سودخوری کی لعنت

بدھ 4 جون 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

وہ ہمارے سامنے بیٹھا مسلسل روئے چلا جارہا ہے اور تقریباًآدھ گھنٹے سے جاری اس عمل کے دوران اس نے جانے کتنی مرتبہ ہچکیوں کے درمیان کچھ بتانے کی کوشش کی مگر ہم کوشش کے باوجود ہم یہ تک نہ جان سکے کہ وہ کیابتانا چاہتاہے ؟ اس کا مطمع نظر کیا ہے ؟آخر وہ کونسی بات ہے جس سے اس کا دل دکھی ہوگیا ؟ وہ کونسا فعل تھا جس کی وجہ سے اس ”چٹ پوش “ کی جمع پونجی ضائع ہوگئی ؟ وہ کونسی وجہ تھی کہ جس کی بدولت اس کی زمین جائیداد سب کچھ بک گیا؟ یہ ایک ایسی افسوسناک کہانی ہے جو بڑی ہی تگ و دوبعد ہمارے ہاتھ آسکی۔

ہمارے ایک دوست نے مشورہ دیا کہ آپ کو سودخوری کی لعنت سے متعلق کچھ بتانا اور دکھانا ہے آپ براہ کرم فلاں دن تیار رہئے ہم راضی ہوگئے ویسے بھی اس دوست کے سامنے ہم ”چوں چراں“کی ہمت تک نہیں رکھتے۔

(جاری ہے)

اسی دوران میانوالی کی دھرتی سے دو تین افراد نے بھی ہم سے حکمیہ انداز میں فرمائش کی ” آپ سودخوری سے متعلق کیوں نہیں لکھتے “ ہم نے ان احکامات کی روشنی اور اس دوست کے خصوصی حکم نامے کے سامنے سرنگوں ہوتے ہوئے اس کالم کا قصد کیاہی تھاکہ اگلے ہی دن اس دوست نے اطلاع کی کہ میں آپ کو جو حقیقی واقعہ سنانے اور دکھانے والا تھا وہ کل کی بجائے پرسوں ممکن ہوسکے گا۔

ہم نے جی حضور کہہ کر جان بخشی کرائی۔ حسب وعدہ وہ دوست ایک ”چٹ پوش “ کے ساتھ آن موجود ہوا ۔ ظاہرا ً ہمیں اس چٹ پوش پر نہ تو سود خورکا گمان ہورہا تھا اور نہ ہی ہمیں توقع تھی کہ یہ باریش ادھیڑ عمر شخص کسی ایسے دھندے میں ملوث ہوگاخیر ہم ایک نسبتاً ویران جگہ جا پہنچے ۔ دوست نے تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ کسی زمانہ میں ایک اچھا خاصا زمیندا رتھا اور اب ․․․․․․․․․ابھی یہ جملہ ادا ہی ہواتھا کہ اس چٹ پوش کیآنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی ٹپ ٹپ برسنے لگی۔

ہم نے ابھی صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کرہی رہے تھے کہ وہ صاحب صافے سے آنکھیں رگڑتے ہوئے باقاعدہ رونے لگے ہم اورہمارے دوست پریشان کہ ان صاحب کو کسی طرح سے چپ کراکے وہ دردناک کہانی سنی جائے۔ خیر آدھ گھنٹے کی محنت رنگ لائی اور ان صاحب نے ہچکیوں اور سسکیوں کے درمیان بتایا کہ وہ آج سے چند سال پہلے اچھا خاصا زمیندار تھا ، زمینوں سے حاصل ہونیوالی فصل کی بدولت گھر میں اچھی خاصی خوشحالی تھی۔

اس دوران کچھ بارشوں کی قلت ، ادویات ، کھادوں کے نرخ بڑھنے اور بیماری کے مسلسل حملے نے پیداوار میں کمی کرنا شروع کردی ایک اور ستم یہ ہوا کہ وہ دو چار مہینے بستر سے لگ گئے ہوا یہ کہ وہ جب بستر سے اٹھے تو پتہ چلا کہ اس دفعہ آمدن تو کیا ہوناہے گھر کا خرچہ پوراکرنا بھی ممکن نہیں ہوگا۔ اسی پریشانی میں کافی دن بیت گئے ایک دشمن نما دوست (جسے وہ اپنی جان سے زیادہ عزیز دوست سمجھتے تھے ) نے اسے مشورہ دیا کہ فلاں فلاں سے قرض لے لو لیکن شرط یہ ہے کہ ایک لاکھ پر بیس سے تیس ہزار روپے اداکرنا ہونگے۔

اب مہینہ میں ادائیگی کا طریقہ کار یہ طے ہوا کہ دس ہزار روپے مہینہ قسط ہوگی اور اس پر دس فیصد سود لاگو ہوگا یہ صورتحال کسی حد تک قابل قبول تھی تاہم تیسرے مہینے سے اس سود خور نے کہاکہ ان دنوں ان کا ہاتھ ”تنگ “ ہے اس لئے وہ سود کی شرح بڑھانے پر مجبورہے اور تیرہ فیصد سود لے گا ۔ پانچویں مہینے یہ شرح پندرہ اور پھر بیس اور پھر پچیس تک چلی گئی ۔

وہ چٹ پوش زمیندار بڑا ہی رویاچلایا مگر کچھ نہ ہوسکا۔ کیونکہ قرض کی رقم وہ گھر باہرکے اخراجات پر صرف کرچکا ہے ۔ہوا یہ کہ ایک مہینہ وہ قرض کی رقم اداکرنے کے قابل نہ ہوسکا تو پھر ہوا یہ کہ وہ اگلے ماہ دوگنی ہوگئی ادائیگی مشکل نظرآئی تو سو د خو ر کے ہاتھ پاؤں پکڑ کر ایک ماہ کی رعایت حاصل کی ۔ اس طرح کے افعال و کردار میں انہیں ایک لاکھ روپے کاتین لاکھ کے قریب اداکرناپڑا ۔

مکمل ادائیگی کے بعد پتہ چلا کہ وہ تو پورے پچھتر ہزار روپے زیادہ ادا کرچکے ہیں تو پھر انہیں غلطی کا احساس ہوا انہوں نے فصل کی تیاری شرو ع مگر اس مرتبہ پھر وہی حالت ․․․․ پھر ․․․․․․․․․․․․․․․․․․ایک نیا شکاری نیا جال لے کر آن پہنچا جس نے زمین رہن رکھ کر قرض دیا ۔ وہ مسلسل دوتین سالوں سے قرض بھی اداکررہے ہیں اوراپنی زمین کے مالک بھی نہیں رہے۔


صاحبو! یہ کسی ایک فرد کی کہانی نہیں ہے بلکہ ایسے بے شمار کردار آپ کو اس معاشرے میں بکھرے نظرآئیں گے۔ فرق یہ ہے کہ کوئی زمیندار ہے تو کوئی عام شہری، کوئی سیاسی شخصیت ہے تو کوئی سماجی حوالے سے نیک نامی رکھتاہے ۔ ہم نے بچشم خود ملاحظہ کیا کہ کئی اوسط نہ رکھنے والے حضرات اگر پندرہ ہزار روپے قرض لیتے ہیں تو انہیں پندرہ ہزار کی بجائے بعض اوقات تیس ہزار تک ادائیگی کرناپڑتی ہے۔

ممکن ہے کہ کسی جگہ سود کی شرح کم ہو لیکن ہمارے مشاہدے کے مطابق سودخوری کی شرح اس سے بہت زیادہ ہی ہوگی۔ سود خوری سے یاد آیا کہ پٹھان قبیلے بھی اس ضمن میں کچھ پیچھے نہیں رہے۔ یہ حضرات دیہی علاقوں کے زراعت پیشہ افراد کو ”فصل “ پر ادھار دیتے ہیں، یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ مکمل اشیائے ضروریہ (سال بھر ) دیتے رہتے ہیں شرط صرف اتنی ہی ہوتی ہے کہ فصل پر نہ صرف وہ اصل ادائیگی کریں گے بلکہ سود کی ضمن میں بھی انہیں اضافی رقم دینا پڑیگی۔

اب ہوتا یوں ہے کہ مثال کے طورپرکسی زمیندار کے سال بھر میں ساٹھ سے ستر ہزارروپے کا سازوسامان آیا ہے لیکن یہ حضرات اس ساٹھ سترہزار کو کم ازکم پچاسی نوے ہزار ظاہرکرتے ہوئے اس پر سود اسی شرح کے حساب سے لگاتے ہیں جو کمی بیشی کے بعد کم ازکم ایک لاکھ بیس تیس ہزار تک جاپہنچتا ہے
صاحبو! جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں کہ یہ سلسلہ نہ تو کسی گروپ پارٹی یا شہر تک محدود ہے اورنہ ہی کوئی فرد واحد اس کا ذمہ دار ہے بلکہ ہر شہر ہرگاؤں میں چھوٹے بڑے سود خور موجود ہیں۔

سوچنے کا مقام تو یہ ہے کہ آخر ہمارے ارباب اختیار علم ہونے کے باوجو د ان کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کرتے ۔ ان لوگوں کے خلاف جہاد کیوں نہیں ہوتاجن کے متعلق قرآن مجید اللہ تعالیٰ سے جنگ کا اشارہ دیتا نظر آتاہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ ہر کام صرف حکومتوں اورحکمرانوں پر نہیں چھوڑنا چاہئے خصوصاًسود خوری کی لعنت کا سدباب کرنے کیلئے عوامی سطح پر حقیقی جدوجہد کی ضرورت ہے ۔ معاشرتی جدوجہد کی ضرورت، ایک ایسے جہاد کی ضرورت کہ جس میں ممکن ہے کہ بعض اپنوں سے بھی سامنا ہوجائے اوریہ بھی ممکن ہے کہ اپنا آپ بھی سامنے آسکتاہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :