کوئی بھوکا نہ سوئے

ہفتہ 24 اپریل 2021

Muhammad Kamran Khakhi

محمد کامران کھاکھی

ایک انصاری نبی  اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس مانگنے کے لیے آیا، آپ نے پوچھا : کیا تمہارے گھر میں کچھ نہیں ہے؟، بولا: کیوں نہیں، ایک کمبل ہے جس میں سے کچھ ہم اوڑھتے ہیں اور کچھ بچھا لیتے ہیں اور ایک پیالہ ہے جس میں ہم پانی پیتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ دونوں میرے پاس  لے آو، چنانچہ وہ انہیں آپ کے پاس لے آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ میں لیا اور فرمایا: یہ دونوں کون خریدے گا؟، ایک آدمی بولا: انہیں میں ایک درہم میں خریدتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ایک درہم سے زیادہ کون دے رہا ہے؟، دو بار یا تین بار، تو ایک شخص بولا: میں انہیں دو درہم میں خریدتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وہ دونوں چیزیں دے دیں اور اس سے دو درہم لے کر انصاری کو دے دیے اور فرمایا: ان میں سے ایک درہم کا غلہ خرید کر اپنے گھر میں ڈال دو اور ایک درہم کی کلہاڑی لے آو، وہ کلہاڑی لے کر آیا تو آپ نے اپنے ہاتھ سے اس میں لکڑی ٹھونک دی اور فرمایا:جاو لکڑیا ں کاٹ کر لاو اور بیچو اور پندرہ دن تک میں تمہیں یہاں نہ دیکھوں، چنانچہ وہ شخص گیا، لکڑیاں کاٹ کر لاتا اور بیچتا رہا، پھر آیا اور دس درہم کما چکا تھا، اس نے کچھ کا کپڑا خریدا اور کچھ کا غلہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"یہ تمہارے لیے بہتر ہے اس سے کہ قیامت کے دن مانگنے کی وجہ سے تمہارے چہرے میں کوئی داغ ہو"، مانگنا صرف تین قسم کے لوگوں کے لیے درست ہے: ایک تو وہ جو نہایت محتاج ہو، خاک میں لوٹتا ہو، دوسرے وہ جس کے سر پر گھبرا دینے والے بھاری قرضے کا بوجھ ہو، تیسرے و ہ جس پر خون کی دیت لازم ہو اور وہ دیت ادا نہ کر سکتا ہو اور اس کے لیے سوال کرے۔

(جاری ہے)


 [ ابوداود: 1641]
چونکہ پاکستان پر اس وقت گھبرا دینے والے قرضے کا بوجھ ہے اور گھبرانا بھی منع ہے اس لیے اس بوجھ کو ہلکا کرنے کی بجائے ہم اور قرض لیں گے اور پاکستانی عوام کی خودمختاری کو بھی ریاست کے ہاتھوں گروی رکھ کر ریاست کو عالمی مالیاتی ادارے اور ورلڈ بینک کا محتاج کریں گے مگر اپنی عوام کو بھوک سے نہیں مرنے دیں گے۔کاروبار و روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے آمدن میں اضافہ ہو نہیں سکتا اسی لیے ہم اپنے اداروں اور ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کو گروی رکھ کر اپنی آمدنی میں بھی اضافہ کریں  گے اور ان اداروں اور ذخائر کو سنبھالنے کے جھنجھٹ سے آزادی بھی حاصل کرلیں گے۔

ان دو لائنوں پہ اس وقت ہماری حکومت گامزن ہے۔
  وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان نے ُکوئی بھوکا نہ سوئے " پروگرام میں وسعت دینے کی تقریب میں شرکت فرمائی اور ارشاد فرمایا " جب ریاست کی طرف سے غریب روٹی کھائیں گے تو پاکستان میں برکت آئے گی"موجودہ تبدیلی حکومت کے تین سال میں جو اعلی پائے کے کارنامے ہیں ان میں "احساس پروگرام""مسافر خانہ" اور" لنگر خانہ" سر فہرست ہیں جو کہ مکمل طور پر غریب کی بھلائی کو مد نظر رکھتے ہوئے بنائے گئے حکومت کے منصوبے ہیں۔

ایسا مزدور طبقہ جو اپنی روزی روٹی کے چکر میں کسی بڑے شہر میں آتاہے اور نہ ہی کوئی کام ملتا ہے اورنہ ہی رہنے کو جگہ تو ان کے لیے مسافر خانہ رہنے کے لیے اور لنگر خانہ کھانے کے لیے حکومت کی طرف سے مل جائے تو اس سے بڑی نعمت کیا ہوسکتی ہے۔اسی لنگر خانہ کو وسعت دے کر "کوئی بھوکا نہ سوئے" کے نام سے ایک منصوبہ شروع کیا گیا کہ جس میں کچن ٹرک متعارف کرائے گئے جو کئی جگہ پر لوگوں کو مفت کھانا مہیا کریں کریں گے مگر کوئی نوکری یا کام کے بارے میں سوال نہ کرے کہ اس کے لیے حکومت کے پاس نہ ہی کوئی پیسہ ہے اور نہ ہی کوئی منصوبہ اس لیے چپ چاپ لنگر کھاو اور مسافر خانے میں سو جاو اور اللہ تعالی کی عبادت کرو کہ پیدا ہونے کا مقصد ہی عبادت خدا ہے اور یہ پاکستان کی واحد حکومت ہے جو آپ کو پورا پورا موقع دے رہی ہے اپنے رب سے ناطہ جوڑنے کا ،آپ کے کھانے اور رہنے کی ضروریات کو پورا کرکے۔

رکن صوبائی اسمبلی جناب معاویہ اعظم طارق کی یہ بات میرے دل کو لگی کہ ان پروگرامز کو اگر شروع ہی کرنا تھا تو مساجد سے کرتے۔ کتنی مساجد و مدرسوں میں غریب طلباء دو وقت کی روٹی کو ترستے ہیں ان اللہ کے مہمانوں کے لیے بھی بندوبست ہو جاتا اور خلق خدا کو بھی کھانا مل جاتا اور اس کے ساتھ مسجد میں جانے کا شوق بھی پروان چڑھتا جن سے مسجدیں بھی آباد ہو جاتیں اور ان بے آسرا لوگوں کو کچھ اصلاحی باتوں کی تعلیم بھی دی جاتی۔

جیسے کہ حکومت مساجد کی رجسٹریشن کرکے ان کے بارے میں معلومات تک رسائی کی خواہشمند بھی ہے تو یہ مقصد بھی بلا کسی حیل و حجت کے پورا ہو جاتا۔اختلاف رائے رکھنا ہر کسی کا حق ہے مگر میرے خیال میں بھی مساجد سے بہتر ان تینوں منصوبوں کے لیے کوئی اور جگہ مناست نہیں تھی جہاں ان لوگوں کو یہ بھی سمجھایا جاتا کہ بس یہی زندگی نہیں  کہ کھاو پیو اور سو جاو بلکہ کلہاڑی سے لکڑیاں بھی کاٹنی پڑیں گیں ، انہیں بیچنا بھی پڑے گا ، اپنے اور اپنے خاندان کے لیے رزق حلال بھی کمانا پڑے گا  ،اس طرح  برکت کے ساتھ اللہ تبارک و تعالی کی رحمت بھی برسے گی پاکستان پر اور ایک اچھے معاشرے کی شروعات بھی ہو جائے گی ، ملکی آمدنی میں اضافہ بھی ہوگا اور زرمبادلہ کے ذخائر بھی بڑھیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :