شکست خوردہ ذہنیت

جمعرات 5 نومبر 2020

Muhammad Kamran Khakhi

محمد کامران کھاکھی

ایک  دفعہ ایک بادشاہ اپنی والدہ کے ساتھ جوا کھیلنے لگا۔ کھیل بہت آسان تھا ، ایک پانسہ تھا جس پر ایک سے لے کر چھ تک ہندسے لکھے ہوئے تھے ، ایک نمبر بادشاہ لے لیتا اور اور ایک اسکی والدہ پھر پانسہ پھینکا جاتا اگر دونوں نمبر نہ آتے تو کھیل برابر اور اگر بادشاہ کا نمبر آجاتا  تو والدہ اسے شرط پر لگی رقم دے دیتی اور اگر والدہ کا نمبر آجاتا تو بادشاہ شرط پر لگایا گیا ایک غلام ہار جاتا جسے محترمہ کی جیت کی خوشی میں شوقیہ ذبح کر دیا جاتا اس طرح  کئی غلام بے موت مارے جاتے۔

ایک اور بادشاہ کو نہ جانے کیا سوجھی کہ اس نے تیر اندازی کی مشق کے دوران تختہ مشق کی جگہ ایک لڑکے کو کھڑا کر دیا  اور اس کے باپ کی آنکھوں کے سامنے اس کا نشانہ لے کر اسے مار دیا اور اس کا باپ بادشاہ کے قدم چوم کر اسکی نشانہ بازی کی مبارک باد دیتا ہے، زبر دست مارتا ہے اور رونے بھی نہیں دیتا۔

(جاری ہے)


اس طرح کے کئی واقعات ہم نے پڑھ رکھے ہیں اس لیے جب بھی بات غلامی کی آتی ہے تو ہمیں یہی سوجھتا ہے کہ غلاموں کی منڈی ہوتی تھی اور اس میں غلام بکتے تھے جو جسمانی لحاظ سےاور ذہنی لحاظ سے اپنے خریدار کے پابند ہو تے تھے۔

خاندان غلاماں نے حکمرانی بھی کی مگر اب سلاطین کا دور نہیں رہا اور اس کے ساتھ ہی غلامی بھی ختم ہو گئی مگر کیا واقعی غلامی اپنی موت آپ مر گئی؟۔ میرا خیال ہے کہ انسانوں کے سیاسی، معاشی،ثقافتی، ذہنی  اور تمدنی تغیر کے ساتھ غلامی نے بھی اپنی ہیئت بدل لی ہے۔
دنیا میں کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور اس میں ایک یہ بھی تھی کہ انسان اپنے آپ کو آزاد تصور کرے مگر اس کے پاوں میں نہ دکھنے والی زنجیر ہو، اس کے گرد نہ محسوس ہونے والا پنجرہ ہو اور اس پر جو ظلم کیے جائیں وہ انہیں تقدیر کے کھاتے میں ڈال دے اور ظالموں کو  نہ صرف بے قصور مانے  بلکہ انہیں اپنا مسیحا گردانے۔


مسلمان جب تک ذہنی طور پر آزاد تھے اپنے فیصلے خود کرتے تھے ، دنیا پر حکمرانی کرتے تھے ، اسلام کو دنیا کے کونے کونے تک لے کر پہنچے۔مگر پھر انگریزوں نے انہیں اپنا غلام بنا لیاجس کے خلاف پوری ایک صدی مسلمان جدوجہد کرتے رہے مگر پھر اگلی صدی میں ان کی آنیوالی نسل  نے پوری طرح غلامی کو اپنا مقدر گردان کر ،اپنے آقاوں کو خوش کرنے میں لگ گئی۔

وہ پڑھ لکھ کر انگریزوں کے نوکر بھرتی ہونے پر فخر کرنے لگے اور اپنے آپ کو دوسروں سے برتر و اعلی تصور کرنے لگے۔ کچھ لوگ غلامی سے آزادی کے لئے جدوجہد کرتے ہیں اور کچھ لوگ غلامی کی شرائط کو بہتر بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ آج ہم دوسرے طبقہ کے لوگوں میں رہتے ہیں جو اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ دیکھو ہمارا مطالبہ مان لیا گیا اور ہماری غلامی میں مزید بہتری آ گئی۔


کتنا آسان ہے تائید کی خُو کر لینا
کتنا دشوار ہے اپنی کوئی رائے رکھنا
ایسی غلامی کو ذہنی غلامی کہتے ہیں ، جسمانی غلامی اتنی خطرناک نہیں ہوتی جتنی ذہنی غلامی ہوتی ہے ۔جسمانی غلامی سے تو آزادی مل سکتی ہے لیکن ذہنی غلامی نسلیں برباد کر دیتی ہے۔ ذہنی غلامی ان رویوں کا باعث بنتی ہے جو غلامی کی زنجیروں کو اور مضبوط کرتی ہے۔

انگریز بڑی ذہین قوم تھی اور انہوں نے یہ ذہانت ہمارے ہی علمی سرمائے سے حاصل کی جسے ہم نے پس پشت ڈال دیا۔ ایک صدی میں انہوں اس بات کا مکمل بندوبست کر دیا کہ اگر ہماری حکمرانی ختم بھی ہو جائے تو ہم اپنے ایسے ذہنی غلام پیدا کر جائیں جو یہاں سے کما کر ہمیں ہمارے گھر میں سرمایہ بھیجتے رہیں۔ اور اس کے لیے انہوں نے یہاں کی اقلیت کو امیر تر بنا دیاکیونکہ اقلیت ہونے کے ناتے وہ اپنے زیادہ سرمایہ کو یہاں غیر محفوظ سمجھ کر ہمارے پاس جمع کرائیں گے اور یہی ہوا بھی کیوں کہ کراچی جو کبھی پارسیوں کی جنت تھا اور وہ امیر ترین اقلیت تھے مگر اب وہاں چند گھر انے ہی بچے ہیں باقی سب اپنا مال سمیٹ کر اپنے آقاوں کے پاس لے گئے۔


اسی طرح یہاں کی اکثریت کو یہ یقین دلا دیا کہ ان کے بہترین مستقبل کے لیے انگریز کا قانون کتنا ضروری ہے۔اگر تم نے ترقی کرنی ہے تو ہماری غلامی میں ہی ہو سکتی ہے۔انگریزوں  نے ہم پر احسان کیا کہ بنک کا نظام ، سود کا نظام، عدالتی نظام، قانون سب وہ ہمیں دے کر گئے اور ہم نے انہیں سرمایہ حیات بنا کر آج تک سینے سے لگایا ہوا ہے۔ ہم اسی میں اپنی نجات مانتے ہیں اور جو نظام خالقِ کائنات نے ہمیں دیا اسے ہم نے پس پشت ڈال دیا  کہ وہ جدیدیت پر پورا  نہیں اترتا۔

اس سے بدتر غلامی کی مثال شاید ہمیں تاریخ کے اوراق میں بھی نہ ملے جس غلامی میں ہم لوگ جی رہے ہیں۔بظاہر ہمارا ملک آزاد ریاست، اسلام کا قلعہ ہے مگر غلامی کی نادیدہ  زنجیروں سے لپٹے اور اسلام  کی اصل سے نا بلد لوگوں کا ایک مجموعہ ہے جو اسلام کے نام پر جان تو دے سکتے ہیں مگر اسلام نافذ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے ، کیوں کہ اس سے انگریز بہادر جو ناراض ہو جائیں گے۔

  کہتے ہیں کہ غلامی کی بدترین شکل وہ ہے،جب غلاموں کو اپنی زنجیروں سے پیار ہو جائے اور ہمیں تو عشق ہے صاحب ان زنجیروں سے اسی لیے تو ہم ہر اچھے کام کی مثال کے لیے انگریزوں کو دیکھتے ہیں اور ہر برائی کو مسلمان کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔اسی لیے تو ہمارے معاشرے میں یہ جملہ کثرت سے سنا جاتا ہے کہ "ڈاڈھے نال  پنگا نئی لینا، اسی ماڑے لوگ آں" مطلب کیا ضرورت تھی ان سے لڑائی مول لینے کی، وہ طاقتور لوگ ہیں اور ہم غریب، ہمارا ان کا کیا مقابلہ۔

یعنی طاقتور کے آگے کھڑے نہیں ہونا ، لڑنے سے پہلے ہی ہار مان لینا اور غریب پر اپنی زور آزمائی دکھا کر  بہادری کی مثال قائم کر دینا۔ یہی ہماری تعلیم ہے، یہی ہماری حکومت ہے ، یہی ہماری معاشرت ہے اور یہی ہماری اصل۔ایسے علوم، ایسی دانش اور تدبیر اور ایسی حکومت سازی کبھی نہیں پنپ سکتی جو غریب کا لہو چُوس کر استوار کی جائے۔ جس کے تحت نعرے تو مساوات کے بلند کیے جائیں لیکن عملی طور پر غریب کو غریب تر بنا دیا جائے اور وہ جیتے جی مر جائے۔

اسی لیے ہم ترقی پذیر سے کبھی ترقی یافتہ نہ بن سکے۔
اندھیرے چاروں طرف سائیں سائیں کرنے لگے
چراغ ہاتھ اٹھا کر دعائیں کرنے لگے
ترقی کر گئے بیماریوں کے سوداگر
یہ سب مریض ہیں جو اب دوائیں کرنے لگے
ہماری ذہنی پستی کی میں کیا مثال دوں یہی کیا کم ہے کہ ہم نے اپنے آقا کے کہنے پر  روز مرہ زندگی میں قدرتی اشیاء جو ہماری صحت و تندرستی کے لیے بہت ضروری ہیں ،کو چھوڑ کر انگریز بہادرکی بنائی ہوئی مصنوعی اشیاء استعمال میں لاتے ہیں۔

قدرتی پانی آلودہ اور منرل واٹر (جو منرلز نکال کے بنایا جاتاہے)صحت کے اصولوں کے عین مطابق،دیسی گھی بدبودار جبکہ ڈلڈا گھی خوش ذائقہ، دودھ ملاوٹی اور کیمیکل کا پاوڈر خالص، تازہ پھلوں کے جوس جراثیم سے بھرپور جبکہ  ڈبے والا جوس اسٹرلائزڈ،وغیرہ وغیرہ۔ مطلب قدرت کی پیداوار انسان کے لیے موت اور ان انگریزوں کی پیداوار انسان کے لیے آب حیات کا درجہ رکھتی ہے۔

پہلے لوگ آلودہ چیزیں کھا کر پہلوان بنتے تھے اور اب خالص اشیاء کھا کر ٹی بی  اور یرقان کا علاج کراتے پھرتے ہیں۔
ذرا سا سونگھ لینے سے بھی انور
طبیعت سخت متلانے لگی ہے
مہذب اِس قدر میں ہوگیا ہوں
کہ دیسی گھی سے بو آنے لگی ہے
یہ شکست خوردہ ذہنیت کی انتہاء  ہے ایسی قوم اپنے مفادات کا تحفظ کیا کرے گی جس کے تمام مفادات ہی ان سے جڑے ہوں جن کو وہ بظاہر اپنا دشمن گردانتے ہوں۔

مسلمانوں کی اسی ذہنی شکستگی کو علامہ محمد اقبال نے محسوس کر کے اس طرح بیان کیا؛
سینے میں رہے رازِ ملوکانہ تو بہتر
کرتے نہیں محکوموں کو تیغوں سے کبھی زیر
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے اسے پھیر
مسلمانوں کو ایک عظیم قوت بنانے کیلئے اپنی روحوں کو دوبارہ تسخیر کرکے ان عظیم روایات اور اصولوں پر سختی سے جم جانا چاہئے جو ان کے زبردست اتحاد کی بنیاد ہیں اور ان نادیدہ زنجیروں کو توڑ کر اپنے اسلامی تشخص کو بحال کرنا چاہیے کہ اسی میں دنیا اور آخرت کی نجات ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :