عوامی بجٹ اور حکومتی خوشخبریاں

ہفتہ 19 جون 2021

Muhammad Kamran Khakhi

محمد کامران کھاکھی

جیسے ایک ملازمت پیشہ شخص کو معلوم ہوتاہے کہ اسے ایک مہنے بعد کتنی آمدنی ہوگی اور اس کے علاوہ کیا کرنے سے اس میں اضافہ متوقع ہو سکتا ہے اسی طرح اسے اپنے اخراجات کا بھی علم ہوتا ہے کہ اسے حاصل ہونے والی آمدن کا کتنا حصہ کس چیز پر خرچ ہوگا جیسے مکان کا کرایہ،راشن،بچوں کی فیس،کتابیں،مختلف بلز،پیٹرول وغیرہ اب وہ ان سب چیزوں کے لیے اپنی آمدن  کے مطابق پیسے مختص کرتاہے اور اگر ان سے کچھ پیسے بچ رہے ہوں تواس سے کچھ نیا کرنے کا پلان بناتاہے اور اگر کم ہو رہے ہوں تو ادھار لے کر گزارہ کرتا ہے۔

ایک ملکی بجٹ بھی باالکل ویسا ہی ہے کہ حکومت پورے ایک سال کا تخمینہ لگاتی ہے کہ ہمیں کتنی آمدنی ہوگی  اور کن ذرائع سے ہوگی اور ہم نے کہاں پر کتنے پیسے خرچ کرنے ہیں۔

(جاری ہے)

اس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ بجٹ تیار ہونے کے بعد وفاقی کابینہ اس کی منظوری دیتی ہے جس کے بعد قومی اسمبلی میں پیش کیا جاتا ہے ،پھر پارلیمنٹ میں اس پر بحث ہوتی ہے اور آخر کار صدر مملکت سے منظور کرایا جاتاہے اور اس کے بعد وہ ایک قانونی حیثیت اختیار کر جاتاہے۔


 تبدیلی سرکار کو برسر اقتدار ہوئے تین سال ہوئے اور یہ ان کا تیسرا بجٹ ہے جو کہ انہوں نے قومی اسمبلی میں پیش کیا(منی بجٹ  اس کے علاوہ ہیں) اور اسکے بعد سے حکومتی مشیر وں اور وزیروں کی یہ ڈیوٹی لگی کہ عوام کو یہ باور کرایا جائے کہ ہم نے کتنا عوام دوست بجٹ پیش کیا  تو آئیے ذرا اس بجٹ میں عوام کو دی گئی سہولیات و خوشخبریوں کا جائزہ لیتے ہیں۔


پہلی خوشخبری یہ ہے کہ سرکاری ملازمین کو دس فیصد تنخواہ میں اضافہ کرکے راضی کیا گیا اور یہ باور کرایا گیا کہ ان مشکل حالات میں اتنا اضافہ بھی ہماری ہی ہمت ہے کیونکہ ہم چادر دیکھ کر پاوں پھیلانے کے عادی ہیں  جبکہ دوسری طرف یہی حکومت عوام کو خوشخبریاں دیتے نہیں تھکتی کہ پاکستان ترقی کرگیا، معیشت مضبوط ہوگئی، چار فی صد ترقی کی شرح ہوگئی ، پاکستان نے آگے بڑھنا شروع کر دیا وغیرہ  
دوسری خوشخبری یہ ہے کہ کوئی اضافی ٹیکس نہیں لگایا گیا مگر ٹیکس ہی کی مد میں آمدنی میں اگلے سال اضافہ بھی دکھایا گیا۔

پیٹرولیم پر تقریبا 35 فیصد  لیوی نافذ کی گئی جس سے فی لیٹر بیس سے پچیس روپے قیمت میں اضافہ متوقع ہے مگر بجٹ عوامی ہے اور غریب کا سوچ کر بنا یا گیا ہے۔
تیسری خوشخبری یہ ہے کہ حکومت کا مشن ہے کہ مہنگائی کو کنٹرول کیا جاسکے اس لیے بجٹ میں کئی فوڈ ایٹمز پر سیلز ٹیکس چھوٹ جو پہلے دی جاری تھی وہ ختم کر دی گئی جس سے ان کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا اور مہنگائی کنٹرول کرنے میں بہت مدد ملے گی۔

ان میں چینی،گندم،آئل،دودھ،دہی،انڈےوغیرہ جیسی غیر اہم اشیاء  شامل ہیں اس لیے عوام کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔حکومت مافیاء کے خلاف جنگ میں مصروف ہے اس لیے ان کو دی گئی چھوٹ ختم کر دی اب اگر مافیاء چاہے تو اپنی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کر کے حکومتی حصہ (سیلز ٹیکس)بھی عوام سے وصول کر سکتا ہے۔
چوتھی خوشخبری یہ ہے کہ  850 سی۔سی سے کم  ہارس پاور انجن والی گاڑیوں پر سیلز ٹیکس کم کیا گیا جس سے غریب آدمی بھی گاڑی خریدنے کے قابل ہو جائے گا اور گاڑی بنانے والے مزدور بھی خوشحال ہو جائیں گے، اب موٹر سائیکل لینے کی بھی ضرورت نہیں رہی کیونکہ ا س پر بھی سیلز ٹیکس لگا کر مہنگا کر دیا ہے  ، اب ہوگی غریب کی سواری، دس سے پندرہ لاکھ کی گاڑی۔

 
پانچویں خوشخبری یہ ہے کہ مزدور کی کم سے کم تنخواہ 17500 روپے ماہانہ سے بڑھا کر 20ہزار  روپے ماہانہ مختص کی گئی ہےجو کہ نہ پہلے ملتی تھی اور نہ ہی اب ملے گی اور اگر ملے بھی تو بیس ہزار میں بھی ایک مہنے کا بجٹ بناناایک مشکل مرحلہ ہے حکومت کو چاہیے تھا کہ جیسے دو کی بجائے ایک روٹی کھانے کے مشورے دیے ویسے ہی اس رقم میں گزارہ کرنے کا گر بھی عوام کو سکھا دیا جاتا تو غریب عوام پر ان کا احسان عظیم ہوگا۔


عوامی ترقیاتی بجٹ میں دی گئی غریب عوام کو سہولتوں کے علاوہ حکومت کی اس بات پر تو تعریف بنتی ہے کہ مشکل حالات میں بھی ایک متوازن بجٹ پیش کرنے میں کامیاب ہوئی ،چاہے اس کے لیے کچھ چینی مافیاء کو منانے کےلیے انصاف کرنا پڑا یا عالمی مالیاتی ادارے کو منانا پڑا کہ بعد میں جو آپ کہوگے کر لیں ابھی کے لیے تو عوام کو خوشخبری دینے کی اجازت مرحمت فرما دیں۔اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ بھی کر دیا گیا یعنی اندازہ کریں کہ حکومت کو کتنی جلدی ہے کہ جلد سے جلد عوام کو ریلیف میسر ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :