روک سکو تو روک لو۔۔!

ہفتہ 5 جون 2021

Muhammad Kamran Khakhi

محمد کامران کھاکھی

ایک مالشی اپنے روزگار کی تلاش میں پارک میں موجود لوگوں کو آواز دے کر اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ایک کاٹن کے صاف ستھرے لباس میں موجود بارعب شخص نے اسے اپنی مالش کرنے کا کہا۔ مالشی بہت خوش ہوا کہ چودھری صاحب کی اچھے سے مالش کرونگا تو اپنی مزدوری کے ساتھ کچھ بخشش بھی مل ہی جائے گی۔ اس نے اپنی سائیکل کھڑی کی اور تیل کی شیشیاں اتار کر چودھری صاحب کی مالش کرنے میں مصروف ہو گیا، اتنی دیر میں ایک شخص وہاں آیا اور بڑے زور سے کہا "کیا حال ہیں چودھری صاحب؟ کیسے ہیں؟" ۔

چودھری نے کوئی جواب نہیں دیا اور اپنی آنکھیں بھی بند ہی رکھیں تو اس شخص نے کہا کہ چودھری جی میں ذرا کام سے جارہا ہوں یہ سائیکل لے کے جارہا ہوں آپ مالش کرائیں اور میں ابھی آیا۔

(جاری ہے)

مالشی سمجھا چودھری کا کوئی جاننے والا ہے تو وہ چپ رہا اور وہ شخص اس کی سائیکل لے کر چلا گیا۔کچھ دیر بعد مالشی نے کہا کہ چودھری صاحب وہ آپ کا جاننے والا آیا نہیں ابھی تک؟ چودھری نے کہا وہ میرا جاننے والا نہیں تھا پتہ نہیں کون تھا۔

مالشی کے تو ہوش ٹھکانے آ گئے اور وہ رونے لگا کہ چودھری جی وہ تو میری سائیکل بھی لے گیا۔ چودھری نے کہا اچھا رو مت چل میں تجھے نئی سائیکل لے کر دیتا ہوں۔ مالشی بہت خوش ہوا اور دل سے چودھری کو دعائیں دینے لگا کہ کتنا اچھا بندہ ہے۔ چودھری اسے لے کر سائیکل کی دکان پر گیا اورایک سائیکل پسند کر کے مالشی سےکہا کہ اسے چلا کر دیکھ لے ، ٹھیک ہے نا۔

مالشی نے چلا کر دیکھی اور کہا کہ چودھری جی باالکل ٹھیک ہے۔ چودھری نے کہا کہ تو بھی نا بالکل بے وقوف ہے مجھے لگتا ہے اس کا فریم کچھ ٹیڑھا ہے، لا میں چلا کر دیکھتا ہوں۔چودھری جی سائیکل لے کر نکلے اورپھر واپس نہیں آئے اور مالشی بے چارہ اپنی سائیکل کے ساتھ ایک نئی سائیکل کے پیسے دینے کا مقروض بھی ہوگیا۔ آج ہمارے حکمران بھی چودھری اوراس کے ساتھی جیسے ہیں اور عوام کی حالت اس مالشی جیسی ہے کہ جو ان کے بھلے کی تھوڑی سی بات کر دے یہ اپنے تن من دھن سے اسکی پوجا شروع کر دیتے ہیں اور پھر اس سے دھوکا کھانے کے بعد بھی کچھ عقل سے کام نہیں لیتے بلکہ پورے زور و شور سے اگلے حاکم کے گن گانے شروع کر دیتے ہیں۔


جب پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح تقریبا چھ فی صد کے قریب تھی تو اس وقت کچھ چودھریوں نے کہا کہ ہمارے ملک کے غریب عوام کو مقروض کر دیا گیا ہے اور ہر ایک شخص اتنے کا مقروض ہے او ریہ سب ان حکمرانوں نے کیا اوراپنے گھر کو بھرتے جا رہے ہیں اور ان کے اپنے اثاثوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ عوام نے اس آواز پر لبیک کہا اور پھر نئی سائیکل ملنے  کی خوشی میں عوام نے  چودھری صاحب کو حکومت میں لا کر بٹھا دیا۔

پھر کچھ عرصہ تو سائیکل چوروں کی خوب برائیاں ہوتی رہیں اور اسی اثناء میں معاشی ترقی کی شرح دھڑام سے منفی صفر اعشاریہ چار پہ جا پہنچی۔پچھلی حکومتوں کا اربوں روپیہ قرض واپس کرنے کے باوجود قرضہ پچاس فی صد تک بڑھ گیا ،ترقیاتی کام بالکل بند ہوگئے،مہنگائی آسمان کو چھونے لگی تو یہ سب پہلے والے چودھریوں کے کھاتے ڈالا گیا۔ پھر یوں ہوا کہ اچانک سے معاشی ترقی  کی شرح بڑھنے لگی اور صرف ایک ہفتے کے اندر اندر یہ دو اعشاریہ نو سے چار فی صد تک ہونے کی امید اجاگر کی جانے لگی ہے  اور وجہ بھی شاندار ہے کہ اس دفع فصل بہت اچھی رہی اور وہ بھی گندم کی مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اب آٹا بھی سستا ہو جائےگا۔

گنا بھی ہمارے اندازے سے زیادہ پیدا ہوگیا مگر چینی کی قیمت کم ہونے کی اگر امید ہے تو مت رکھیں کیونکہ چینی اسی قیمت پر ہی ملے گی۔غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہوا جس سے روپیہ مستحکم ہوا مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اب روزگار کے مواقع بھی پیدا ہو جائینگے۔بلکہ بے روزگاری میں روز بروز اضافہ ہوتا جائے گا۔کاٹن کی پیداوار میں ریکارڈ کمی کے باوجود ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری مضبوط ہوئی ہے اور کپڑا مزید مہنگا ہوا جاتا ہے۔


کسی بھی گھر میں اگر اولاد میں سے کوئی نالائق  نکل آئے تو  اسے  بار بار طعنے ملتے ہیں کہ کچھ کرتا نہیں، مفت کی کھانے کی عادت پڑچکی ہے، آوارہ گردی سے فرصت ملے تو کچھ کرے نا، کھانے کو مل رہا ہے تو ہاتھ پاوں چلانے کی کہاں سوچے گا، دیکھ ذرا فلاں کو ،کیسے دن رات محنت کر کے اپنے گھر والوں کا پیٹ پال رہا ہے، اپنے بوڑھے ماں باپ کا احساس ہی نہیں وغیرہ وغیرہ۔

اگر اس میں کچھ شرم ہوتو محنت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور آخر کچھ کمانا شروع کر دیتا ہے ورنہ  تنگ آ کر یا تو وہ ڈھیٹ بن جاتا ہے، یا بدمعاشی شروع کر دیتا ہے یا بلند و بانگ دعوے کرنا شروع کر دیتا ہے۔کچھ یہی حال ہماری حکومت کا بھی ہے کہ ہر طرف نااہلی کے شور اور پچھلی حکومتوں میں کیے گئے ترقیاتی کام ان کے لیے عذاب بنے ہوئے ہیں۔  اسی لیے کبھی پچھلی حکومتوں کے شروع کردہ کاموں پہ اپنی تختی لگا کر دل کو تسلیاں دیتے ہیں کبھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام بدل کے احساس رکھ لیتے ہیں اورلوگوں کو بتانے پر مجبور ہوتےہیں کہ یہ میرا پروگرام ہے اور کبھی بلند و بانگ دعوے کہ ہماری بہترین کارکردگی سے اتنا فائدہ ہوا۔

ہماری حکومت میں پہلی دفعہ عوام نے تاریخی اخراجات کیے اب یہ کون بتائے کہ ایک روپے کی چیز اگر دس روپے کی ہوگی تو خرچہ بڑھے گا ہی نا ،  آئی ۔پی۔پیز سے معاہدہ ہوا اربوں روپے کا عوام کا فائدہ ہوا مگر بچلی  کی قیمت ہر پندرہ دن، مہینہ بعد بڑھ جاتی ہے۔کسی مافیا کو نہ چھوڑنے کے دعوے  اور مافیا مضبوط تر ہوتا گیا بلکہ کھلے عام عوام کی جیبوں پہ ڈاکا ڈالا جانے لگا اور کوئی پوچھنے والا نہیں ۔

کسی کو این۔آر ۔او نہیں دونگا مگر اپوزیشن کے کیس کی پیروی کرے تو نیب یا ایف آئی اے اور اگر اپنی پارٹی کا کوئی کرپٹ ظاہر ہو جاتا ہے تو اسکی تفتیش اپنی ہی پارٹی کے سسینیٹر کے سپرد کر دی جاتی ہے، اور اگر کوئی حکومتی وزیر ہو تو اسکی وزارت بدل دی جاتی ہے۔ پہلے حکومتوں میں مشیروں کے ناموں سے کوئی واقف نہیں ہوتا تھا مگر یہ پہلی حکومت ہے جس میں حکمرانی وزیروں کی بجائے مشیروں کے سپرد کی گئی ہے۔

ہر مشیر اپنے اپنے حصے کی کمائی کرتا ہے اپنے محکمے کا بیڑہ غرق کرتا ہے اور استعفی دے کر پورے طمطراق کے ساتھ نیک نامی سے علیحدہ ہو جاتا ہے ۔بجٹ پاس کرانے کے لیے بھی عالمی مالیاتی ادارے کی اجازت کی ضرورت ہے۔خود پسندی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اب تو دھڑلے سے کہا جاتا ہے کہ عوام مرتی ہے تو مرے مگر ہم تن کے پانچ سال پورے کریں گے اور اگلے پانچ سال بھی حکومت ہماری ہی ہوگی۔روک سکتے ہو تو روک لو۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :