الٹی ہو گئیں سب تدبیریں

ہفتہ 9 اکتوبر 2021

Muhammad Kamran Khakhi

محمد کامران کھاکھی

ایمانداری سے بات کی جائے تو کوئی بھی سیاست دان ایسا نہیں کہ جس نےالیکشن میں کیے گئے وعدوں پر جیت جانے اور حکومت بنانے کے بعد بھی من و عن عمل کیا ہو۔اب چاہے وہ پاکستان پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ یا کوئی بھی اور سیاسی جماعت سب الیکشن میں پورے زور شور سے عوامی نمائندگی کا دم بھرتے نظر آتے ہیں اور جیت جانے پر ان کے مسائل حل کرنے کے لیے بے تاب نظر آتے ہیں  مگر حکومت میں آتے ہی ان کے اپنے رنگ ڈھنگ ہی بدل جاتے ہیں اورمیڈیا  منیجمنٹ کے ساتھ کچھ بنیادی ترقیاتی کاموں سے عوام کو دلاسہ دلا کر رکھتے ہیں۔

جیسے ایک گھر کا سربراہ وہ باتیں بھی جانتا ہے جو کہ گھر کے عام افراد نہیں جان سکتے مگر وہ سب کو مطمئن رکھنے کی کوشش ضرور کرتا ہے تاکہ آپس کا رشتہ مضبوط رہے ویسے ایک ملک کے سربراہ کی ذمہ داری بھی یہی بنتی ہے کہ اپنے ملک کی عوام کو مطمئن رکھ سکے تاکہ ملک میں انتشار کی سی کیفیت نہ جنم لے سکے کہ جس سے ملک دشمن عناصر فائدہ اٹھا کر فتنہ و فساد برپا کرنے کی کوشش کریں۔

(جاری ہے)


عوام سب کچھ جانتے ہوئے بھی انہیں سیاست دانوں کا ہر دفعہ اعتبار کرتی ہے اور پھر انہیں کو برا بھلا بھی کہتی رہتی ہے اسی دوران ایک نظریاتی جماعت پاکستان تحریک انصاف  شروع ہوئی جس نے پاکستانی نوجوانوں کو آگے لانے کی بات کی ، عوام کی حقیقی ترجمانی کی بات کی، انصاف کی بات کی، غریب کی آواز بنی اورحکمرانی کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھی مگر کامیاب نہ ہو سکی تو اس جماعت کو بھی یہ احساس ہوا کہ نظریاتی نہیں ،سیاسی ہونا پڑے گا پھر ہی حکومت مل سکتی ہے اور یہ اس جماعت  کا پہلی دفعہ اپنی بات سےپلٹنا تھا اور پھر تو جیسے یہ اس کی عادت بن کر رہ گئی۔

اسی ایک بات سے نظریاتی ارکان نکلتے گئے اور سیاسی ارکان (الیکٹیبلرز) جماعت کا حصہ بنتے گئے اور آج سے تین سال پہلے یہ جماعت حکومت بنانے کی اہل تو ہوئی مگر اس کے لیے بھی اسے اپنی کئی باتوں سے منہ موڑنا پڑا اور جنہیں پہلے یہ پنجاب کے ڈاکو،کرپٹ، چپڑاسی، دہشت گرد اور بکاو مال کہتے رہے ،اب حکومت بنانے کے لیے ان سب کو ساتھ ملانا پڑا۔ تب شاید اس جماعت نے  بھی  افتخار نسیم کی غزل کا یہ شعر  سیریس لے لیا ہو کہ۔

۔۔۔
ابھی تو دل میں ہے جو کچھ بیان کرنا ہے
یہ بعد میں سہی کس بات سے مکرنا ہے
مگر عوام نے پھر بھی امید رکھی کہ کوئی بات نہیں حکومت میں آکر جب حکمران ایماندار ہوگا تو سب کو ٹھیک کر دے گا اور کسی کو کرپشن نہیں کرنے دےگا۔مگر حکومت میں آنے کے بعد جب اس جماعت کو اصل صورتحال سے آگاہی ہوئی تو ان کے ہاتھ پیر ہی پھول گئے اور کئی ایسے کارہائے نمایاں سرانجام ہوئے کہ جن کی ایک لمبی تفصیل ہے۔

حکومت میں آتے ہی  ایک ایسا کارنامہ سرانجام ہوا جو پچھلے ستر سالوں میں نہیں ہوا اور ملکی ترقی کی شرح منفی میں چلی گئی ۔پھر کورونا نے مزید بیڑہ غرق کیا اور مہنگائی کا جن بے قابو ہوگیا ۔ ان سب باتوں پر ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے  مگر میرا مقصد ان  حکومتی کوششوں کو بیان کرنا ہے جو ان تین سالوں میں انہوں نے ملکی مفاد میں کیں  اور ان میں کس حد تک کامیاب ہوسکیں ۔


پہلی تدبیر یہ کی کہ ہم کسی سے ادھار نہیں لیں گے بلکہ خود ہی کما کر اپنا پچھلا قرضہ بھی چکتا کر دیں گے اور پھر ایسی قرض کی لت پڑی کہ ہم نے صرف تین سال میں  قرض لینے کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ کشکول توڑنے کی بابت سوچا  کہ اب کسی سے اپنے ملک کے لیے امداد طلب نہیں کریں گے مگر پھر وہی کشکول ان کے سامنے بھی پھیلانا پڑا جو خود دوسروں سے مانگتے ہیں۔

اور شومائی قسمت کہ ملکی اثاثے  بھی بنانے میں ناکام رہے بلکہ موجواثاثے بھی دوسروں کی دسترس میں جاتے جارہے ہیں۔
دوسرے نمبر پر ہم نے وعدہ کیا تھا پچاس لاکھ گھروں کا کہ غریب عوام کو سستے گھر دیں گے تو اس کے لیے ہم نے تدبیر کی کہ سستے گھر بنائے جاِئیں تو یہ کام میں تو پیسے خرچ ہو جاتے اس لیے دوسرے بناکر گھر دیں اور نام ہمارا ہو کچھ ایسا سوچا مگر ابھی تک ایک بھی گھر کسی کو نہ مل سکا بلکہ جو دوسرے بنا کر بینکوں سے سود پر قرض  دلاکر گھر دے رہے ہیں وہ بھی غریب کی پہنچ سے بہت دور ہیں۔


تیسرے نمبر پر ہم نے تدبیر کی کہ ہم اپنے خرچے کم کر کے بچت کریں گے اور چائے کے ساتھ بسکٹ بھی نہیں دیے کسی کو کھانے کے لیے مگر خرچے پہلے سے دوگنے ہوتے گئے اور ہمیں ہر بجٹ میں ان اخراجات میں اضافہ ہی کرنا پڑا۔
پھر تدبیر کی کہ مرغیاں اور انڈے  عوام کو دے کر ایک معاشی انقلاب لایا جائے مگر کچھ مرغیوں نے انڈے دینے سے انکار کر دیا ور جنہوں نے انڈے دیے وہ عوام کھاگئے۔

اسی کوشش میں ہم نے بھینسیں بھی بیچیں، پچھلی حکومتوں کی استعمال شدہ گاڑیوں کی نیلامی بھی کردی کہ ہم اپنے لیے نئی لیں گے پرانی کاریں ہم نے کیا کرنی ہیں مگر اس سے ملکی بہتری کا کچھ کام بن نہیں سکا  مگر پھر بھی ہماری بلےبلے ہو ہی گئی۔
 تیسری تدبیر ہم نے کی کہ ہم کسی کو این آر او نہیں دیں گے اور تمام کرپٹ لوگوں سے  لوٹا ہوا پیسہ واپس لیں گے مگر ہائے رے قسمت ان میں کچھ اپنے بھی نکل آئے تو کیا کرسکتا ہے کوئی اور اپنے بھی وہ کہ جن کے احسان ہیں ہم پر۔


چوتھی تدبیر کی کہ ملک میں لاقونینیت کے خاتمے کے لیے تمام قانونی اداروں کی اصلاح کریں گے اور اس کے لیے کئی سربراہوں  کے ساتھ وزیروںکو بھی  ادھر اُدھر کر کے دیکھا مگر ڈھاک کے وہی دوپات بات کچھ بن نہیں سکی۔
پھر ہم نے تدبیر کی کہ ملکی  موجودہ خسارہ کم کیا جائے تو ہم نے درآمدات پر پابندی لگا دی جس سے خسارہ کم ہو کر مثبت میں چلا  گیا اور ہم نے چھلانگیں لگا لگا  کراپنے اس کارنامے کے بارے بتانا شروع کیا ہی  تھا کہ مہنگائی بڑھنے لگی، انڈسٹریز بند ہونے لگیں تو درآمدات کھولنی پڑیں جس سے کرنٹ اکاونٹ خسارہ پھر چھلانگیں مارتا ہوا  منفی میں چلا گیا تو اب تو خسارہ ترقی کی علامت ہوتاہے نا۔


پھر ہم نے تدبیر کی کہ مہنگائی کا جن قابو ہو جائے گا کیونکہ گندم اور گنا کی ریکارڈ فصل تیار ہوئی ہے مگر ہائے رے قسمت کہ جو ملک دوسروں کو گندم امداری طور پر دیتا تھا اسے وہی درآمد کرنی پڑی  اور چینی کے بارے کچھ بولنا بنتا نہیں۔
ہم نے تدبیر کی کہ کورونا کی وجہ سے غریبوں کو تنگی نہ ہو تو ان کے لیے احساس پروگرام شروع کیا اور یہ تو کم ہی لوگوں کو علم ہے کہ اس میں گورنمنٹ کے کتنے پیسے خرچ ہو رہے ہیں اور کون اس پروگرام کا سارا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے اس لیے یہ کارنامہ فی الحال کامیاب ہے۔

اس کے علاوہ ہماری بہترین حکمت عملی سے پچھلی حکومتوں کے شروع کردہ منصوبے جن کو ہم نے حکومت میں آنے کے بعد بند رکھا تھا وہ آج ہمارے نام سے منصوب ہو رہے ہیں اور اس طرح ہم نے پچھلی حکومتوں سے بھی زیادہ سڑکیں بنا لیں۔
الغرض جب سب تدبیریں الٹی ہونے لگیں تو یہی کہنا بنتا ہے نا کہ نیا پاکستان کوئی بٹن دبانے سے نہیں بن سکتا اور ملک میں کوئی غریب نہیں ہے بلکہ عوام خوشحال ہے اسی لیے تو گاڑیوں کی فروخت بڑھتی جارہی ہے  اور کوئی غریب ڈھونڈ کے دکھا دیں ،سے اسی فی صد غریب لوگوں کے بوجھ والے ملک کو چلانا کوئی آسان کام نہیں  ہےجیسے بیانات سننے کو ملتے ہیں  اور کبھی  ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلی کی بہترین کارکردگی  کو ڈھونڈنے کے لیے اور مشتہر کرنے کے لیے بھی ہمیں منصوبے بنانے پڑجاتے ہیں۔

اب تو ہماری حالت یہ ہے کہ   بقول میر۔۔۔
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
دوا اور تدبیر تو تب کام کرے گی نا کہ جب دوا بیماری سے اور تدبیر دنیاوی حقیقتوں سے میل کھاتی ہونگی ورنہ دونوں ہی الٹی پڑتی ہیں۔ اور زندہ رہنے کے لیے دوا کے ساتھ حکیم بھی بدلنا پڑتاہے  اور اگر تدبیر الٹی پڑے تو اس سے سبق ضرور لیا جاسکتاہے اوراگلی تدبیر کے لیے کسی دانا سے مشورہ ہی لے لیا جائے اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے بھی ان لوگوں کا ہونا ضروری ہے جو نام بنانے کی بجائے کام کرنے والے ہوں۔

سب سے آخر میں سب سے اہم بات کہ جب تک ہم اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے کچھ کرنا نہیں شروع کر دیتے ، بہتری کی امید رکھنا بیکار ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :