آدھا سچ، سیاست اور دھوکہ

جمعہ 15 اکتوبر 2021

Muhammad Kamran Khakhi

محمد کامران کھاکھی

گوجرانوالہ کے رہائشی سید سبط الحسن عرف ڈبل شاہ کے نام سے شاید آپ واقف ہوں جو کسی کی بھی رقم کو پہلے پندرہ دنوں میں اور پھر ستر دنوں میں دوگنی کر کے واپس کرتا اور لوگوں کا ایک جم غفیر اپنی جمع پونجی اس کے پاس ڈبل کرانے کے لیے جاتا ۔ اس  دھوکہ دہی سے اس نے سات ارب روپے کمائے مگر پھر اسکا بھانڈا پھوٹ گیا اور وہ گرفتار ہوا اور کہتے ہیں کہ جیل میں ہی اس کی موت واقع ہوئی۔

آج کل کے سیاست دانوں کو دیکھ کر میرے ذہن میں اس ڈبل شاہ کی کہانی گونجتی ہے کہ کیسے سیاست دان عوام کے ساتھ دھوکہ کر کے بھی اقتدار کے مزے لوٹتے رہتے ہیں اور ہر دھوکہ دہی پہ بس ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ وہ تو میرا سیاسی بیان تھا مگر اسی دھوکہ دہی نے ڈبل شاہ کو ساری زندگی کے لیے پس زندان کر دیا اور رہتی دنیا کے باسیوں کے لیے بھی فراڈ کی علامت بن کے رہ گیا مگر سیاست دان  اپنے وعدوں یا اپنی باتوں سے مکر جائیں تو وہ پھر بھی صادق و امین ہی رہتے ہیں۔

(جاری ہے)

دنیا بدل رہی ہے مگر شیطان کے شاگرد گوئبلز کے اصول آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ کامیاب ہوتے ہیں نہیں یقین تو آجکل کی دنیا کے حالات ملاحظہ فر ما لیں جیسا کہ اس نے کہا تھا کہ  اگر آپ ایک جھوٹ بولتے ہیں اور اسے ہی دہراتے چلے جاتے ہیں تو وہ  سچ  لگنے لگتا ہے اور جتنا بڑا جھوٹ ہوگا اتنا ہی جلدی وہ مقبول ہوگا۔ اسکی مثال موجودہ دور میں اس بات سے لی جاسکتی ہے کہ کسی بھی گھریلو استعمال کی چیز کا اشتہار بڑھا چڑھا کر بار بار اگر ٹی وی پر چلایا جائے تو ہر انسان اسے ایک مرتبہ ضرور خریدے گا اور اچھا نہ ہونے پر بھی پھر خریدے گا کیوں کہ اسے برا کوئی کہ نہیں رہا اور اپنے شریکوں میں بھی ناک تھوڑی کٹانی ہے کہ اتنی مشہور چیز کا استعمال ہی نہیں کرپاتے اور بڑے جھوٹ  نے تو ملک کے منتخب وزیر اعظم کو بھی نااہل کرا کے جیل بھجوادیا یہ ہے جھوٹ کی طاقت ، تو کچھ ایسا ہی ہماری سوچ کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتاہے کیونکہ گوئبلز کا دوسرا اصول میڈیا کا کنٹرول ہے کہ میڈیا کو ایسا کی بورڈ بنا لو کہ اس پر وہی دھن ہی بج سکے جو آپ بجانا چاہتے ہوں اسی لیے کبھی بھی آپ کو حکومتی میڈیا ،حکومت مخالف بیان نہیں سنوائے گا، حکومت مخالف کام نہیں دکھائے گا اور حکومت کو فرشتہ ثابت کرنے کا پورا حشر سامان برپا رکھے گا۔


برطانیہ کی یونیورسٹی آف باتھ اور جرمنی کی یونیورٹی آف کونسٹنز کے محققین کی ایک نئی تحقیق میں یہ سامنے آیا ہے کہ وہ سیاست دان جو زیادہ جھوٹ بولتے ہیں، ان کے لیے کسی قسم کا عہدہ حاصل کرنے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے اوراس تحقیق کو سچ ثابت کرنے کے لیے ہمارے ایک مشیر کی مثال ہی کافی ہے باقی آپ لوگ خود بھی سمجھدار ہیں۔
کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پاوں نہیں ہوتے ہیں تو جھوٹ کبھی نا کبھی ظاہر ہو کے رہتاہے اور سچ اپنا آپ دکھاتاہے تو اس کا حل بھی جناب گوئبلز بتا گئے کہ جھوٹ کو مضبوط بنانے کے لیے پروپیگنڈہ کا ہتھیار استعمال کرو کہ پروپیگنڈہ کبھی ختم نہیں ہوتا بلکہ خاتمے کا ہتھیار ضرورہے تو اگر جھوٹ پکڑا جائے تو گالم گلوچ سے اسے دباو اور پروپیگنڈہ سے پکڑنے والے پر ہی غلط خبر کا الزام لگا دو اور اپنے کی بورڈ (میڈیا) پر اپنی مرضی کی دھن بجا کربھنگڑے لگاو۔


جھوٹ کو مصنوعی پاوں آدھے سچ سے لگائے جاتے ہیں کیونکہ آدھا سچ مکمل جھوٹ سے بھی زیادہ خطرناک ہوتاہے اور ہماری سیاست کی جنگ میں اس آدھے سچ کا استعمال بھرپور ملے گا آپ کو جیسا کہ پیٹرول کی قیمت پاکستان میں پورے خطے کے ملکوں سے کم ہے۔معیشت ترقی کرے تو قرضے بڑھتے ہیں، پچیس ہزار ارب قرض نے ملک کا بچہ بچہ مقروض کر دیا تھا تو ہم نے قرض اتار کر چالیس ہزار ارب کردیا اور اب ملک کا بچہ بچہ خوشحال ہے۔

اقتدار میں ہر نیا آنیوالا اپنے  آپ کو صادق و امین اور قابل منوانے  کے لیے اپنے سے پہلے والوں پر کرپشن،چوری اور نااہلی کا الزام ضرورلگاتاہے اوردھوکہ کھائی ہوئی عوام کو پھر سے دھوکہ کھانےکے لیے تیار کرتا ہے۔ واہ واہ بھی سمیٹتا ہے اور اقتدار کے مزے بھی لوٹتاہے ۔
سچ اور جھوٹ کا معرکہ ازل سے جاری ہے مگر اس میں سوشل میڈیا نے مزید اشتعال پیدا کر دیا ہے اب جھوٹ  کو اپنی عیاری،مکاری،پردہ فاش،جیسے ہتھیار سےلیس ہو کر سچ کو دبانے کا موقع ملا ہے  کیونکہ سچ تو اٹل ہے اسے بناو سنگھار کی ضرورت نہیں ، وہ تو دوٹوک ہوتا ہے اسے اپنے سچا ہونے کا بھرم ہوتا ہےمگر جھوٹ کئی بہروپ بنا کر آپ تک پہنچتاہے اور اسے پھیلانے والے ایسے چرب زبان ہوتے ہیں جو آپ کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ماوف کرکے اپنی بنائی جنت کی سیر کرا دیتے ہیں اور اپنی بات کو سچ ثابت کرکے آپ کو ہی اسے آگے پھیلانے کا ذریعہ بھی بنا لیتے ہیں جبکہ اس کے مد مقابل سچ اپنی پوری آب وتاب اور دالائل کے انبار کے ساتھ بھی رکھائی سے بیان کیا جاتاہے اور ہم اسے سن کر بھی ان سنا کر کے اگلے جھوٹ میں مگن ہوجاتے ہیں اور سچ اس بات کا منتظر ہوتا ہے کہ کوئی تو روشن دل مجھے تلاش کر کے منظر عام پر لے ہی آئے گا اور جب تک ان روشن ضمیر اور حق و سچ کے جانبازوں کی اس دنیا میں موجودگی ہے سچ کسی نہ کسی صورت میں سامنے آتا ہی رہے گا کہ بڑے بول اورحقیقی عمل میں جو فرق ہے وہ واضح ہو ہی جاتاہے۔


موجودہ حکومت کی انتخابی مہم اور حکومتی کردار کا اگر باریک بینی سے مشاہدہ کیا جائے تو بہت سی باتوں سے دھول چھٹ جائے گی اور حقیقی پس منظر آپ کی نگاہوں کے سامنے ہوگا مگر مجھے پورا یقین ہے کہ اتنی تگ و دو کوئی نہیں کرے گا کیونکہ ہمیں مصالحے دار چیزیں پسند ہیں اور ہم خوش رنگ خوابوں میں رہ کر اپنی زندگی ختم کر دینا پسند کرتے ہیں ، ہم سہولت پسند ہیں ، ہم ایک اشارے سے سارے کام سر انجام دینا چاہتے ہیں یا دوسرے الفاظ میں ہم سب میں کہیں نہ کہیں حاکم بننے کی چنگاری چھپی ہوئی ہے اور جہاں تک ہوسکے ہم خود کو آرام دے کر دوسروں سے کام کرا کے خود کریڈٹ لے کر اس چنگاری کو جلاء بخشتے ہیں۔

مگر اس سب سے چھٹکارے کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے دوبارہ سے شروعات اور اس شروعات کی ابتداء ایک ہی بات سے ہو کہ پورا سچ بولا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :