
بھینسوں کی لڑائی میں گھاس کا نقصان
بدھ 9 ستمبر 2020

محمد کامران کھاکھی
اللہ تعالی نے تمام انسانوں کے لیے زمین کو پیدا کیا مگر حق ملکیت اپنے پاس رکھا اور انسانوں کو ان زمینوں سے فائدہ اٹھانے کا اختیار دیا کہ اس سے فائدہ اٹھاو اور میرا شکر بجا لاو مگر پڑھے لکھے انسانوں نے اس زمین کو اپنی اپنی ملکیت بنا لیا اور سرحدیں قائم کر لیں۔ایسے ہی ہر کسان اپنی زمین کو سمجھتا ہے کہ وہ اسکا بلاشرکت غیر مالک کل مختا ر ہے مگر جب فرشتہ اجل آتا ہے تو اس کی ملکیت باقی وارثوں میں بانٹ دی جاتی ہے اور تب یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ دنیا ، یہ زمین تو کبھی میری تھی ہی نہیں بلکہ میرے تو صرف اعمال تھے کہ اس زمین سے اگنے والی فصل کو میں نے کہاں کہاں خرچ کیا۔
(جاری ہے)
کسان کھیتوں کی آبیاری کرتا ہےاس میں فصل اگاتا ہے اور پھر اس فصل سے اپنا بھی پیٹ پالتا ہے اور اپنے گھر والوں کو بھی کھلاتا ہے۔
اور یہاں کی زمین {پاکستان}بھی زرخیز ہے۔اس لیے آزادی کے بعد ہی اس پر کسانوں کا قبضہ ہوا اور ان کسانوں نے اپنی اپنی مرضی کی گائے اور بھینسیں پال لیں پھر ان کو باندھ کر رکھنے کی بجائے کھلا چھوڑ دیا گیا اور تب سے ان میں لڑائی ہو رہی ہے اور گھاس مسلسل نقصان اٹھا رہی ہے۔گھاس میں چھوٹی [غربا] اور لمبی [امرا] ہوتی ہے۔ مگر نقصان چھوٹی گھاس کا زیادہ ہوتا ہے کیونکہ وہ پاوں میں آتی ہے اور لمبی گھاس منہ میں۔ پھر ان جانوروں کی جگہ درندوں نے لے لی اور شیر اور چیتے بھی گھاس کھانے لگے۔
ان جانوروں نے خوب سیر ہو کر گھاس کھائی اور ذخیرہ بھی کی پھر درندوں کی باری آئی تو انہوں نے بھی اپنی اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرا اوراب رہی سہی کسر بارشوں نے پوری کر دی ا ور گھاس اپنی بقا کی جنگ لڑتے لڑتے اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔ اس میں اتنا دم خم ہی نہیں کہ اپنے حق کے لیے آواز اٹھا سکے یا پتہ نہیں کسی مسیحا کی منتظر ہے کہ آئے گا اور ہمارے سارے مسئلے حل کرے گا۔ لیکن خیر یہ بھی اچھی بات ہے کیونکہ ویسے بھی یہ گھاس بدبودار ہو چکی ہے اس میں کھاد{ کرپشن} کی بو پھیل چکی ہے اس لیے اسے ختم ہی ہونے دو پھر نئی گھاس اگائی جائے گی جو کہ لہلہا تی، بل کھاتی، خوشبو دار ہو گی اور پھر سے نئے جانوروں کو اس میں لڑنے اور اسے روندنے کا موقع ملے گا۔ مواقع پیدا کیے جاتے ہیں خود بخود تھوڑی پیدا ہوتے ہیں۔اگر ہم اپنی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات عیاں ہے کہ جب بھی ہم نے ترقی کا سفر شروع کیا یا تو ہمیں راستہ بھٹکایا گیا یا ا س راستے کو ہی غلط قرار دے کر پھر سے نئے راستے پہ ڈالا گیا۔ اس لیے ہم نے ابھی مزید تین سال اس نئے راستے {تبدیلی} پر چلنا ہے پھر فیصلہ ہوگا کہ ہم ٹھیک راستے پر ہیں کہ غلط۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد کامران کھاکھی کے کالمز
-
آدھا سچ، سیاست اور دھوکہ
جمعہ 15 اکتوبر 2021
-
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں
ہفتہ 9 اکتوبر 2021
-
عوامی بجٹ اور حکومتی خوشخبریاں
ہفتہ 19 جون 2021
-
ہماری کوئی غلطی نہیں
بدھ 16 جون 2021
-
بدلا ہے خیبر پختونخواہ
بدھ 9 جون 2021
-
روک سکو تو روک لو۔۔!
ہفتہ 5 جون 2021
-
کوئی بھوکا نہ سوئے
ہفتہ 24 اپریل 2021
-
خدمت آپ کی دہلیز پر
جمعرات 22 اپریل 2021
محمد کامران کھاکھی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.