طویلے کی بلاء،بندر کے سر

منگل 20 اکتوبر 2020

Muhammad Kamran Khakhi

محمد کامران کھاکھی

دور جہالت میں لوگوں میں توہم پرستی عام تھی تو لوگوں کا خیال تھا کہ جب بھی کوئی بلا آتی ہے تو طویلے میں موجود بھیڑ،بکریاں،گائے،گھوڑے وغیرہ پر گرتی ہے جسکی وجہ سے وہ مر جاتے ہیں۔ انہوں نے اس کا یہ حل نکالا کہ طویلے میں بندر کو باندھ دیتے تاکہ قیمتی جانور بچ جائیں اور بندر کی قربانی ہو جائےکیونکہ بلا کو کسی بھی جانور کی قربانی چاہیے ہوتی ہے ۔

اس طرح وہ قیمتی جانور کو بچانے کے لیے بندر کی قربانی دے دیتے۔پھر اس میں بھی تبدیلی آئی اور بندر کی بلاء ،طویلے کے سر ہو گئی یعنی الٹ معنی دونوں کا ایک ہے کہ قصور کسی کا اور سزاوار کوئی اور ٹھہرا، یا کرے کوئی اور بھرے کوئی، امیر کو بچانے کے لیے کسی غریب کی قربانی وغیرہ وغیرہ۔ تبدیلی تو شروع سے ہی کسی چیز کے الٹ ہونے کا نام ہے ،اور اس وقت ملک میں ہر چیز الٹ ہی ہو رہی ہے تو آج لوگ تبدیلی لانے والوں سے اتنے نالاں کیوں ہیں؟
ہمارے آج کے حکمرانوں نے بھی ہر مصیبت کا حل یہ نکالا ہے کہ جو بھی اچھا ہو رہا ہے وہ ہماری وجہ سے ہو رہا ہے اور جو بھی برا ہو رہا ہے اس کی پوری ذمہ دار اپوزیشن یا پہلے والے حکمران تھے۔

(جاری ہے)

ملک میں مہنگائی ہو رہی ہے تو پچھلے حکمران اور موجودہ اپوزیشن اس کی ذمہ دار ہے اور اگر پچھلے حکمرانوں کے لگائے پروجیکٹ کوئی منافع دے رہے ہیں تو وہ ہماری قابلیت ہے جیسے قائد اعظم سولر پاور پروجیکٹ وغیرہ۔اور چیخ چیخ کر بتایا جاتا ہے کہ دیکھو یہ موٹر وے ، اورنج لائن پچھلی حکومت نے بنائی تو آج اتنا ملک کو خسارہ دے رہی ہے مگر اس کو پوری طرح چلا کر ،سروس اسٹیشن بنا کر،اسے منافع بخش نہیں بنانا کہ نام تو پچھلی حکومت کا ہوگا اس لیے رہنے دو۔

پہلے ہم نے جلوس اور دھرنے دیے تو وہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے تھے اور اب جو اپوزیشن دو سال کی خاموشی کے بعد جلسے کرنے لگی ہے تو ملک کی ہوتی ترقی میں رکاوٹ بن رہی ہے۔یہ ترقی کون سی ہے اس کا علم بھی صرف حکمرانوں کو ہی ہے عوام اس سے لا علم ہیں۔
حکمرانوں کی اہلیت کا معیار تو یہ ہے کہ ملک میں گندم کی پیداوار ہوئی تو وزیروں نے کابینہ میٹنگ میں کہا کہ  ضرورت سے زیادہ  ہو گئی ہے، برآمد کردینی چاہیے،  جب برآمد کر دی تو بعد میں پتہ چلا کہ گندم تو اپنے لیے بھی نہیں بچی اور مہنگی بھی ہو گئی تو کوئی بات نہیں دوبارہ سے مہنگے داموں خرید کر درآمد کرنے کا فیصلہ ہو گیا۔

یہی حال چینی کا  بھی ہوا اور بتانے والے بھی  حکومتی وزیر یعنی کوئی شرمندگی نہیں مگر دعوے بلند و بانگ کہ جیسے دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں۔کرونا وباء آئی تو دوائیوں کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں  اور عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو گئیں اور مشیر صحت موصوف صاف دامن بچا کر نکل جانے میں کامیاب ہوئے اور ایک بار پھر ہم نے دوائی مہنگی کر دی تاکہ عوام کو مل تو سکے مہنگی ہی سہی۔

گیس کی کمپنی کو نقصان ہو رہا ہے  تو اس کے اخراجات پورے کرنے کے لیے بوجھ عوام پہ ڈال دو، بجلی کمپنی کو نقصان ہو رہا ہے تو بوجھ عوام پہ ڈال دو، پٹرول عالمی سطح پر مہنگا ہوا تو عوام کے لیے بھی مہنگا اور عالمی سطح پر سستا ہوا اور کوئی لینے والا نہیں تو سرکاری خزانہ خالی ہونے کا بہانہ بنا کر لیوی بڑھا دو مگر سستا نہیں کرنا ، بوجھ عوام پہ ہی ڈالنا ہے۔


سچ تو یہ ہے کہ موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے جو وعدے عوام سے کیے تھے اگر ان کا صرف دس فی صد ہی نبھا دیتے تو آج اپوزیشن کو سڑکوں پہ آنے کی جراءت ہی نہ ہوتی اور عوام حکومت کے ساتھ ہوتی مگر انہوں نے  جو وعدے کیے تھے ، حکومت میں آ کر ان کےالٹ  عمل کیا ۔یہی وجہ ہے کہ آج سرکاری ملازم،تاجر،وکیل،ڈاکٹر سب سڑکوں پہ ہیں اور مزدور دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے جب کہ حکومتی ارکان سب اچھا ہے کی رٹ لگائے ہوئے ہیں اور میڈیا  پوری ایمانداری سے حکومتی ترجمانی کے فرائض سر انجام دے رہا ہے۔


اپوزیشن دو سال عوام کا بیڑہ غرق ہونے کا انتظار کرتی رہی اور اپنی جان چھڑانے کی کوشش میں مگن رہی مگر جب کچھ نہ بن پڑا تو عوام کی پسماندگی اور بڑھتی مہنگائی کی دہائی دیتے میدان میں اتر پڑے۔عوام اس وقت کسی بھی مسیحا کے انتظار میں ہے ،اس لیے کوئی کالا چور بھی ان  کے حق کی لڑائی لڑے گا تو عوام اس کا بھی ساتھ دینے پہ رضا مند ہو جائے گی۔

بڑے بڑے مگر مچھوں نے کرپشن کی اور ملک کا دیوالیہ نکال دیا ، وہ پیسے ملک سے باہر لے جا کر غائب کرتے تھے اور یہ  پیسہ ملک میں واپس لاتے ہیں مگر نہ جانے کیسے وہ پھر بھی غائب ہی ہو جاتاہے  اور پتہ بھی نہیں چلتا۔ ابھی تو تبدیلی شروع ہی ہوئی ہے اور عوام کی چیخیں نکل گئیں ہیں ، دراصل یہ عوام بھی کرپشن کی عادی ہو چکی تھی اس لیے چیخ رہے ہیں ایک غریب آدمی بھی رونے لگ جاتا ہے کہ حکومت کچھ نہیں کر رہی ، بھلا اس کی کیا اوقات کہ حکمرانوں پہ نکتہ چینی کرے، دیکھتے نہیں کہ سال میں ایک دفعہ وزیراعظم صاحب بھی کھانا پناہ گاہ یا لنگر خانہ سے کھاتے ہیں اور تنخواہ میں گزارہ تو ملک کے وزیر اعظم کا بھی نہیں ہوتا مگر وہ تو نہیں چیختے اور نہ ہی روتے ہیں وہ تو اتنی عمر ہونے کے با وجود بھی ڈٹ کے تمام مافیا ء کا مقابلہ کر رہے ہیں اور اس لڑائی میں مافیاء بھی ان کے ساتھ ہے  یقین نہیں تو چینی پہ بنی کمیشن رپورٹ ملاحظہ فرما لیں۔

حاکم کی اطاعت کا حکم ہے  اور یہ تو عوام  ہی کی منتخب حکومت ہے اس لیے محبت کا رشتہ قائم رکھنا چاہیے اور یہ عمل دونوں طرف سے ہونا چاہیے پھر ہی مضبوط ہو گا مگر ہمارے ملک میں  تو یہ رشتہ ہمیشہ ہی نفع کی بنیاد پہ بنا اور نقصان ہونے کی صورت میں ٹوٹ گیا۔ذیل حدیث غور طلب ہے ، باقی فیصلہ آپ کا:
" تمہارے بہترین حکمران وہ ہیں جن سے تم محبت کر و اور وہ تم سے محبت کریں، تم ان کے لیے دعا کرو اور وہ تمہارے لیے دعا کریں اور تمہارے بد ترین حکمران وہ ہیں جن سے تم بغض رکھو اور وہ تم سے بغض رکھیں،تم ان پر لعنت کر و اور وہ تم پر لعنت کریں۔"
(صحیح مسلم: حدیث نمبر1855 انٹرنیشنل)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :