
شکست خوردہ ذہنیت
جمعرات 5 نومبر 2020

محمد کامران کھاکھی
(جاری ہے)
اس طرح کے کئی واقعات ہم نے پڑھ رکھے ہیں اس لیے جب بھی بات غلامی کی آتی ہے تو ہمیں یہی سوجھتا ہے کہ غلاموں کی منڈی ہوتی تھی اور اس میں غلام بکتے تھے جو جسمانی لحاظ سےاور ذہنی لحاظ سے اپنے خریدار کے پابند ہو تے تھے۔
دنیا میں کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور اس میں ایک یہ بھی تھی کہ انسان اپنے آپ کو آزاد تصور کرے مگر اس کے پاوں میں نہ دکھنے والی زنجیر ہو، اس کے گرد نہ محسوس ہونے والا پنجرہ ہو اور اس پر جو ظلم کیے جائیں وہ انہیں تقدیر کے کھاتے میں ڈال دے اور ظالموں کو نہ صرف بے قصور مانے بلکہ انہیں اپنا مسیحا گردانے۔
مسلمان جب تک ذہنی طور پر آزاد تھے اپنے فیصلے خود کرتے تھے ، دنیا پر حکمرانی کرتے تھے ، اسلام کو دنیا کے کونے کونے تک لے کر پہنچے۔مگر پھر انگریزوں نے انہیں اپنا غلام بنا لیاجس کے خلاف پوری ایک صدی مسلمان جدوجہد کرتے رہے مگر پھر اگلی صدی میں ان کی آنیوالی نسل نے پوری طرح غلامی کو اپنا مقدر گردان کر ،اپنے آقاوں کو خوش کرنے میں لگ گئی۔ وہ پڑھ لکھ کر انگریزوں کے نوکر بھرتی ہونے پر فخر کرنے لگے اور اپنے آپ کو دوسروں سے برتر و اعلی تصور کرنے لگے۔ کچھ لوگ غلامی سے آزادی کے لئے جدوجہد کرتے ہیں اور کچھ لوگ غلامی کی شرائط کو بہتر بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ آج ہم دوسرے طبقہ کے لوگوں میں رہتے ہیں جو اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ دیکھو ہمارا مطالبہ مان لیا گیا اور ہماری غلامی میں مزید بہتری آ گئی۔
کتنا دشوار ہے اپنی کوئی رائے رکھنا
اسی طرح یہاں کی اکثریت کو یہ یقین دلا دیا کہ ان کے بہترین مستقبل کے لیے انگریز کا قانون کتنا ضروری ہے۔اگر تم نے ترقی کرنی ہے تو ہماری غلامی میں ہی ہو سکتی ہے۔انگریزوں نے ہم پر احسان کیا کہ بنک کا نظام ، سود کا نظام، عدالتی نظام، قانون سب وہ ہمیں دے کر گئے اور ہم نے انہیں سرمایہ حیات بنا کر آج تک سینے سے لگایا ہوا ہے۔ ہم اسی میں اپنی نجات مانتے ہیں اور جو نظام خالقِ کائنات نے ہمیں دیا اسے ہم نے پس پشت ڈال دیا کہ وہ جدیدیت پر پورا نہیں اترتا۔اس سے بدتر غلامی کی مثال شاید ہمیں تاریخ کے اوراق میں بھی نہ ملے جس غلامی میں ہم لوگ جی رہے ہیں۔بظاہر ہمارا ملک آزاد ریاست، اسلام کا قلعہ ہے مگر غلامی کی نادیدہ زنجیروں سے لپٹے اور اسلام کی اصل سے نا بلد لوگوں کا ایک مجموعہ ہے جو اسلام کے نام پر جان تو دے سکتے ہیں مگر اسلام نافذ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے ، کیوں کہ اس سے انگریز بہادر جو ناراض ہو جائیں گے۔ کہتے ہیں کہ غلامی کی بدترین شکل وہ ہے،جب غلاموں کو اپنی زنجیروں سے پیار ہو جائے اور ہمیں تو عشق ہے صاحب ان زنجیروں سے اسی لیے تو ہم ہر اچھے کام کی مثال کے لیے انگریزوں کو دیکھتے ہیں اور ہر برائی کو مسلمان کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔اسی لیے تو ہمارے معاشرے میں یہ جملہ کثرت سے سنا جاتا ہے کہ "ڈاڈھے نال پنگا نئی لینا، اسی ماڑے لوگ آں" مطلب کیا ضرورت تھی ان سے لڑائی مول لینے کی، وہ طاقتور لوگ ہیں اور ہم غریب، ہمارا ان کا کیا مقابلہ۔ یعنی طاقتور کے آگے کھڑے نہیں ہونا ، لڑنے سے پہلے ہی ہار مان لینا اور غریب پر اپنی زور آزمائی دکھا کر بہادری کی مثال قائم کر دینا۔ یہی ہماری تعلیم ہے، یہی ہماری حکومت ہے ، یہی ہماری معاشرت ہے اور یہی ہماری اصل۔ایسے علوم، ایسی دانش اور تدبیر اور ایسی حکومت سازی کبھی نہیں پنپ سکتی جو غریب کا لہو چُوس کر استوار کی جائے۔ جس کے تحت نعرے تو مساوات کے بلند کیے جائیں لیکن عملی طور پر غریب کو غریب تر بنا دیا جائے اور وہ جیتے جی مر جائے۔ اسی لیے ہم ترقی پذیر سے کبھی ترقی یافتہ نہ بن سکے۔
چراغ ہاتھ اٹھا کر دعائیں کرنے لگے
ترقی کر گئے بیماریوں کے سوداگر
یہ سب مریض ہیں جو اب دوائیں کرنے لگے
طبیعت سخت متلانے لگی ہے
مہذب اِس قدر میں ہوگیا ہوں
کہ دیسی گھی سے بو آنے لگی ہے
کرتے نہیں محکوموں کو تیغوں سے کبھی زیر
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے اسے پھیر
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
محمد کامران کھاکھی کے کالمز
-
آدھا سچ، سیاست اور دھوکہ
جمعہ 15 اکتوبر 2021
-
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں
ہفتہ 9 اکتوبر 2021
-
عوامی بجٹ اور حکومتی خوشخبریاں
ہفتہ 19 جون 2021
-
ہماری کوئی غلطی نہیں
بدھ 16 جون 2021
-
بدلا ہے خیبر پختونخواہ
بدھ 9 جون 2021
-
روک سکو تو روک لو۔۔!
ہفتہ 5 جون 2021
-
کوئی بھوکا نہ سوئے
ہفتہ 24 اپریل 2021
-
خدمت آپ کی دہلیز پر
جمعرات 22 اپریل 2021
محمد کامران کھاکھی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.