مدرسہ ڈسکورس متوازن بیانیہ !

بدھ 24 جولائی 2019

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

 ”مدرسہ ڈسکورس“ کافی دنوں سے زیر بحث ہے، کچھ دن قبل برادرم آصف محمود نے اپنے کالم میں اس پر نقدکیا ، ڈاکٹر مشتاق اور ڈاکٹر زاہد صدیق مغل سمیت ، مختلف اطراف سے بھی نقد کا سلسلہ جاری رہا ۔ سوشل میڈیا پر بھی کچھ دن سے مدرسہ ڈسکورس ہی چھایا ہوا ہے، سرحد پار سے بھی تنقیدی مضامین نظر سے گزرے ۔ یہ تنقیدات پڑھ کر اندازہ ہو ا کہ درست اور معقول تنقید کسی طرف سے سامنے نہیں آئی ۔

کہیں معلومات کا فقدان ہے اور کہیں چیزوں کو درست تناظر میں نہیں دیکھا جا رہا ، جذبات اور ثواب کی نیت سے ہوا میں تیر چلائے جا رہے ہیں جن سے یہ امید کی جا رہی ہے کہ یاجوج ماجوج کی طرح یہ آسمان سے خون آلود ہو کر آئیں گے اور ہم اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جائیں گے ۔اس سارے رویے سے جو نتیجہ اخذ ہوتا ہے وہ پریشان کن ہے کہ روایتی فکر کس قدر سطحیت کا شکار ہے ، اصل مسائل کو سمجھنے کی بجائے رد عمل کی نفسیات سے یہی کچھ صادر ہوتا ۔

(جاری ہے)

اس ساری صورتحال کو دیکھنے کے بعد یہ احساس مزید بڑھ گیا کہ اجتماعی مسائل میں روایتی فکر درست تناظر کو سمجھنے اور اس کے مطابق حکمت عملی اپنانے میں کس قدر غلط فہمی کا شکار ہے ، سطحیت اور جذباتیت صرف یہی کچھ بچا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اصل مسائل کی نشاندہی اور ان کے حل کا سرا ہاتھ نہیں آ رہا ۔ میرا رویہ بھی شاید یہی ہوتا اگر میں اس ڈسکورس کا حصہ نہ ہوتا ۔

اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مدرسہ ڈسکورس میں کوئی چیز قابل اعتراض نہیں ، یقینا اس ڈسکورس کے بہت سے پہلو قابل اعتراض ہیں جن پر نقد ہونا چاہئے ۔چونکہ میں اس ڈسکورس کا حصہ اور چیزوں کا عینی شاہد ہوں اس لیے کو شش کروں گا کہ دونوں اطراف سے اصل نقد سامنے لا سکوں ۔ لیکن اس سے پہلے کچھ تمہیدی باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں ۔
جب کوئی قوم یا تہذیب دور زوال سے گزر رہی ہو تو اجنبی تہذیبوں کے بارے میں اس کی حساسیت ضرورت سے ذیا دہ بڑھ جاتی ہے ۔

عام حالات میں جوچیزیں بالکل مباح اور افادیت کی حامل ہوتی ہیں دور زوال میں وہ بھی مشکوک دکھائی دینے لگتی ہیں ۔ اسلامی تہذیب اس معاملے میں کچھ ذیادہ ہی محتاط نظر آتی ہے کہ اس کی اپنی بنیادیں اور کڑے معیارات ہیں۔مغربی تہذیب اس اصول سے البتہ مستثنیٰ ہے کہ اس کا پہلا اور آخری اصول سرمایہ اور سرمایہ داری ہے ۔ماضی میں اپنے دور عروج میں اسلامی تہذیب یونانی افکار اوریونانی فکر و فلسفہ سے کچھ ذیادہ مرعوب نہیں ہوئی، بڑے بڑے مفکر اور فلاسفہ یونانی علوم کی تحصیل میں مگن رہے مگر کسی کا ایمان خطرے میں نہیں پڑا ، کسی کو اپنی ذات کے بارے میں صفائیاں نہیں دینی پڑیں کہ اس وقت یہ سب معمول کی بات تھی اور کسی کے ”گمراہ “ ہونے کا خطرہ ہرگز نہیں تھا ۔

ہرغالب تہذیب کی اپنی نفسیات اور حرکیات ہوتی ہیں، پچھلے پندرہ سو سال میں جو تہذیب بھی غالب رہی اپنے دور کی معلوم دنیا پر کا اثر نافذ رہا ،اسلامی تہذیب کے دور عروج میں دنیا کا شاید ہی کو ئی خطہ ہو جہاں بالواسطہ یا بلا واسطہ اس کے اثرات نہ پہنچے ہوں ۔ یہ اثرات سیاسی و عسکری اور تہذیبی و ثقافتی ہر سطح پر نمودار ہوئے ، قرون اولیٰ میں آپ کو یورپ کے اکثر خطوں میں عربی زبان اور عربی تہذیب و ثقافت کے آثار مل جائیں گے ، صرف ایک اندلس کی وجہ سے پورا یورپ اسلامی تہذیب کے اثرات کو قبول کرنے پر مجبور تھا ، اب تو باقاعدہ ریسرچ ہو چکی کہ لاطینی ، فرانسیسی، جرمن اور خود انگریزی زبان پر عربی کے اثرات موجود ہیں ، پوری پوری اصطلاحات عربی سے من و عن لاطینی ، فرانسیسی اور انگریزی میں منتقل ہوئیں ۔

قطع نظر اس کے کہ تہذیبی برتری کے یہ اثرات صحیح ہیں یا غلط بالفعل ایسا ہو تا رہا اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا، یہ تاریخ کا جبر ہے جس کا اطلاق بلا استثناء ہر تہذیب پر ہوا ۔
برتر تہذیب کا سب سے ذیادہ اثر علم اور زبان کے دائرے میں ہوتا ہے ، یہ ممکن نہیں کہ آپ غالب تہذیب کے علمی مراکز سے استفادہ کیئے بغیر اپنا شعوری وجود برقرار رکھ پائیں ، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت انسان کی موجودہ ترقی کسی ایک تہذیب کی مرہون منت نہیں بلکہ ہر تہذیب ماقبل تہذیب سے استفادہ کرتی اور اس میں اپنا حصہ ڈال کر اسے آگے منتقل کر دیتی ہے ۔

اسلامی تہذیب نے رو می اور یونانی تہذیبوں سے استفادہ کیااوراس میں اپنا حصہ ڈال کر اسے آگے بڑھا دیا ، مغربی تہذیب نے آگے بڑھ کر اس تہذیبی ورثے کو تھامااور اسے موجودہ شکل تک پہنچا دیا ۔ اس لیے عقل سلیم کا تقاضا ہے کہ موجودہ انسانی ترقی کا سارا کریڈٹ صرف مغربی تہذیب کو دینے کی بجائے پوری نسل انسانی کو دیا جائے کہ یہی بات قرین قیاس اور اقرب الی الصواب ہے ۔


اسلامی تہذیب کے دور عروج میں جو مدارس اور تعلیمی ادارے وجود میں آئے ان میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کو بڑے بڑے وظائف سے نوازا جاتا تھا ، فری تعلیم کے ساتھ رہن سہن اور ذاتی ضروریات کے لیے مالی مدد بھی فراہم کی جاتی تھی ۔ یہ سہولیات اور وظائف صرف مقامی اور مسلم طلباء کے لیے مخصوص نہیں تھے بلکہ اس کا اطلاق ان غیر مسلم اور بیرونی طلباء پر بھی ہوتا تھا جو یورپ کے دیگر عیسائی ممالک سے حصول علم کے لیے بغداد ، قرطبہ اور اشبیلیہ کا رخ کرتے تھے ۔

تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے جانتے ہیں کہ اندلس کی اسلامی حکومت میں کئی اہم عہدوں پر غیر مسلم تعینات رہے اور انہیں انتہائی اہم عہدوں پر فائز کیا گیا ۔ یہ وہی طلباء ہو اکرتے تھے جو اسلامی مدارس میں تعلیم حاصل کر کے وہیں عملی زندگی کا آغاز کر دیتے تھے ۔ غالب تہذیب کی اپنی نفسیات اور حرکیات ہوتی ہیں کہ یہ ہر دور میں دنیا کا ذہین ترین دماغ اپنے ہاں اکٹھا کر لیتی ہے ، اگر آج برطانیہ کی پارلیمنٹ میں مسلم ارکان موجود ہیں اور لند ن کا میئر صادق خان ہے تو باعث حیرت نہیں کہ یہ تاریخ کا جبر اور برتر تہذیبی نفسیات کا اثر ہے ۔

گزشتہ کچھ صدیوں سے مغربی تہذیب کا ستارہ گردش میں ہے تو تاریخ کے جبر کا بہاوٴ امریکہ اور یورپ کی طرف ہے ، دنیا کی بہترین یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے امریکہ اور یورپ میں ہیں ،ساری دنیااس تہذیب کے پیش کردہ تصورات کو اپنانے پر مجبور ہے ، جمہوریت اور سرمایہ داری اس کی ایک مثال ہے ۔ انگریزی زبان میں مہارت کے بغیر کسی کی علمیت مسلم نہیں کہ یہ زبان نئے علوم کا منبع اور بنیادی مصدر ہے ، غالب تہذیب کے علمی مراکز سے استفادہ اس کے بغیر ممکن نہیں اور اس استفادے کے بغیر انفرادی اور اجتماعی شعور ی وجود کا برقرار رہنا محال ہے ۔

یہ علم او ر زبان کے دائرے میں برتر تہذیبی اثرات کے چند مظاہر ہیں ۔ تاریخ کا یہ جبر تہذیبی و ثقافتی سطح پر بھی اثر انداز ہوتا ہے جس کے مظاہر جابجا بکھرے پڑے ہیں ۔
غالب تہذیب اپنے وقت کے علمی مراکز کا گڑھ ہوتی ہے اور ان علمی مراکزسے استفادے کے لیے اس کی باہیں بلا رنگ و نسل ہر علم کے متلاشی کے لیے کھلی رہتی ہیں ، صرف یہی نہیں بلکہ ان متلاشیان علم کے لیے وسائل اور وظائف مہیا کرنا بھی اس کے ذمے ہوا کرتا ہے ۔

میں ماضی کی اسلامی تہذیب کا حوالہ دے چکا کہ کس طرح غیر مسلم عیسائی اور یہودی طلباء کو اندلس کی درسگاہوں میں رسائی حاصل تھی اور انہیں بڑے وظائف سے نوازا جاتا تھا ۔ اس پس منظر کو پیش نظر رکھ کر دیکھیں تو آج مغربی یونیورسٹیوں میں اسکالرشپ پر تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کے پیچھے کسی کو کوئی سازش نظر نہیں آئے گی کہ یہ تاریخ کا جبر ہے جو ہر دور میں جاری رہا اور آئندہ بھی جاری و ساری رہے گا ۔ علم او ر تعلیمی سرگرمیوں پر سرمایہ خرچ کرنا غالب تہذیب کی نفسیات میں سے ہے اس لیے بغیر کسی واضح ثبوت اور دلیل کے ان سرگرمیوں کے پیچھے سازشیں تلاشنا ایک انتہا پسندانہ ذہنیت ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :