ہم آگ سے کھیل رہے ہیں !

پیر 9 نومبر 2020

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

زید بن حارثہ بچے تھے،خیمے میں کھیل رہے تھے ، اغواکاروں کا ایک گروہ آیاا ور انہیں اغوا کرکے بیچ دیا،یہ مختلف ہاتھوں سے بکتے ہوئے مکہ پہنچ گئے، حضرت خدیجہ کے بھتیجے حکیم بن حزام نے انہیں خرید لیا اور اپنی پھوپھی کو ہدیہ کر دیا، حضرت خدیجہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نذر کر دیا۔زید کے علاقے کے کچھ لوگ حج کرنے آئے اورانہیں پہچان لیا، واپس جا کر ان کے والد کو اطلاع دی کہ آپ کا بیٹا مکہ میں غلامی کی زندگی بسر کر رہا ہے، والد حارث اور چچا آپ کو لینے مکہ آئے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو منہ مانگی رقم کی پیشکش کی، آپ نے فرمایا:”اگر زید تمہارے ساتھ جانا چاہے تو میں کوئی رقم نہ لوں گا۔

“ زید سے پوچھا گیا تو انہوں نے والد کی بجائے آپ کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی۔

(جاری ہے)

یہ دیکھ کر آپ کے والد خفا ہوئے اور کہا کہ تم آزادی کی زندگی کوغلامی پر ترجیح دیتے ہو، انہوں نے کہا میں نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم میں وہ بات دیکھی کہ اس کے لیے باپ تو کیا کائنات بھی چھوڑ سکتا ہوں۔ ہجرت سے سات سال قبل اللہ نے انہیں ایک بیٹے سے نوازا جس کا نام اسامہ رکھا، حضرت اسامہ اور ان کے والد دونوں محبوب رسول کے لقب سے مشہور تھے ، حضرت زید کم عمری کی وجہ سے ابتدائی جنگوں میں شامل نہ ہو سکے۔

بعد میں بہت سارے غزوات میں حصہ لیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کا آخری سریہ حضرت اسامہ بن زید کی سربراہی میں ہی روانہ کیا تھا ، یہ لشکر مکہ سے کچھ دور گیا تھا کہ آپ کی وفات کی خبر سن کر رک گیا، بعد میں حضرت ابوبکر صدیق نے سب سے پہلے اسی لشکر کو روانہ کیا۔ فتح مکہ کے روزبھی آپ رسول اللہ کے ساتھ ایک ہی اونٹ پر سوارتھے۔رمضان سات ہجری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک سریے کی قیادت کے ساتھ روانہ کیا ، اس سریے میں ایک اہم واقعہ پیش آیا جوحضرت اسامہ کی زبانی ہی یہاں نقل کیا جاتا ہے ، اسامہ بن زیدکہتے ہیں رسول اللہ نے ہمیں حرقہ کی طرف بھیجا جو جہینہ کا ایک قبیلہ تھا،ہم نے صبح کے وقت ان پر چڑھائی کی اور انہیں شکست دے دی۔

جنگ کے دوران مجھے اور ایک انصاری کو ایک آدمی ملاجس کا نام نہیک بن مرواس تھا ، ہم اس کو پکڑکر مارنے والے ہی تھے کہ اس نے فورا لا الہ الا اللہ کہہ دیا،انصاری پیچھے ہٹ گئے لیکن میں نے نیزے سے اسے مار ڈالا،جب ہم واپس ہوئے اور نبی اکرم کو یہ خبر پہنچی توآپ نے فرمایا:” اے اسامہ تو نے لا الہ الا اللہ کہنے کے باوجود بھی اسے مار ڈالا “میں نے عرض کیا :”یا رسول اللہ ! اس نے اپنے آپ کو بچانے کی خاطر کلمہ پڑھا تھا“ آپ نے فرمایا :”تو نے لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد بھی اس کو مار ڈالا۔

“ آپ بار بار یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ میں نے خواہش کی کاش میں اس دن سے قبل مسلمان نہ ہوا ہوتا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سخت الفاظ میں اس قتل کی مذمت کی اورفرمایا :”افَلاَ شَقَقتَ عَن قَلبِہ تم نے اس کا دل چیر کر کیوں نہیں دیکھا۔“اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقتول کے ورثاء کو پوری دیت ادا کرنے کا حکم دیا۔

اس حدیث سے علماء نے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ اگر کوئی کافر جنگ کے دوران موت کے خوف کی وجہ سے کلمہ پڑھ لے تواسے قتل نہیں کیا جائے گا کیونکہ اسلام جنگ و جدل کا نہیں بلکہ امن و سلامتی کا دین ہے،اسلام لوگوں کو دین سے خارج کرنے کے لیے نہیں بلکہ انہیں دین میں داخل کرنے کے لیے آیا ہے، احادیث میں یہاں تک تاکید ملتی ہے کہ اگر کوئی کافر سر پر لٹکتی تلوار دیکھ کر اسلام قبول کر لے تو اس کے قتل سے ہاتھ روک لیا جائے۔


اسلام امن و سلامتی اور رحمت و محبت کا دین ہے ، رسول اللہ نے ساری زندگی مخالفین سے دکھ سہے، تکلیفیں برداشت کی ، طائف میں آپ کا وجود لہو لہان ہوا، احد وحنین میں آپ زخمی ہوئے مگر کبھی کسی کے ساتھ برا نہیں کیا، ابوجہل، ابولہب اورعقبہ بن معیط جیسے بدبختوں کے لیے بھی زبان مبار ک سے دعا ہی نکلی۔آج ہمارا یہ دعوی ٰ ہے کہ ا سلام امن و سلامتی کادین ہے، دنیا ہمیں دہشت گرد ڈکلیئر کررہی ہے اور ہم صفائیاں پیش کر رہے ہیں ،آپ ایک لمحے کے لیے رک کرسوچیں کہ ہم جس راستے پر چل نکلے ہیں کیا اس کے بعد بھی دنیا ہمیں امن و سلامتی کا پیامبر مان لے گی اورکیا ہم اس رویے اور جنونیت کے ساتھ دنیا کو باور کر ا سکتے ہیں کہ ہم امن و سلامتی کے داعی ہیں۔

چنیوٹ میں جو کچھ ہوا اور اس سے قبل جو کچھ ہوتا رہا اس کے بعد ہم خود مذہب کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکے ہیں ، اسلام کو غیر مسلموں کی سازشوں سے نہیں ہمارے اپنے رویوں، ہماری جنونیت اور ہماری جہالت سے خطرہ ہے ۔ چنیوٹ میں بینک مینجر کا قتل پہلا واقعہ نہیں بلکہ ہماری تاریخ اس طرح کے واقعات سے مالا مال ہے ،2017 اسی چنیوٹ کے علاقے میں تبلیغی جماعت کے دو افراد کو شہید کیا گیا اور ان پر یہ الزام عائد کیاگیا کہ وہ گستاخ رسول تھے ،کیا عجب پیمانے ہیں ہمارے عشق رسول کے ، جو اپنا گھر بار اور بیوی بچوں کو چھوڑ کر رسول اللہ کے دین کی تبلیغ کے لیے نکلے وہ گستاخ رسول تھے فیاللعجب ،بینک مینجر کو بھی اس وجہ سے قتل کیا گیا کہ وہ انبیاء کو مختار نہیں مانتا تھا ۔

ہماری حالیہ تاریخ میں ایسے بیسیوں واقعات ہیں جنہیں یہاں لکھتے ہوئے پر جلتے ہیں، اگر یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا تو ہم میں سے کوئی نہیں بچے گا، گستاخی رسول کا بہانہ بنا کر ذاتی مفادات اور دشمنیوں کی بھڑاس نکالی جائے گی ۔ یہ عشق رسول نہیں یہ گستاخی رسول ہے ، وہ رسول جو محض اس وجہ سے اپنے محبوب صحابی سے ناراض ہوئے کہ انہوں نے ایک کافر کو موت کی وقت کلمہ پڑھنے کے باوجود قتل کر دیا تھا آج اس کے کلمہ گو امتیوں کو عشق رسول کے نام پر مارا جا رہا ہے ، اس سے بڑی گستاخی اور کیا ہوسکتی ہے۔

اس پر مستزاد ہماری جہالت کہ ایسے جنونیوں کو سر پر بٹھایا جاتا ہے ، انہیں کندھوں پر اٹھایا جاتا ہے اور ان کے بوسے لیے جاتے ہیں ،ان کے لیے ریلیاں نکالی جاتی ہیں ، جلسے منعقد کیے جاتے ہیں ،ان کے حق میں نعرے لگتے ہیں، منبر و محراب سے ان کے لیے دعائیں اور ان کی واہ واہ ہوتی ہے اور انہیں پکا جنتی ڈکلیئر کیا جاتا ہے۔ یہ کیا ثابت کرتا ہے ، یہ ثابت کرتا ہے ہم من حیث القوم جہالت کا شکار ہیں ، ہم نے جنونیت کو عشق رسول کا نام دے دیا ہے اور ہم اپنے ہاتھوں سے مذہب اور رسول اللہ کو بدنام کر رہے ہیں۔

یہ ثابت کرتا ہے ہم مذہب کی اصل تعلیمات سے بہت دور نکل چکے ہیں ،ہم نماز روزہ اور دیگر فرائض و واجبات کو رسول اللہ سے عشق نہیں سمجھتے ، ہم اطاعت رسول کو بھی عشق نہیں سمجھتے اور ہم بنی اکرم کی سنتوں کو بھی عشق نہیں سمجھتے ، ہم ایک کنفیوژڈ قوم ہیں ، کنفیوژن جہالت کی پیداوار ہوتی ہے اور آج ہم اس میں خود کفیل ہیں ۔اب وقت ہے کہ مذہبی فکر اپنا کردار ادا کرے، عشق رسو ل کے درست پیمانوں کی نشاندہی کرے ، عشق رسول کے نام پر جنم لینے والی جنونیت کی مذمت کرے اور سر عام ایسے عاشقان سے لاتعلقی کا اظہار کرے ۔ہم اور ہمارا سماج آگ سے کھیل رہا ہے ، اگر مذہبی فکر نے اس آگ کو بجھانے کی کوشش نہ کی تو ہم میں سے کوئی بھی کسی بھی وقت اس کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :