میں ان وسعتوں کا کیا کروں !!

اتوار 13 ستمبر 2020

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

ملا نور اللہ شوستری اکبری عہد کے درباری عالم تھے ، اصل تعلق ایران سے تھا، مشہد میں حالات خراب ہوئے تو ہجرت کر کے ہندوستان آگئے ، ہندوستا ن سولہویں صدی کا پر امن ترین ملک اور دنیا کا ترقی یافتہ خطہ تھا ، ہمایوں وفات پا چکا تھا اور اکبر نے زمام اقتدار سنبھال لی تھی۔سلطنت بہت وسیع تھی اور اکبر ابھی نوعمر اور ناتجربہ کا ر تھا ، چناچہ اس نے اس کا حل یہ نکالا کہ اپنے گرد اہل ترین افراد کو جمع کرنا شروع کر دیا ، ان میں ایک نام حکیم فتح اللہ شیرازی کا تھا ، فتح اللہ شیرازی مسلکا شیعہ تھے، انہوں نے دربار میں جگہ بنائی اور اپنے ہم مسلک افراد کو اکٹھا کرنا شروع کر دیا، ملا نو ر اللہ شوستری کو بھی دربار میں آنے کی دعوت دی ، اکبر ملا نور اللہ کی ذہانت اور قابلیت سے متاثر ہوا اور اسے اپنے حلقے میں شامل کر لیا۔

(جاری ہے)

فتح پور سیکری، اکبر آباداور کشمیر میں خدمات سر انجام دیں اور آخر میں اکبر نے لاہور کے قاضی القضاةمعین لاہوری کو معزول کر کے ملا نور اللہ کو قاضی القضاة مقرر کر دیا۔ایک طرف ملا نور اللہ شوستری اور دوسری طرف ملا محمد یزدی حاوی نے اکبر کے افکار و نظریات پر اثر انداز ہونا شروع کر دیا، رہی سہی کسر ابو الفضل فیضی نے پوری کر دی اور یوں اکبر ایک نیا دین ”دین الہٰی“ کے نام سے ایجاد کرنے پر مجبور ہو گیا۔

1605 میں اکبر کا انتقال ہوا اور نورالدین جہانگیر تخت نشین ہوا، ملا نو راللہ شوستری نے جہانگیر پر بھی اثر انداز ہونے کی کوشش کی مگر دوسری طرف مجدد الف ثانی کی مساعی بھی بار آور ہو رہی تھیں، ملا نور اللہ شوستری نے ایک کتاب بعنوان ” مجالس المومنین“ لکھی جس میں مختلف عنوانات پر خامہ فرسائی کی ،ا س میں حضرت عمررضی اللہ عنہ کے بارے میں نازیبا کلمات بھی شامل تھے ، جہانگیر کو علم ہوا تو دربار میں مقدمہ چلا ، جرم ثابت ہو گیا اور ملانور اللہ کو سزائے موت سنا دی گئی۔

جہانگیر جب مسند خلافت پر بیٹھتا تھا تو اس کے ساتھ پردے کے پیچھے نور جہاں بیٹھی ہوتی تھی ، جہانگیر کے پاوں کے انگوٹھے کے ساتھ ایک ڈوری بندھی ہوتی تھی جس کا دوسرا سرا نور جہاں کے ہاتھ میں ہوتا تھا ، نور جہاں کو اگر کسی فیصلے پر اعترا ض ہوتا تو ڈوری ہلا کر جہانگیر کو متوجہ کرتی تھی۔ ملا نور اللہ کا مقدمہ چلا تو جرم ثابت ہونے پر جہانگیر نے اسے موت کی سزا سنا دی، نور جہاں بھی مسلکا شیعہ تھی اس لیے اسے ملا نور اللہ کی سزا قابل قبول نہیں تھی ، اس نے ڈوری ہلا کر جہانگیر کو متوجہ کیامگر جہانگیر نے جواب دیا ”جاناں ترا جاں دادہ ام ایمان نہ دادہ ام“ یعنی ”میں نے اپنی جان تمہارے سپرد کی ہے اپنا ایمان تمارے سپرد نہیں کیا “ چناچہ ملا نور اللہ کو کوڑے لگائے گئے اور اسی سے ان کی موت واقع ہوئی۔


میں نے چند دن قبل محترم وسعت اللہ خان کا کالم بعنوان ”میں سچا مسلمان کیسے بنوں “پڑھا تو مجھے یہ واقعہ یا د آگیا، وسعت اللہ خان صاحب نے کالم میں جو مقدمہ کھڑا کیا میں بار بار پڑھنے کے باوجود اس کا کوئی جواز نہیں ڈھونڈ سکا ، پھر مقدمہ کے اثبات کے لیے جو دلائل دیے اور تاریخی حقائق پیش کیے ہیں اس میں بھی سوائے ان کی خواہش کے کوئی مسلمہ دلیل اور حقائق شامل نہیں۔

ان کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ کیا مجھے خود کو سچا مسلمان ثابت کرنے کے لیے پوری شیعی روایت کو جھٹلانا پڑے گا اور کیا اس روایت کے تمام نامور اہل علم اور موجدین کی خدمات کا انکار کر نا پڑے گا۔ یہ مقدمہ کس قدر سطحی اور غیر منطقی ہے آپ اندازہ کر سکتے ہیں۔ اسلام اہل تشیع تو کیا اہل کتاب کی بابت بھی یہ رویہ اپنانے کی تعلیم نہیں دیتا ،اسلام ہرگز نہیں کہتا کہ آپ خود کو سچا مسلمان ثابت کرنے کے لیے دوسروں کی تکذیب کریں ،دوسروں کی قبروں پر تھوکیں ، دوسروں کی ہڈیاں جلائیں اور دوسروں کی زبانیں نوچ ڈالیں۔

ہاں اسلام کچھ بنیادی مسلمات پر یقین رکھنے اور انہیں تسلیم کرنے کا حکم ضرور دیتا ہے۔ اس لیے خان صاحب اسلام اپنے آپ کو سچا مسلمان ثابت کرنے کے لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین پر غیر مشروط اور غیر متزلزل ایمان لانے اور انہیں معیار حق ماننے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اور ان کی تحقیر و توہین کرنے والوں سے اظہار برائت کی دلیل مانگتا ہے۔

اصل مسئلہ وہ نہیں جس پر آپ نے غیر منطقی مقدمہ کھڑا کیا ہے بلکہ اصل مسئلہ تب جنم لیتا ہے جب آ پ ان اصحاب کی توہین کرتے اور دوسرے مذہب و مسلک کے مقدسات پر کیچڑ اچھالتے ہیں۔ اس لیے آپ کو بو علی سینا کی قبر پر تھوکنے کی ضرورت ہر گز نہیں ، الخوارزمی کے فارمولے جلانے کی بھی ضرورت نہیں ، جابر بن حیان کی ہڈیا ں نکالنے کی بھی ضرورت نہیں ، آپ البیرونی کے مزار کو بھی آگ مت لگائیں ، عمر خیام کی رباعیات کو بھی چھلنی مت کریں ، فردوسی کا مجسمہ بھی مت گرائیں ، علی شریعتی کو مرتد بھی نہ مانیں ، قلی قطب شاہ، میر انیس اور جون ایلیا کا منہ بھی مت نوچیں اور آپ آگ کا دریا کو بھی دریا برد مت کریں۔

آپ صرف صحابہ کرام کی توہین کرنے والوں سے اظہار برائت کر دیں ، آپ حقائق کی درست تفہیم کو مان لیں ، آپ تعصب سے بالا تر ہو کر لکھنے کا ہنر سیکھ لیں اور آپ تاریخی حقائق کو جھٹلانے کی روش سے باز آ جائیں۔ آپ جہانگیر کی جس ایرانی محبوبہ نور جہاں کو ذہن سے مٹانے کے بارے میں فکر مند تھے اس کے بارے میں جہانگیر کا مذکورہ واقعہ بھی پڑھ لیں۔ آپ صرف غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنے کی جرائت پیدا کر لیں ، آپ حالات کو درست تناظر میں سمجھنے کا ملکہ پیدا کر لیں اور آپ اپنی تحریر کو خلط مبحث اور منطقی مغالطوں کا شاہکار ہونے سے بچا لیں ۔

آپ حیدر علی اور ٹیپو سلطان کو شیعی روایت میں کھڑا کرنے سے قبل تھوڑی سی تحقیق کر لیں اور آپ قائد اعظم کو شیعہ ڈکلیئر کرنے سے قبل ان کے شخصیت کا مطالعہ کر لیں۔ آپ صحافی کا وہ جواب بھی ذہن میں رکھیں جس نے قائد اعظم سے بار بار سوال کیا تھا کہ آپ شیعہ ہیں یا سنی اور انہوں نے زچ ہو کر جواب دیا تھا کہ محمدصل اللہ علیہ وسلم شیعہ تھے یا سنی اور آپ ذو الفقار علی بھٹو کو شیعہ ڈکلیئر کرنے سے قبل قادیانیت کے بارے میں ان کے فیصلے کو بھی ذہن میں رکھیں ۔


 میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ نے جن تاریخی حقائق کا حوالہ دیا ہے اگر اس کے ساتھ کچھ مزید حقائق بھی شامل کر دیتے تودودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا ۔ اگر آپ ریسرچ نہیں کر سکتے تو اس حوالے سے میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں ، مثلا آپ کالم میں آخری عباسی خلیفہ مستعصم باللہ کے وزیر اعظم ابن علقمی کی خدمات کا تذکرہ بھی کر دیتے جس کی ریشہ دوانیوں سے ہلاکو خان نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجائی تھی ، جس کی مہربانیوں سے صرف تین دن میں چار لاکھ مسلمانوں کا خون بہا تھا اور دجلہ کا پانی سرخ ہو گیا تھا۔

آپ سسلی کی داستان کا ذکر بھی کر سکتے تھے ، وہی سسلی جسے 212ھ میں مسلمانوں نے اسد بن فرات کی سرکردگی میں فتح کیا تھا،وہاں مسلمانوں نے دو صدیاں حکمرانی کی تھی اور قصریانہ کے شیعہ حاکم ابن حمود کی غداری کے نتیجہ میں یہ ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیاتھا۔خان صاحب اگرآپ کالم میں جنگ پلاسی کے اہم کردار میر جعفر کا تذکر ہ بھی کر دیتے تو کالم کا مزہ دوبالا ہو جاتا، آپ صرف یہ ذکر کر دیتے کہ جب سراج الدولہ انگریزوں کو شکست دینے کے قریب تھا تو عین وقت پر میر جعفر کی غداری سے پانسہ پلٹ گیا تھا ۔

اگر آپ میر صادق کو نہیں جانتے تو میں بتا دیتا ہوں ، میر صادق وہی تھا جس نے سرنگا پٹم کے قلعے میں ٹیپو سلطان کی پیٹھ میں خنجر گھونپا تھا، جب سلطان ٹیپو بجلی کی کڑک کی طرح آگے بڑھ رہا تھا اور میر صادق نے قلعے کے رازانگریزوں تک پہنچائے تھے ، قلعے میں شگاف ڈلوائے تھے اور فوجیوں کو تنخواہ کے بہانے پیچھے بلا یا تھا، جس کے بارے میں اقبال کو کہنا پڑا تھا کہ جعفر از بنگال و صادق از دکن ،ننگ آدم ننگ دین ننگ وطن۔

آپ اورنگزیب عالمگیر اور اس کے بعد کے عہد کا تذکرہ بھی کردیتے تو تصویر مکمل ہو جاتی ، کاش آپ اس عہد کے دو مشہور بھائیوں عبداللہ اور علی حسین کا کرداربھی عیاں کر دیتے جن کی وجہ سے صرف پچاس سال کے عرصے میں مغلیہ سلطنت انحطاط و زوال کا شکار ہوئی تھی۔ کاش آپ سکندر مرزا کے دور میں اس سرکاری حکم نامے کا تذکرہ بھی کردیتے جس میں کہا گیا تھا کہ سیدنا عمر فاروق متنازعہ شخصیت ہیں اوران کا نام ریڈیو پر نہیں لیا جا سکتا۔

چلتے چلتے آپ یحیٰ خان کا تذکرہ بھی کر دیتے جس کے عہد میں یہ ملک دو لخت ہوا اور اگر آپ عبد اللہ ابن سبا سے شروعات کر کے با الترتیب آگے بڑھتے تو کیا ہی بات تھی۔وسعت اللہ خان صاحب آپ خود کو سچا مسلمان ثابت کرنے کے لیے کچھ نہ کریں ، آپ صرف ان حقائق پر غور کر لیں امید ہے آپ کو اپنے سوال کا جواب مل جائے گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :