
بلال خان کے بعد !!
منگل 25 جون 2019

محمد عرفان ندیم
پچھلی دو صدیوں میں جدید علم ایک نئی شکل میں مجسم ہو کر سامنے آیا ہے اور سائنسی علم کی اس جدید شکل کا نام ٹیکنالوجی ہے ۔ اب سائنس و ٹیکنالوجی لازم و ملزموہیں، بیسیوں صدی میں دنیا کی عظیم سلطنتوں نے علم پر ذیادہ سے ذیادہ سرمایہ کاری کی کہ تاکہ اس کے بدلے میں ٹیکنالوجی کی قوت ان کے ہاتھ میں آ سکے۔
(جاری ہے)
اکیسویں صدی اور ٹیکنالوجی کے سلاب نے اہل دعوت کا کام بہت آسان کر دیا ہے۔اہل دعوت، خواہ وہ خیر کے داعی ہوں یا شر کے ان کے لیے دعوت کے امکانات بہت آسان بڑی حد تک وسیع ہو چکے ہیں، یہ امکانات مقامی اور عالمی سطح پر یکساں موجود ہیں ۔اہل شر کی دعوت کا عالم یہ ہے کہ آج دنیا میں سوائے ان جنگلی باشندوں کے جو افریقہ اور امریکہ کے جنگلات میں بسیرا کرتے ہیں دنیا کے ہر گھر میں ان کا پیغام پہنچ رہا ہے ۔ڈراما اور فلم انڈسٹری ، میڈیا، انٹرٹینمنٹ ،سوشل میڈیا اور فکری ونظریاتی پروگرامز یہ اہل شر کی دعوت کے میدان اور ذرائع ہیں ،اس ہمہ جہت یلغار سے کوئی بچ کر تودکھائے ، اگر یہی صورتحال رہی تو دنیا عنقریب اہل شر کے سامنے سرنڈر کر دے گی ۔اس کے بر عکس اہل خیر کی صورتحال پریشان کن ہے ،یہ بیک وقت مختلف مسائل کا شکار ہیں، یہ خود کو اس دعوتی مشن کے لیے تیار ہی نہیں کر پائے اور یہ اکسیویں صدی اور جدید سائنسی ٹیکنالوجی سے استفادہ نہیں کر سکے ،یہ وہ ذہن ہی تیار نہیں کر پائے جو ان کی بات کو سنے ۔
موجودہ عصر انٹرنیٹ اورسوشل میڈیا کا دور ہے ،آپ خیر یا شر کا کوئی پیغام اپلوڈ کر دیں دنیا کے کروڑوں اربوں انسانوں تک یہ پیغام پہنچ جائے گا ۔گویا انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا موجودہ عصر میں دعوت کے دو بنیادی ستون ہیں ۔ ان دونوں ذرائع نے دنیا کو ایک گاوٴں میں تبدیل کر دیا ہے ۔ اب اہل شر اور اہل خیر پر منحصر ہے کہ وہ دعوت کے ان امکانات سے کس حد تک فائدہ اٹھاتے اور اپنا پیغام آگے پہنچاتے ہیں ۔پچھلے دنوں مشہور سوشل میڈیا ایکٹویسٹ بلال خان کو شہید کر دیا گیا ، بلا ل خان سوشل میڈیا کے میدان میں خیر کی اسی دعوت کو عام کر رہا تھا وہ الگ بات ہے کہ اس کے لب و لہجے میں کبھی کبھار سختی درآتی تھی ۔ بلال خان کو اللہ نے بہت ساری صلاحیتوں سے نوازا تھا ،وہ بہترین لکھاری اور اچھا سپیکرتھا۔کسی بھی ایشو پر بروقت رد عمل اس کی خوبی تھی۔ اپنی حد تک اپنے حصے کا چراغ جلاتا رہا ۔ختم نبوت کا معاملہ ہو یا دفاع صحابہ کا ، عالمی سطح پر مسلمانوں کی زبوں حالی کی بات ہو یا داخلی سطح پر دینی قوتوں کو درپیش مسائل وہ ہر ایشو پر سب سے آگے کھڑا نظر آیا۔
موجودہ دور میں اپنے موٴقف کی دعوت ،ابلاغ اور اس کی تشہیر کے وسیع مواقع موجود ہیں شرط مگر یہ ہے کہ آپ اپنے موٴقف کو تحمل وشائستگی اور دلیل و تہذیب کے ساتھ پیش کرنے کے اہل ہوں۔اس وقت دین اور اہل دین کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ کس طرح اپنے موٴقف کو دلیل و تہذیب کے ساتھ اگلے بندے کے دماغ میں اتارا جائے۔ دو ٹوک موٴقف اور غیر مناسب الفاظ اور رویے کی وجہ سے درست موٴقف بھی اپنی اہمیت و افادیت کھو دیتا ہے۔ دین کی تبلیغ او ر ترویج واشاعت ہمیشہ حکمت عملی کی متقاضی رہی ہے ،جو بھی کام حکمت عملی کے بغیر کیا جائے وہ کبھی درست نتائج تک نہیں پہنچاتا۔ موجودہ عصر میں حکمت عملی ،ریاست اور ریاستی اداروں کی ترجیحات کو سمجھنا، مخالفین کی ذہنی و نفسیاتی گرہوں کو مدنظر رکھ کر اپنے پروگرام کو آگے بڑھانا بہت ضروری ہے۔ اگر آپ ان تمام پہلووٴں کو نظر انداز کر کے محض جذبات کی بنیاد پرکوئی کام کرنا چاہتے ہیں تو کبھی درست نتائج حاصل نہیں کر سکتے۔آپ کی سوچ ، نیت اور موٴقف درست سہی مگر آپ مذکورہ پہلووٴں کو نظر انداز کر کے کامیابی نہیں حاصل کر سکتے۔
اللہ بلال خان کی لغزشوں کو معاف فرمائیں اور اس کے درجات بلند فرمائیں ، سوائے اس کے لہجے کی درشتی ،سخت الفاظ اور بڑوں پر غیر مناسب نقد کے وہ ہر اعتبار سے نوجوانوں کے لیے قابل مثال تھا۔آج دین کے ہر طالب علم کو سوشل میڈیا ایکٹویسٹ بننے کی ضرورت ہے ، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ اپنی بات کودلیل ، تہذیب اور شائستگی کے ساتھ پیش کریں۔آج دعوتی عمل کی کامیابی اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ آپ اپنے نظریات اور پروگرام کودلیل ، تہذیب،مصلحت اور حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھائیں۔ایک اہم بات یہ کہ خود پر انحصار کی بجائے بڑوں پر اعتماد کیا جائے اور ان سے راہنمائی کا طلب گار رہا جائے ۔ بڑوں کے بارے میں ہمیشہ حسن ظن رکھا جائے اور اگر کبھی نقد کرنا بھی ہو تو الفاظ کا چناوٴ سوچ سمجھ کر کیا جائے۔
دنیا ایک گاوٴں بن چکی ہے اور اہل خیر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس گاوٴں کے ہر فر د تک اپنا پیغام پہنچائیں،اس سے بھی پہلے وہ ذہن تیار کریں جو ان کی بات کو سنے،دستیاب دعوتی ذرائع سے فائدہ اٹھائیں اور دعوتی امکانات کو بروئے کار لاکر خیر کے پیغام کو عام کریں ۔ بلال خان شہید ہو گیا لیکن وہ یہ سبق چھوڑ گیا کہ آج دین کے ہر طالب علم کو سوشل میڈیا ایکٹویسٹ بننے کی ضرورت ہے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد عرفان ندیم کے کالمز
-
ہم سب ذمہ دار ہیں !
منگل 15 فروری 2022
-
بیسویں صدی کی سو عظیم شخصیات !
منگل 8 فروری 2022
-
میٹا ورس: ایک نئے عہد کی شروعات
پیر 31 جنوری 2022
-
اکیس اور بائیس !
منگل 4 جنوری 2022
-
یہ سب پاگل ہیں !
منگل 28 دسمبر 2021
-
یہ کیا ہے؟
منگل 21 دسمبر 2021
-
انسانی عقل و شعور
منگل 16 نومبر 2021
-
غیر مسلموں سے سماجی تعلقات !
منگل 26 اکتوبر 2021
محمد عرفان ندیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.