میرے پاس کچھ بھی نہیں!

پیر 3 فروری 2020

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

آپ دنیا کا کوئی بھی علم ، فن یا روایت اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو اس فن ، علم یا روایت کی بنیادیں یونانی تہذیب سے ملیں گی ، ایسا کیوں ہے ، یونانی تہذیب سے پہلے بھی دنیا قائم تھی اوراس وقت دنیا کی نامور تہذیبیں موجود تھیں، مثلا مصری تہذیب نے جو اہرام تعمیر کیے دنیا آج تک اس پر انگشت بدنداں ہے، ہڑپہ اور موہنجو داڑوکی تہذیب نے رہن سہن ، شہروں کی منصوبہ بندی اور نکاسی آب کا جو سسٹم دیادنیا آج تک ایسا سسٹم نہیں لا سکی، سمیری اور میسو پوٹیمین تہذیب کی اپنی خصوصیات تھیں مگر سوال یہ ہے کہ ان تہذیبوں کے علوم ، فنون اورروایات ہم تک کیوں نہیں پہنچیں اور ہماراعلمی سلسلہ نسب یونانی تہذیب پر جا کر کیوں رک جاتا ہے ، یہ بلین ڈالر کا سوال ہے مگر اس وقت یہ سوال ہمارا موضوع نہیں۔

(جاری ہے)

دیگر علوم و فنون کی طرح ڈرامے کی روایت کا آغاز بھی یونانی تہذیب سے ہوا، یونانی تہذیب سے قبل زمانہ قدیم میں لوگ رقص و سرو د کی محفلیں منعقد کرتے تھے مگراس طرح باقاعدہ ڈرامے کی روایت موجود نہیں تھی، یونانی تہذیب کا مشہورڈراما نگار تھیس پس تھا جس نے پہلا اسٹیج ڈرامہ لکھا۔ یونانی تہذیب کے بعد یہ روایت رومی تہذیب کے حصے میں آگئی۔ ایشیا میں چینی اور ہندوستانی تہذیب میں بھی ڈرامے کی روایت آگے بڑھتی رہی ، بعد میں ہندوستا ن مسلمانوں کے زیر اقتدار میں آیا تو ڈرامے کی صنف کی طرف وہ توجہ نہیں دی گئی ، اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ اس سے قبل عربی اور فارسی میں ڈرامے کی کوئی روایت موجود نہیں تھی۔

ہندوستان میں واجد علی شاہ پہلا حکمران تھا جس نے ڈرامے کی طرف توجہ دی اور اردو کا سب سے پہلا ڈراما لکھا ، اس ڈرامے کا نام” رادھا کنہیا “ تھا،یہ ڈرامہ واجد علی شاہ کی ولی عہدی میں 1843میں ”قیصر باغ“ میں پیش کیاگیا۔واجد علی شاہ کے بعد 1853ء میں سید آغا حسن امانت نے”اندر سبھا“کے نام سے مشہور ڈرامہ لکھا جو اردو کا سب سے مقبو ل ڈرامہ ٹھہرا۔

پاکستان میں ٹیلی ویڑن کا آغاز 26نومبر 1964ء کو لاہور اسٹیشن سے ہوا،پاکستان نے اکتوبر 1964ء میں جاپان کی ایک فرم نپن الیکٹرک کمپنی کے تعاون سے 26 نومبر 1964کو لاہور اور25 دسمبر 1964 کو ڈھاکہ میں ٹیلی ویڑن اسٹیشن قائم کیے، ان دنوں پی ٹی وی کا دفترریڈیو پاکستان کے احاطے میں ایک چھوٹے سے کمرے میں ہوا کرتا تھا، اس اسٹیشن کا افتتاح صدر ایوب نے کیااور پہلی اناؤنسمنٹ طارق عزیز نے کی۔

یہ دونوں اسٹیشن شروع میں روزانہ تین گھنٹے کی نشریات کا اہتمام کرتے تھے اور ہفتے میں ایک دن ٹی وی نشریات نہیں ہوتی تھیں۔ پی ٹی وی پر نشر ہونے والا پہلاڈرامہ ”نذرانہ“ تھا جس میں محمد قوی خان، کنول نصیر اور منور توفیق نے اداکاری کی، اس کا سکرپٹ نجمہ فاروقی نے لکھا اور اسے ڈائریکٹ فضل کمال نے کیا۔پی ٹی وی کی پہلی باقاعدہ ڈراما سیریل ”ٹاہلی تھلے“تھی جس کا اسکرپٹ اشفاق احمد مرحوم نے لکھا، 1976میں ٹیلی ویژن رنگین ہو اتو پہلا رنگین ڈراما”پھول والوں کی سیر“ پیش کیا گیا جس کا سکرپٹ بھی اشفاق احمد نے لکھاتھا۔

اسی اور نوے کی دہائی پاکستانی ڈرامے کے عروج کا زمانہ تھا ، اس میں سماجی مسائل کو ڈرامے کا موضوع بناکر بڑے شاہکار ڈرامے تخلیق کیے گئے اور بھارت جیسا ملک بھی ہماری ڈرامہ انڈسٹری کی تعریف کرنے پر مجبور ہو گیا ۔ اکسیویں صد ی کے آغاز میں پرائیویٹ چینلزکی شروعات ہوئیں تو علم ، فن ، تہذیب اور اقدار کی جگہ کمرشل ازم نے لے لی ، چینلز کے پیٹ بھرنے اور ریٹنگ کے چکر میں سب کچھ داوٴپر لگا دیا گیا ، سماجی ایشوز تو رہے ایک طرف شرم و حیا اور تہذیب اور اقدار کا جنازہ نکال دیا گیا ۔

اکسیویں صدی کی پہلی اور دوسری دہائی میں جو ڈرامے بنائے گئے ان کا موضوع صرف ایک تھا،مرد اور عورت کا معاشقہ خواہ یہ کسی بھی عنوان سے ہو۔ کہانی اور کردار جو بھی ہوں مگر اس میں جب تک مرد و عورت کے معاشقے کا تڑکا نہ لگے تو کوئی ڈرامہ مکمل نہیں ہوتا۔ ”میرے پاس تم ہو “ کی کہانی بھی اسی طرح کے کرداروں کے گرد گھومتی ہے فرق صرف یہ ہے کہ اس میں مرد کی بجائے عورت کو بے وفا دکھایا گیا ہے ۔

آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ خلیل الرحمان قمر نے آج سے تئیس سال قبل بھی اسی طرح کی ایک کہانی فلم قرض کے لیے لکھی تھی جو بری طرح فلاپ ہوئی تھی ۔ ڈرامے کا نام انڈین فلم ”دیوار “ کے ڈائیلاگ سے لیا گیا ہے ، اس فلم کا ایک ڈائیلاگ تھاکہ پہلا کردار کہتا ہے میرے پاس بینک بیلنس ہے ، بنگلہ ہے گاڑی ہے تمہارے پاس کیا ہے تو دوسرا کردار کہتا ہے میرے پاس ماں ہے ، بس یہاں رشتے کی نوعیت بدل دی گئی ہے ۔

خلیل الرحمن قمر کا ہی ایک ڈرامہ ”ذرا یاد کر “ جو ہم ٹی وی کے لیے لکھا گیا تھااس کی کہانی بھی موجودہ ڈرامہ سے ہو بہو ملتی ہے ، اس میں بھی شوہر کو باوفا اور بیوی کو بے وفا دکھایا گیا تھا، بیوی بے وفائی کرتے ہوئے شوہر کو چھوڑ دیتی ہے مگر کچھ ہی عرصے بعد احساس ہوتا تو دوبارہ اس کے پاس آنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ۔
فلم اور ڈرامہ ہمارے سماج پر کس طرح اثرا نداز ہورہے ہیں اس کا اندازہ آپ ”میرے پاس تم ہو “ ڈرامے سے لگا سکتے ہیں ، پاکستان اور انڈیا سمیت دنیا بھر میں موجود اردو دان طبقے میں شایدہی کوئی ایسا ہو جس نے یہ ڈرامہ دیکھا یا اس کے بارے میں سنا نہ ہو ۔

صرف ایک فلم یا ڈرامہ آپ کے پورے سماج کوبدل کر رکھ دیتاہے۔سماج میں ڈرامے یا فلم کو انٹر ٹینمنٹ کا ذریعہ تصور کیا جاتا ہے اور اصولی طور پر ڈرامے کی وضع بھی تفریح کے لیے ہوئی تھی ، مگر اکسیویں صدی میں جس طرح دیگر اقدار اپنی اصلیت کھو چکی ہیں ڈرامہ بھی اپنے حدودا ربعہ سے بہت دور نکل چکا ہے ، اب یہ تفریح طبع کی بجائے تخریب سماج کا کام ذیادہ کر رہا ہے ، جب ڈراموں میں سماجی مسائل کو موضوع بنانے کی بجائے اسے معاشقوں کی داستان بنا یاجائے گا تو ہمیں نوجوان نسل سے شکوہ نہیں کر نا چاہئے۔

جب کچے ذہنوں کو اس طرح کی واہیات خوشنما بنا کر پیش کی جائیں گی تو نتائج کے لیے بھی تیار رہنا چاہئے۔جب گھروں میں بیٹھی کروڑوں خواتین کہ جن کی تفریح کا واحد ذریعہ ٹی وی اور ڈرامہ ہے انہیں یہ سب ”مثبت“ بنا کر دکھایا جائے گا تو سماجی او ر خاندانی مسائل ضرور جنم لیں گے۔ مجھے متعدد باریہ تجربہ ہوا کہ یونیورسٹی سطح تک کے باشعور اسٹوڈنٹ فلم یا ڈرامے کی کہانی پر افسردہ نظر آئے، میں نے لاکھ سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ سب فرضی اور بناوٹی ہے مگر کوئی سمجھنے کو تیار نہیں ہوتا۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ ٹی وی پرکچھ دیکھیں اور اس کے اثرات قبول نہ کریں، آپ ان ڈراموں کے اثرات دیکھنے کے لیے فیملی کورٹس کا ڈیٹا دیکھ لیں، آپ کو نظر آئے گا لو میرج اور طلاق کی شرح زمین سے آسمان پر چلی گئی ہے ۔ اور اگر آپ اپنے ضلعے کے دار الامان کا وزٹ کر لیں تو آپ سر پکڑ لیں گے کہ اتنی ذیادہ تعداد میں لڑکیاں گھروں سے بھا گ کر یا لو میرج کے چکر میں ناکامی کے بعد دار الامان کا رخ کرتی ہیں ۔

یہ سب کیوں ہو رہا ہے اس کی وجہ ہماری فلم اور ڈرامہ انڈسٹری ہے ۔ایک طرف داخلی سطح پر ہمارے ڈرامے یہ سب کچھ کر رہے ہیں اور رہی سہی کسر انڈین فلم انڈسٹری نے پوری کر دی ہے ، پہلے صرف انڈیا کی اردو فلمیں آتی تھیں اب انڈیا کی پنجابی فلموں نے بھی دھماچوکڑی مچا رکھی ہے ۔ آپ پنجاب کے کسی بھی حصے میں چلے جائیں آپ کو بچے بچے کی زبان پر انڈین پنجابی فلموں کے ڈائیلاگ اور گانے سنائی دیں گے۔آج ملک کے ہر چھوٹے بڑے کی زبان پر ایک ہی ڈائیلاگ ہے کہ میرے پاس تم ہومگر میں جب مذہب، سماج، خاندان ، تہذیب ،اقدار اور روایات کو دیکھتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :