چلو کمیٹیاں بناتے ہیں

ہفتہ 8 مارچ 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

کچھ عرصہ قبل کی بات ہے کہ ایک محلے کی زکوٰة عشر کمیٹی کے چیئرمین سے شاکی خاتون نے وزیراعلیٰ ، صوبائی وزیرزکوٰة عشر سمیت دیگرارباب اختیار کے نام درخواست میں شکوہ کیا کہ مقامی چیئرمین زکوٰة انہیں زکوٰة دینے کی بجائے اپنوں کو نواز رہاہے، اس ضمن میں انہوں نے کئی خواتین کی مثال بھی دی ۔ یہ درخواست بھجوانے کے بعد خاتون مطمئن تھیں کہ انہیں انصاف ضرور ملے گا۔

اگلے ہی روز مذکورہ چیئرمین سے ٹاکرا ہوگیا ، موصوف کہنے لگے کہ ” بی بی درخواستوں سے کچھ نہیں ہوتا ، آپ اپنا اورسرکار کاوقت ضائع کررہی ہیں“ وہ بیوہ خاتون پھر بھی پرامید رہیں، صوبائی وزیرکی طرف سے ضلعی چیئرمین زکوٰة کو چٹھی ملی کہ فلاں فلاں خاتون کی شکایت کی انکوائری کی جائے، ضلعی چیئرمین زکوٰة نے وہ چٹھی اسی مقامی چیئرمین کے حوالے کرتے ہوئے کہا ” یہ چٹھی دیکھ لو اورانکوائری کراؤ“ اگلے روز وہ مقامی چیئرمین بیوہ خاتون سے مسکراتے ہوئے کہہ رہاتھا” بی بی میں نہ کہتا تھا کہ یہ پاکستان ہے یہاں سب کچھ چلتاہے، دیکھا میرے خلاف انکوائری ہونی ہے اورمیں ہی انکوائری کررہاہوں “
صاحبو! یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے ،نجانے ایسی سینکڑوں نہیں ہزاروں مثالی ملک کے طول وعرض میں پھیلی ہوئی ہیں، دوتین تازہ ترین واقعات بھی ملاحظہ ہوں کہ ایم این اے جمشید دستی نے پارلیمنٹ لاجز میں شراب لانے لے جانے، پینے پلانے ، مجروں کے نام پر گھنگھرؤں کی چھنکار ،عیاشی کیلئے آنیوالی خواتین کاذکر چھیڑا تو ایوانوں میں بیٹھی شخصیات کانپ اٹھیں،مقتدر شخصیات کا تو پتہ نہیں لیکن عام آدمی پہلے سے ہی ان داستانوں سے آگہی کے باوجود ہکا بکا تھا کہ یہ عجیب وغریب اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے کہ جہاں پارلیمنٹ لاجز میں شراب نوشی، مجرے کرائے جاتے ہیں ۔

(جاری ہے)

بعض بھارتی اخبارات نے پھبتیاں کسیں کہ ”پاکستان کی پارلیمنٹ یا طوائف خانے“ خیر توقع کی جارہی تھی کہ اب کچھ نہ کچھ ہوگا کہ اسلامی جماعتوں اوراسلامی نظام کے خیر خواہ شریف برادران مسند اقتدار پر قابض ہیں ، ہونا کیا تھا کہ سات رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اورشنید یہی ہے کہ اس میں بھی اراکین اسمبلی شامل ہیں ۔ سوچئے پھر خاک انکوائری ہوگی۔

انہی کے خلاف تو جمشید دستی الزامات عائد کررہے ہیں اوروہ ان کے روبرو پیش ہوکر ثبوت دینے سے رہے۔ حالانکہ چند روز قبل وہ میڈیا کو پارلیمنٹ لاجز کے احاطے میں سے شراب کی خالی بوتلیں اکٹھی کرکے دکھارہے تھے ۔ خیر سنا ہے کہ جمشید دستی انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش ہوگئے ہیں اورانہوں نے ثبوت بھی کمیٹی کے حوالے کردئیے ہیں ویسے توانصاف کی توقع یوں بھی نہیں ہے کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔


سانحہ اسلام آباد کو چند ہی دن گزرے ہیں اورشنید یہ ہے کہ اس واقعہ کی انکوائری کیلئے بنائی جانیوالی محکمانہ کمیٹی کی سربراہی ایس ایس پی اسلام آباد ڈاکٹر رضوان کو سونپی گئی ہے، حالانکہ سپریم کورٹ میں جاری اسی کیس میں تسلیم کیاجاچکا ہے کہ یہ واقعہ ناقص سیکورٹی انتظامات کی وجہ سے پیش آیا ہے اور تعینات اہلکاران میں سے محض 47ہی موقع پر موجودتھے۔

اس ضمن میں چیف جسٹس بھی استفسار کرچکے ہیں کہ باقی اہلکاروں کی غیر حاضری کو کس معنی میں لیاجائے؟ عدالت نے یہ بھی پوچھاتھا کہ اس واقعہ میں ایک ایڈیشنل سیشن ،وکلا ہی جاں بحق ہوئے ہیں کوئی پولیس اہلکار بھی ان دھماکوں کی زد میں آیا ؟ اگر نہیں تو سمجھاجائے گا کہ دھماکہ کے وقت یا حملہ آورو ں کی احاطہ عدالت آمد اورپھرفائرنگ کے وقت کوئی پولیس اہلکارسامنے نہیں تھا۔

اس ناقص سیکورٹی کی براہ راست ذمہ دار ی یاتو ڈی آئی جی اسلام آباد پر عائد ہوتی ہے یا پھر ایس ایس پی اسلام آباد ہی ذمہ دار قرار پاتے ہیں اب انوکھا مذاق بھی ملاحظہ ہو کہ جو ذمہ داران میں سے ایک ہے اسی شخص کی نگرانی میں ہی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے
صاحبو! جیسا کہ پہلے عرض کرچکے ہیں کہ یہ پاکستان ہے اوراس میں کسی بھی سانحہ /واقعہ کے ذمہ داران کو ہی اسی واقعہ کی انکوائری ،تفتیش سونپی جاتی ہے۔

اسے قانون سے مذاق سمجھاجائے یا قانون کی کمزوری، کیونکہ ایسے واقعات کا علم وزیراعلیٰ سے لیکر ضلع کے ڈی پی او ، ڈی سی او تک ہوتا ہے ، انہیں بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس کام کی ذمہ داری انہیں سونپی جارہی ہے وہ سرے سے غلط ہے لیکن اسکے باوجود بھی وہ بے بس ہوتے ہیں یا پھر وہ اسی ”وہیل چکر“ کاحصہ ہونے کے ناطے خاموشی کوترجیح دیتے ہیں۔
ماضی میں ایک مقولہ بڑاہی مشہور ہواتھا کہ کسی واقعہ سانحہ کے جائزہ کیلئے کہاجاتاتھا کہ فلاں کمیٹی تشکیل دیدی گئی، اب اس کمیٹی کو بٹھانے یا جگانے کیلئے ایک اورکمیٹی بنائی جائے ، پھر اس کمیٹی کو اٹھانے کیلئے ایک اورکمیٹی بنائی جائے۔

گویا کمیٹی در کمیٹی کے اس نظام کی بدولت اصل معاملہ ہی گول ہوجاتاہے۔
بھولا بھی عجیب الخلقت شخص ہے جب اس نے سنا کہ سانحہ اسلام آباد کی انکوائر ی کیلئے ڈاکٹر رضوان کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی گئی اور جمشید دستی کے الزامات کے جائزہ کیلئے قائم کردہ کمیٹی میں پارلیمنٹرینز بھی شامل ہونگے تو بیچارہ قہقہے روک نہیں پارہا ہے، اب تو سرعام کہتا پھرتا ہے کہ آنیوالے دور میں کسی بھی اخلاقی قانونی مجرم کو کہاجائیگا کہ اپنے خلاف خو دانکوائری کرکے لاؤاوربتاؤ کہ تم قصور وار ہوکہ نہیں۔

دنیا بھر میں یہ دیکھاجاتاہے کہ کسی بھی ملزم یا مجرم کے حوالے سے تشکیل دی جانیوالی انکوائری کمیٹی میں اس کاکوئی دوست ، رشتہ دار یا ہمدردی رکھنے والا تو شامل نہیں؟ لیکن ہمارے ہاں یہ طے کیاجاتاہے کہ اس ملزم ،مجرم کو ”پاک پوتر “ قرار دینے کیلئے کس کس شخص کو کمیٹی میں شامل کیا جائے پھر چن چن کرشخصیات کمیٹی میں رکھی جاتی ہیں اورانہیں گائیڈکیاجاتاہے کہ اس شخص کو بر ی الذمہ قرار دیاجائے۔

پھر ہوتا یہ ہے کہ ”میرٹ “ پر ہی کمیٹی انکوائری کرتی ہے اورپھر میرٹ پر ہی انصاف ہوتاہے یعنی وہ ملزم یامجرم صاف ستھرا اور پاک پوتر بن کر سامنے آتا ہے۔ ایسے میں پتہ نہیں قانون شرمسار ہویانہ ہو ، الزام لگانے والا ضرور شرمسار دکھائی دیتاہے اور بھولے جھلے پاکستانی ملزم کی جے جے کا ر کرتے ہوئے الزام لگانے والوں کی ایسی تیسی کرنے سے بھی باز نہیں آتے ۔ اسی لئے تو کہاجاتاہے ” یہ ہے پاکستان ،جس میں قانون موم کی ناک ، جسے جدھر چاہو موڑ دو“

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :