام کریں ۔ بلال خان شہید ہو گیا لیکن وہ یہ سبق چھوڑ گیا کہ آج دین کے ہر طالب علم کو سوشل میڈیا ایکٹویسٹ بننے کی ضرورت ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :