بدلا ہے خیبر پختونخواہ

بدھ 9 جون 2021

Muhammad Kamran Khakhi

محمد کامران کھاکھی

خیبر پختونخواہ والوں نے تو تبدیلی کی ڈبل ڈوز لی ہے یعنی پچھلے نو سال سے وہاں پر تبدیلی سرکار راج گدی پر براجمان ہے اور اسی کو ماڈل بنا کر پورے پاکستان میں یہ اشتہارات چلائے گئے کہ "بدلا ہے خیبر پختونخواہ، بدلیں گے پاکستان"، "اگر خیبر پختونخواہ تو پاکستان کیوں نہیں" وغیرہ۔ان پانچ سالوں میں  خیبر پختونخواہ میں تو تبدیلی سرکار نے دودھ کی نہریں بہا دیں ،اسی لیے دوبارہ جیت سکے اور اب ان نہروں سے پورا پاکستان مستفید ہو رہاہے۔

خیبر پختونخواہ میں توپانچ سالوں میں  350 ڈیم بنا دیے گئے جن کی وجہ سے آج پورا ملک سیراب بھی ہورہا ہے اور بجلی بھی پورے پاکستان کو مل رہی ہے اور سب سے بڑھ کر پورے ایک ارب درخت لگا کر تبدیلی سرکار نے خیبر پختونخوا کو ہر بھرا بھی تو کیا ہے جو کہ پاکستان کی تاریخ میں کسی اور صوبائی تو کیا وفاقی حکومت نے بھی نہیں کیا اور اب مخالفین کو اس میں بھی کرپشن نظر آتی ہے تو آتی رہے کیونکہ تمام ادارے تو ایک پیج پہ ہیں اور دوسرا پیج ہم کسی کو دیکھنے نہیں دینگے۔

(جاری ہے)

اس لیے الزامات ، الزامات ہی رہیں گے۔
انہی پانچ سالہ صوبائی حکومتی سالوں میں خیبر پختونخواہ میں صحت کے محکمہ میں انقلاب برپا ہو گیا اور محکمہ صحت اتنا ترقی کر گیاکہ بیمار علاج کرا کے خوش اور معالج علاج کر کے، سب کو ایک خوشگوار اور شاندار زندگی ملی تو تبدیلی سرکار کی وجہ سے اور یہی خوشگوار تبدیلی پنجاب میں بھی لانے کی کوشش کی گئی جو ابھی تک نہیں لائی جاسکی مگر لائیں گے ضرور کیونکہ تبدیلی ہی تو ہمارا عزم ہے۔

اس ترقی اور خوشحالی  کی روشنی سے چندھیائی آنکھیں جب کچھ دیکھنے کے قابل ہوئیں تو  لیڈی ریڈنگ پشاور کے ساتھ باقی صحت کے شعبوں  کی حالت کا ادراک ہوا  مگر تب تک تو  چڑیاں کھیت چگ چکی تھیں۔او روہی ڈاکٹر جو کبھی تبدیلی سرکار کے گن گاتے نہیں تھکتے تھے پورے ملک میں تبدیلی کے کرشموں کو ظہور پذیر ہوتا دیکھ کر پتہ نہیں کیوں سڑکوں پہ آگئے۔

مجھے تو لگتا ہے وہ یہ نہیں چاہتے ہونگے کہ پورا ملک ان کرشموں سے سرفراز ہوسکے جو پانچ سال میں خیبر پختونخواہ میں ظہور پذیر ہوئے تھے ، اب یہ تو تعصب ہے نا اس لیے ان کے ساتھ بڑی سختی سے نمٹنا ضروری تھا۔
ایک اور کرشمہ جو پانچ سالہ صوبائی حکومت کے دوران تبدیلی سرکار نے دکھایا وہ تھا تعلیم کے شعبہ میں بے پناہ ترقی۔صرف پانچ سالوں میں کئی سکول بنانے کے علاوہ لاکھوں ان بچوں کو سکولوں میں داخلہ ملا جو سکول نہیں جاتے تھے۔

لوگوں نے اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں سے نکال کر سرکاری سکولوں میں داخلہ دلوایا کیونکہ سرکاری سکولوں میں تبدیلی آچکی تھی مگر  یہ نیک کام بھی کچھ لوگوں کو پسند نہیں آیا اور تحقیقاتی ٹیم نے الزام عائد کیا  کہ کئی داخلے اور سکول دونوں ہی صرف کاغذوں میں ہیں جن کا حقیقت سے تعلق نہیں مگر پھر اسے بھی ہم نے دوسرے پیج پر دھکیل دیا تاکہ بات زیادہ لوگوں تک نہ پہنچ سکے۔

ایک اور کارنامہ خیبر پختونخواہ پولیس کو عوام دوست بنانا تھااور اس میں اتنی کامیابی ملی کہ وفاق کی حکومت ملتے ہی ہم نے وہاں کا آئی۔جی ، پنجاب میں لگا دیا تاکہ جس طرح خیبر پختونخواہ  پولیس ایک مثالی پولیس بن چکی تھی اسی طرح پنجاب پولیس کو بھی بنایا جائے مگر پانچ سے زیادہ آئی ۔جی بدلنے کے باوجود بھی کوئی خاطر خواہ نتائج نہیں مل سکے۔


اب آپ لوگ سوچ رہے ہونگے کہ میری ان سب باتوں کو بیان کرنے کی وجہ کہ یہ سب تو ہم جانتے ہوئے بھی فراموش کر چکے توپھر سے بتانے کی کیا ضرورت ہے تو اسکی وجہ خیبر پختونخواہ میں فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن کی طرف سےکے۔پی۔کے  اسمبلی کے سامنےاحتجاج اور اس پر پولیس تشدد ہے۔ہوا کچھ یوں کہ جب ترقی یافتہ محکمہ تعلیم کے۔

پی۔کے کی  یونیورسٹیز کے سٹاف نےاپنے مطالبات کے لیے احتجاج کیا تو ان پر مثالی کے ۔پی ۔کے پولیس نے تشدد کر کےمنتشر کر دیا اور میڈیا خاموش تماشائی بنا رہا۔  یہ ایک انتہائی قابل مذمت حرکت ہونے کے باوجود نہ کسی اپوزیشن والے نے اس کی مذمت کی اور نہ کسی حکومتی وزیر /مشیر نے کوئی ہمدردانہ رویہ اپنایا۔ کئی پی۔ایچ۔ڈی اساتذہ کہ جن سے کئی طالب علموں نے علم جیسی نعمت حاصل کی، ان کے ساتھ ایسا رویہ ناقابل برداشت ہے۔

پنجاب میں اس واقعہ پر یوم سیاہ منایا گیا اور ایف۔اے۔پی۔یو۔اے۔ایس۔اے  کے صدر جناب ڈاکٹر عبدلستار ملک اور جنرل سیکٹری ڈاکٹر احتشام علی  نے اس موقع پر کہا  کہ پنجاب فیڈریشن بھی خیبر پختونخوا فیڈریشن کے ساتھ ہے اور یہ مطالبہ کیا کہ گورنمنٹ نے جو اساتذہ کے الاونس کم کرنے کا حکم نامہ  جاری کیا ہے اسے فی الفور واپس لے اور صوبائی ایچ۔

ای۔سی کا قیام عمل میں لایا جائے۔تعلیمی بجٹ کم کرنے کی بجائے اس میں اضافہ کیا جائے اور اگر حکومت نے خیبر پختونخواہ کی یونیورسٹیوں کی آزادی میں مداخلت بند نہ کی تو پھر پورے پاکستان میں احتجاج  کیا جائے گا اور یونیورسٹی کے اساتذہ اپنے حق کے لیے ہر قانونی ہربہ استعمال کریں گے۔
اسلام آباد میں احتجاج کرتے طلبا ء کے ساتھ جو ہو رہا ہے قابل مذمت تو وہ بھی ہے کہ جب پڑھائی آن لائن ہوئی تو امتحانات بھی آن لائن کیوں نہیں؟ مگر جو قوم اپنے معماروں کے ساتھ ایسا برتاو کرے جو کہ ایک مثالی صوبہ میں کیا گیا اور اس پر کوئی آواز بھی نہ اٹھے تو سمجھ جانا چاہیے کہ ہم زندہ نہیں بلکہ ایک مردہ قوم ہیں ، ہم اپنے مستقبل کو روشن نہیں بلکہ تاریک کرنے کی تگ و دو میں لگے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :