پرندے ہم سے خفا ہیں

اتوار 18 اکتوبر 2020

Muhammad Saqlain Kanjan

محمد ثقلین کانجن

کئی برسوں سے وہاں کوئی بارش نہیں ہوئی تھی۔ زمین بے رونق ہو گئی تھی۔ لوگ پریشان جبکہ جانور بھوک سے مرنے لگے تھے۔ وہ صحرائے تھل کے ویرانوں میں گمنام سی بستی تھی۔ جو چند نفوس پر مشتمل تھی۔ روز فجر کی نماز کے بعد جب سورج اپنی کرنیں بکھیر لیتا، تو وہاں کے مقامی لوگ اونچے ٹیلے پر اکٹھ ہوتے۔ جہاں وہ نماز استسقاء کا اہتمام کرتے اور اللہ سے بارش کی دعائیں مانگتے۔


نماز استسقاء کا پڑھنا ان کا معمول بن گیا۔ اور یہ ہر روز گاؤں کے مختلف کونے پر نماز ادا کرتے۔ لیکن جب بھی یہ اپنی جھولیاں پھیلاتے، وہ خالی رہتیں،  اور دعا کےلئے اٹھے ہاتھ مایوس لوٹتے۔ ہر دن یہ نئی امنگ کے ساتھ دعا مانگنے گھروں سے نکلتے، لیکن ہر بار ان کی بارش کی خواہش ٹوٹ کر بکھر جاتی۔

(جاری ہے)

اور سورج آئے روز اپنی حرارت تیز کر دیتا اور یہ پھر نئے دن کی امید کے ساتھ اپنے ٹھکانوں پر واپس پلٹ آتے۔

آخرکار گاؤں کے لوگوں نے خشک سالی کو اپنا مقدر مان لیا۔ لیکن پھر ایک دن پرندوں کو ان پر ترس آگیا اور وہ ان سے کہنے لگے "ہم تمہارے لیے بارش برسا سکتے ہیں۔" لوگوں کی آنکھوں میں ممنونیت کے آنسو جھلک آئے۔ پرندے اڑے اور دور کہیں آسمانوں کی وسعتوں میں گم ہو گئے۔ پرندے اڑتے اڑتے بارش کے مآخذ تک جا پہنچے۔
بادلوں کو دیکھ کر وہ خوش ہوئے اور اللہ کا شکر ادا کرنے لگے۔

بادل گرجے اور برسنے لگے۔ خوب جل تھل ہوئی۔ لوگوں کے چہروں سے گرد اور ناامید کے آثار دھل گئے۔ اور گاؤں ہرا بھرا ہو گیا۔ جانوروں کےلئے چارہ اور گھاس اگ آئی۔ اور یوں گاؤں کی رونقیں بحال ہو گئیں۔
لیکن اس دوران ایک ٹریجڈی ہو گئی۔ جن پرندوں کے گروہ بارش ڈھونڈنے آسمانوں پر گئے تھے۔ اور اپنے رب سے بارش کی التجا کی تھی۔ کچھ احسان فراموش انہی پرندوں کا شکار کرنے نکل پڑے۔

وہ پرندوں کو مار کر لے آئے۔ اور ان کے ذائقے دار گوشت پر ہاتھ صاف کیے۔
یہی واقعہ بنیاد بنا اور پرندوں اور گاؤں والوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو گئے۔
پرندوں نے گاؤں سے اپنے آشیانے اٹھائے اور جنگل میں جا کر آباد ہو گئے۔ لہٰذا وہ دن ہے اور آج کا دن،
پرندوں کو انسانوں سے خوف سے آتا ہے۔ پرندے اس دن کے بعد سے انسانوں سے خفا ہیں۔

یہ جہاں بھی انسان کو دیکھتے ہیں۔ وہاں سے اڑ کر دور جا بیٹھتے ہیں۔
 انسانی نفسیات کو سب سے زیادہ پرندے اور جانور جانتے ہیں۔ پرندے انسان کی آنکھیں پڑھ لیتے ہیں۔ یہ ان آنکھوں میں چھپی وحشت اور محبت دونوں کو پرکھ لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگوں کے بازوؤں پر بیٹھ کر پرندے دانے چگ رہے ہوتے ہیں۔ اور کچھ کو دور سے دیکھ کر یہ اڑ جاتے ہیں۔


مجھے پرندوں سے بے حد رغبت ہے۔ پرندوں کی سریلی آوازیں انسان کو باغ باغ کر دیتی ہیں۔ وہ آسمان کتنا بےرونق، بھدا اور بے کیف نظر آتا ہے۔ جس آسمان پر پرندے نہ اڑ رہے ہوں۔ انسان کی حرکتوں کی وجہ سے پرندے ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔ پرندے زمین و آسمان کا حسن ہیں۔ ان کا تحفظ کرنا ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے۔ خصوصاً تھل اور چولستان کے علاقوں میں جو شکار کیا جاتا ہے۔

اس کو روکنے کی بے حد ضرورت ہے۔ ویسے بھی جن پرندوں کا شکار ان علاقوں میں کیا جاتا ہے۔ وہ پرندے مہمان ہوتے ہیں۔ جنھیں پکھی واس بھی کہا جاتا ہے۔ پرندوں کو تحفظ دینا بہت ضروری ہے۔ ورنہ اس گاؤں کے احسان فراموش چند لوگوں کی طرح ہم سے بھی پرندے روٹھ جائیں گے۔ اور ہمیشہ ہمیشہ کےلئے کہیں دور وہاں نکل جائیں گے، جہاں نہ کوئی بندہ ہو گا اور نہ بندہ کی ذات۔

اوچی پہاڑی تلے مرغابیاں لائی بازی، ہی سنائی دے گا۔ پھر کوئی مرغابی تو نظر آنے سے رہے گی۔
گاؤں کے ان باشندوں کی طرح جنھوں نے اپنے محسن پرندوں کو مار ڈالا اور احسان فراموشی دیکھائی۔ زیادہ تر انسان انہی کی طرح  بے مروت ہوتے ہیں۔ انسان قدرت کی انوکھی تخلیق ہے۔ یہ مشکل میں پاؤں پڑنے کو بھی تیار ہو جاتا ہے، جبکہ بہاروں میں یہ ہاتھ تک نہیں ملاتا۔

یہ خود مشکل میں ہو تو آنسوؤں بہاتا ہے۔ جبکہ دوسروں کو دقت میں دیکھ کر یہ ٹھٹھے
کرتا ہے۔ مطائبات پر اتر آتا ہے۔
احسان مندی کا جذبہ انسان کے اندر شاد و نادر ملتا ہے۔ وہ لوگ عظیم ہوتے ہیں۔ جو دوسروں کا احسان یاد رکھتے ہیں۔ اکثر لوگ دولت ملنے کے بعد سرکش ہو جاتے ہیں۔ ہواؤں میں اڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ اپنے محسنوں کو بھول جاتے ہیں۔

اپنے ماضی کو فراموش کر دیتے ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا " دولت، طاقت اور قوت ملنے کے بعد لوگ بدلتے نہیں ہیں بلکہ بے نقاب ہو جاتے ہیں۔"
زندگی حسین ہے۔ اس کو خوشی سے جینے ہی میں بہتری ہے۔ خوشی دولت اور طاقت کی مرہونِ منّت نہیں ہوتی ۔ ایک دوسرے سے ہنسی خوشی رہنے سے جو سکون ملتا ہے۔ وہ کہیں باہر سے میسر نہیں آتا ہے۔ جو آپ سے بھلائی کرتا ہے۔ اس کی قدر کرنے کریں۔ اس کا احسان مانیں، لیکن کسی کو اپنا احسان جتلانا بھی درست نہیں ہے۔ جس پر آپ احسان کریں، اس کو جتلائیں مت اور جو پر احسان کرے اس کی قدر کریں۔ اسی میں اچھائی ہے۔ کیونکہ جو اپنے رحمن کے بندوں کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا۔ وہ اپنے رحمن کا شکر گزار بندہ کیسے ہو سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :