وبا اور تعلیمی ادارے!

اتوار 7 جون 2020

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

وبا کا پھیلاوٴ عروج پر ہے اور عوام کی بے احتیاطی بھی ۔مریضوں کی تعداد تخمینوں سے کہیں زیادہ ثابت ہو رہی ہے ، اصل تعداد اس سے بھی کہیں زائد ہے کہ مطلوبہ تعداد میں ٹیسٹ نہیں ہو رہے،اگرصحیح تشخیص ہو تو نتائج ہو ش رباہوں گے ۔ ادھربعض صوبوں میں ہسپتالوں میں جگہ کم پڑ چکی ہے ، مریضوں کے تعداد بڑھ رہی ہے اور سہولیات ندارد ۔ اگر یہ صورت حال برقرار رہی تو فیصلہ مشکل ہو جائے گا کہ کس مریض کو جگہ دی جائے اورکس کو نہیں ،اس کی دوسری تعبیر یہ ہے کہ جانتے بوجھتے اپنے پیاروں کو موت کی گود میں دے دیا جائے ، اللہ ہمیں اس وقت سے اپنی پنا ہ میں رکھے ۔


عوام کی بے احتیاطی اور غیر سنجیدگی کی وجوہات متعدد ہیں ، لازم ہے کہ ان وجوہات کا ازالہ کیا جائے ۔ہم ایک اوسط درجے کے سماج کے کا حصہ ہیں اور ایسا سماج بآسانی یرغمال بنایا جا سکتا ہے ۔

(جاری ہے)

ہم ایسے معاشروں میں جھوٹ ، دھوکہ،سازش اور سطحیت بآسانی بک جاتی ہیں ۔ اس سماج کی سادگی کا عالم تو یہ ہے کہ پچھلے ستر سال سے ڈیماگاگ قیادت کے ہاتھوں یرغمال ہوتے آر ہے ہیں مجال ہے کہ عوام کی مستقل مزاجی میں کوئی فرق آیا ہو ۔

کرونا وباکے معاملہ میں بھی یہی ہو رہا ہے ، کسی کے نزدیک یہ سازش ہے اور کوئی اس کے وجود سے ہی منکر ۔ نتائج البتہ اپنا آپ دکھا رہے ہیں ، مریضوں کی تعداد چین سے بھی بڑھ چکی ہے ، ایسے نازک موقعہ پر ارباب علم و دانش کی ذمہ داری ہے کہ وہ سماج کی درست سمت راہنمائی کریں ۔
انسانی حیات کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو متاثر نہ ہوا ہو ۔صحت اور تعلیم اس میں سر فہرست ہیں ، دنیا بھر کے تعلیمی ادارے بند ہیں ، ترقی یافتہ ممالک نے اس کا حل آن لائن کلاسز کی صورت میں نکال لیا مگر ترقی پذیر ممالک میں یہ کلی طورپر ممکن نہیں ۔

ہمارے ہاں بھی بعض یونیورسٹیوں اور پرائیویٹ اسکول و کالجز نے آن لائن کلاسز شروع کر رکھی ہیں مگر من حیث المجموع ایسا ممکن نہیں ۔ سرکاری سکول و کالجز اور دور دراز دگاوٴں دیہات میں رہنے والے طلبہ کے لیے بوجوہ آن لائن کلاسز اٹینڈ کرنا محال ہے ، کہیں ٹیکنالوجی دستیاب نہیں اور کہیں اس کے استعمال کا طریقہ مفقود ہے ۔ پنجاب حکومت نے ایک ایپ اور ایک کیبل چینل لانچ کیا تھا مگر نتائج نہ ہونے کے برابر ہیں کہ اوسط درجہ اور کم خواندہ سماج سے یہی توقع کی جا سکتی ہے ۔


ایک اہم قضیہ دینی مدارس کے طلباء کا ہے ،عصری تعلیمی اداروں کی طرح دینی مدارس کے سالانہ امتحان بھی نہیں ہو سکے ، عصری اداروں میں طلباء کی پروموشن کا فیصلہ ہو چکا مگردینی مدارس کا فیصلہ ابھی باقی ہے ، گمان یہی ہے کہ یہاں بھی سابقہ نتائج کی بنیاد پر طلباء کوپروموٹ کر دیا جائے گا ۔امتحانات کا مسئلہ تو حل ہو جائے گا مگر فی الوقت مسئلہ یہ درپیش ہے کہ مدارس کا نیا تعلیمی سال شوال میں شروع ہوتا ہے ، آج شوال کا تقریبا نصف ماہ گزر چکا، ارباب مدارس تذبذب کا شکا رہیں کہ کیا کیا جائے ، ابھی تک کی صورت حال یہ ہے کہ وفاق کے منتظمین نے داخلوں کا مرحلہ آن لائن مکمل کرنے کی ہدایت کی ، یہ مرحلہ شوال کے آخر تک مکمل ہو جائے گا ، اس کے بعد کیا فیصلہ ہوگا اس کا تعین زمینی حقائق کی بنیاد پر کیا جائے گا ۔


میرا خیال ہے کہ اس ضمن میں محطاط ہونے کی ضرورت ہے ، جس طرح ہندوستان میں کرونا کو مسلمانوں کے ساتھ جوڑکر ان کو مطعون کیا گیا یہ خدشات یہاں بھی موجود ہیں ، اگر کسی ایک مدرسے میں بھی کوئی کیس سامنے آگیا تو میڈیا کی زبانیں لمبی ہو جائیں گی ، لبرل طبقات تو رہتے ہی انتظار میں ہیں کہ کب انہیں موقعہ ملے اور وہ تنقید کے نشتر چلائیں ۔ شروع میں تبلیغی جماعت کے حوالے سے ہم یہ رویہ دیکھ چکے ہیں ،اس پر مستزاد کہ بات متعلقہ فرد یا ادارے تک محدود نہیں رہتی بلکہ ان کی آڑ میں ڈائریکٹ مذہب کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔

والدین کے بھی تحفظات ہوں گے ، اس لیے مدارس کھولنے کا فیصلہ گہری بصیرت اور حکمت عملی کا متقاضی ہے ۔اگر فی الفور مدارس نہیں کھل پاتے تو اس کا زیادہ سے زیادہ نقصان یہ ہو گا کہ ذی القعدہ کا مہینہ پڑھائی نہیں ہوگی ،مدارس میں عموما شوال کے آخر میں کلاسز کا آغاز ہوتا ہے اور ذی الحج کے شروع میں عید کی چھٹیاں ہو جاتی ہیں ۔ ایک مہینے کے نصاب کو باقی نو مہینوں میں سمیٹنا چندا ں مشکل نہیں اس سے اگر مذہب اور انسانیت دونوں کا بھلا ہو جائے گا۔


ارباب مدارس کے حالیہ اقدامات کے حوالے سے سوشل میڈیا پربھی بحث جاری ہے، اصل مسئلے پر فوکس کی بجائے ذاتی تعصبات کا اظہار زیادہ ہے ۔مدارس ابھی کھلے ہیں نہ یہ فیصلہ ہوا ہے کہ کب کھلیں گے ، صرف آن لائن داخلوں کے لیے ہدایات جاری کی گئی ہیں ، اسی کو بنیاد بنا کر طنز جاری ہے۔گزشتہ کچھ عرصے سے مدارس پر تنقید گویا ایک فیشن بن چکا ہے۔دیگر تنقید نگاروں کے ساتھ اس میں مدارس کے فضلاء بھی شامل ہیں، میرا گما ن ہے کہ وہ حسن ظن کے ساتھ تنقید کررہے ہوں گے مگر مسئلہ یہ ہے کہ محض ادھر ادھر کی باتیں سن کر اور میڈیا کے عامیانہ تبصروں سے متاثر ہو کر اپنی تنقیدی ” آراء“فیس بک پر انڈیل دینا کسی طور درست نہیں ۔


ہرچھوٹی بڑی بات کو بنیاد بنا کر ارباب مدارس اوربعد ازاں مذہب پر تنقید کا یہ رجحان بہت افسوس ناک ہے، اس کا کم سے کم نتیجہ بڑوں پر عدم اعتماد اور مذہب بیزاری کی صورت میں نکلتا ہے۔کسی پر تنقید حسن ظن اور اس پر اعتماد رکھتے ہوئے بھی کی جا سکتی ہے بلکہ وہی تنقید اور اختلاف رائے محمود ہے جو کسی پر اعتماد رکھتے ہوئے کیا جائے۔ورنہ تو نری ضدی، تعلی اور انا کی تسکین رہ جاتی ہے۔

میں جس رویے کی طرف اشارہ کر رہاہوں اس میں تنقید اس زعم کے ساتھ کی جاتی ہے کہ جس بات کو میں سمجھ رہاہوں وہ ان کو نہیں معلوم، میں جس نتیجے پر پہنچ گیا ہوں ان بیچاروں کو کیا پتا۔ یہ رویہ اور سوچ قابل گرفت بھی ہے اور راہ اعتدال سے ہٹی ہوئی بھی۔ تنقید نگا ر کے رویے میں داعیانہ سپرٹ ہونی چاہئے کہ میں جس چیز یا تصور کو اچھا سمجھ رہا ہوں وہ دوسروں کو بھی اچھی لگنے لگے، محض کیڑے نکالنااور دوسروں کو نیچا دکھانا یہ تو کوئی بھی کرسکتا ہے۔


وبا عروج پر ہے اور رویوں کی غیر سنجیدگی بھی ، انتظامی سطح پر نااہلی کا روگ الگ ہے ، عوام کے بے احتیاطی اس پر متزاد۔مریضوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور ہسپتالوں میں جگہ کم ،طبی سہولیات اور ڈاکٹرز کا فقدان ہے،صوبائی اور وفاقی انتظامیہ کے باہمی جھگڑے ختم نہیں ہو رہے۔ ایسی صورت حال میں صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے مگر بقول خورشید ندیم نوابزادہ نصراللہ خان کہہ گئے تھے :
کب اشک بہانے سے کٹی ہے شب ہجراں
کب کوئی بلا صرف دعاوٴں سے ٹلی ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :