پنجاب میں پی ٹی آئی بلدیاتی نظام

جمعرات 2 مئی 2019

Muhammad Siddique Prihar

محمد صدیق پرہار

یہ سطورلکھنے سے تین ہفتے پہلے کی بات ہے ۔وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدارکی زیرصدارت وزیراعلیٰ آفس میں اعلیٰ سطح کے اجلاس میں بلدیاتی نظام کے مسودے کاتفصیلی جائزہ لیاگیا۔وزیراعلیٰ عثمان بزدارنے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا نیابلدیاتی نظام صوبے کے عوام کی امنگوں اورخواہشات کے عین مطابق ہوگا ۔حقیقی معنوں میں اختیارات کونچلی سطح پرمنعقدکیاجائے گابلدیاتی نمائندوں کوذمہ داری کے ساتھ بااختیاربنائیں گے۔

نیانظام موجودہ سٹیٹس کوختم کرے گااورعوام کوبااختیاربنائے گا۔ان کاکہناتھا کہ عوام کے مسائل ان کی دہلیزپرحل کرنے کے حوالے سے نیابلدیاتی نظام اہم کرداراداکے گا،بلدیاتی اداروں میں چیک اینڈبیلنس رکھاجائے گا۔دیہات کی سطح پربھی لوگوں کوبااختیاربنائیں گے۔

(جاری ہے)

بلدیاتی نظام عوام کانظام ہوگا اوروہی اس میں بااختیارہوں گے۔نئے نظام میں بلدیاتی اداروں کو مالیاتی طورپرخودمختیاربنائیں گے۔

اس کے چارروزبعدوزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت لاہورمیں تحریک انصاف پنجاب کی صوبائی پارلیمانی پارٹی اورصوبائی کابینہ کامشترکہ اجلاس ہوا۔ جس میں نئے بلدیاتی نظام کامسودہ پیش کیاگیااورسیکرٹری لوکل گورنمنٹ نے مقامی حکومتوں کے نظام پر بریفنگ دی۔اجلاس میں نئے بلدیاتی نظام کے مسودے کی منظوری دے دی گئی ۔نئے بلدیاتی نظام میں ولیج کونسل اورمحلہ کونسل کاانتخاب غیرجماعتی بنیادوں پر کرانے جب کہ تحصیل اورمیونسپل کونسل کے انتخابات جماعتی بنیادوں پرکرانے کی تجویزدی گئی۔

بریفنگ میں بتایاگیا کہ پنجاب میں نیابلدیاتی نظام دو درجوں پر مشتمل ہوگاتحصیل اورولیج کونسل کانظام قائم کیاجائے گا،نئے بلدیاتی نظام میں ضلع کونسل کے نظام کوختم کرنے کی سفارش کرتے ہوئے ضلع کونسل کی بجائے تحصیل کونسل کانظام تجویزکردیاگیاہے شہروں میں میونسپل اورمحلہ کونسل جب کہ دیہات میں تحصیل اورولیج کونسل ہوگی۔بریفنگ میں کہاگیا کہ نئے بلدیاتی نظام میں مقامی سطح پرعوامی نمائندوں کوصحیح معنوں میں بااختیاربنایاجائے گا۔

اس موقع پروزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدارکاکہناتھا کہ موثرنظام سے عوامی سطح پرپائیدارسروس ڈیلیوری کویقینی بناناپی ٹی آئی منشورکاسب سے اہم جزوہے۔اجلاس کے بعدمیڈیاکوبریفنگ دیتے ہوئے صوبائی وزیرقانون راجہ بشارت کاکہناتھا کہ پنچایت کے اختیارات کولوکل گورنمنٹ میں وضع کیاگیا ہے نئے نظام میں ضلع کی سطح والے امورتحصیل کی سطح پرانجام دیے جائیں گے۔

ہمارامقصدعوام کوبااختیاربناناہے ۔ہم اقتدارکوصحیح معنوں میں نچلی سطح پرمنتقل کرناچاہتے ہیں۔نئے بلدیاتی نظام میں عوام کاپیسہ عوام پرہی لگے گااورنچلی سطح پرلوگوں کے مسائل حل ہوں گے۔بجٹ سیشن سے پہلے ہم نیابلدیاتی نظام نافذ کردیں گے۔راجہ بشارت نے کہا کہ بلدیاتی نظام کے مسودے کی تیاری کے دوران وزیراعظم کی راہنمائی حاصل رہی۔ یہ مسودہ ایک مضبوط بلدیاتی نظام ثا بت ہوگا۔

راجہ بشارت کاکہناتھا بکہ نئے بلدیاتی نظام کے تحت دیہاتی علاقوں میں پنچایت اورشہری علاقوں میں ہمسائیگی کانظام لارہے ہیں ان کاکہناتھا کہ شہری علاقوں میں میٹروپولیٹن کارپوریشن میونسپل کمیٹی قائم کی جائے گاجب کہ دیہی علاقوں میں ضلع کانظام ختم کرنے کافیصلہ کیاگیا ہے۔ ڈویژنل ہیڈکواٹرزمیں میٹروپولیٹن کارپوریشن متوسط شہروں میں میونسپل کارپوریشن اورایک سوبیاسی شہروں میں میونسپل یاٹاؤن کمیٹیز ہوں گی۔

راجہ بشارت کا کہناتھا کہ شہری علاقوں کے لیے تمام شہروں میں دوہزارچارسونیبرہڈ کونسل اوردیہی علاقوں میں بائیس ہزارپنچایت قائم کی جائیں گی۔ ان کاکہناتھا کہ دیہی علاقوں میں تین ہزارایک سویونین کونسلزتھیں لیکن اب بائیس ہزارپنچایت قائم کی جائیں گی۔ صوبائی وزیرقانون کاکہناتھا کہ جماعتوں کواجازت ہوگی کہ تحصیل ، میٹرو پولیٹن اورکارپوریشن کے لیے اپناپینل دیں اورہینل ووٹ لے کرعوام کی خدمت انجام دیں۔

کوشش کی جائے گی اس کے نافذ العمل ہوتے ہی موجودہ بلدیاتی ادارے ختم ہوجائیں ۔پنجاب میں پہلی مرتبہ کسی بھی کونسل میں سوفیصداقلیتی آبادی والے افراداپنے اداروں کے سربراہ بن سکیں گے۔اگرکوئی ایسی دیہی کونسل قائم ہوتی ہے جہاں اقلیتوں کی اکثریت ہے توانہیں اپنے مسائل کے حل کے لیے اپنے نمائندے منتخب کرنے کااختیارپہلی مرتبہ دیاجارہاہے۔

صوبائی حکومت کی جانب سے دیہی کونسلزکوچالیس ارب روپے دیے جائیں گے۔ماضی میں کبھی بھی یونین کونسل کواتنی بڑی رقم نہیں دی گئی ۔وزیرقانون پنجاب کاکہناتھا کہ پنچایت کے اختیارات بلدیاتی حکومت کے دائرہ اختیارمیں ہوں گے۔جس کامینڈیٹ قانون میں واضح کیاگیاہے۔صوبائی وزیرہاؤسنگ پنجاب میاں محمودالرشیدنے بھی وزیرقانون کی باتوں کودہرایا۔

اس کے ایک ہفتہ اوردودن کے بعدپنجاب کابینہ کے اجلاس میں نئے بلدیاتی نظام کے مسودے کی منظوری دی گئی۔ اس کے آٹھویں روزپنجاب اسمبلی کے اجلاس کے آغازمیں ہی وزیرقانون راجہ بشارت نے لوکل گورنمنٹ بل دوہزارانیس اورنیبرہڈ کے بل کی رپورٹس ایوان میں پیش کر دیں۔جس پراپوزیشن نے اپنے تحفظات کااظہارکیا۔لوکل گورنمنٹ سٹینڈنگ کمیٹی کے ممبررمضان بھٹی نے کہا کہ سٹیڈنگ کمیٹی میں بل پرووٹنگ نہیں کرائی توبل پاس کیسے ہوسکتاہے۔

حکومت اپوزیشن کے حقوق سلب کررہی ہے۔ ہمیں تواجلاس میں ایسے لگا کہ حکومت کے نمائندے اپوزیشن کابائیکاٹ کرکے چلے گئے ۔لیگی رکن سمیع اللہ خان نے کہا کہ لوکل گورنمنٹ بل کے تین سوسے زائدسیکشن ہیں۔ہرسیکشن کی ووٹنگ ہوتی ہے۔کمیٹی کے گیارہ ممبرہیں جن میں سے دس ممبرآتے رہے ہیں ۔بل پرکمیٹی میں ووٹنگ نہیں ہوئی جلدی میں بل پاس کرناحکومت کی نیک نامی نہیں۔

ن لیگ کی رکن عظمیٰ زاہدبخاری نے کہا کہ پنجاب بھرکے میئرزکے نمائندوں نے سیکرٹری اسمبلی سے ملاقات میں اپنے تحفظات کااظہارکیا۔لیکن ان کی کوئی بات نہیں سنی گئی۔جب تک متعلقہ سٹیک ہولڈرکونہیں سناجائے گاتوبل کی اہمیت نہیں ہوگی۔ہم نے لوکل گورنمنٹ کابل پاس کرتے ہوئے سول سوسائٹی کے نمائندوں کوبھی بلایاتھا ۔لیکن حکومت یکطرفہ بل پاس کررہی ہے۔

ملک احمدخان کاکہناتھا کہ سال انیس سواکسٹھ کے بعدہرسربراہ (حکومت) اپنی مرضی کالوکل گورنمنٹ کانظام لایا ۔یہ حکومت کی مرضی ہے اوروہ مرضی کابل لاسکتے ہیں اوربل کوتبدیل کرسکتے ہیں ۔لیکن سٹینڈ نگ کمیٹیوں کابھی ایک دائرہ کارہے ۔اگرہم نے کمیٹیوں کابائیکاٹ کرناہوتا توکمیٹیوں میں جاتے ہی نہ۔لگتاہے حکومت نے اس بل کواناکامسئلہ بنالیا۔

اس کے جواب میں وزیرقانون راجہ بشارت نے کہا کہ یہ بل اب ہماری اناکامسئلہ بن چکاہے۔ اس بل کوہرصورت پاس کریں گے ۔ وزیراعظم عمران خان کے منشورکاحصہ ہے۔اس کوتکمیل تک پہنچائیں گے۔اس کے تین روزبعدپنجاب اسمبلی کااجلاس سپیکرپنجاب اسمبلی کی زیرصدارت ایک گھنٹہ بیس منٹ کی تاخیرسے شروع ہوا۔ اجلاس کے دوران وزیرقانون راجہ بشارت نے لوکل گورنمنٹ سال دوہزارانیس ولیج، پنچایت اورنیبرہڈ بل سال دوہزارانیس کے بلزایوان میں منظوری کے لیے پیش کیے ۔

جس کوحکومت نے کثرت رائے سے منظورکرلیا۔مسلم لیگ ن کے رکن ملک احمدخان نے لوکل گورنمنٹ بل کی مخالفت میں تقریرکرتے ہوئے کہا کہ ہم اس بل کوتسلیم ہی نہیں کرتے توترامیم کیوں دیتے۔اگرہم ترامیم دیتے تواس کامطلب ہے کہ ہم نے اس غلط بل کوتسلیم کرلیا ہے۔ہمیں جمعے کوشام چھ بجے تک بل کی کاپی نہیں د ی گئی ،انہوں نے سپیکرکومخاطب کرتے ہوئے کہا میں نے آپ کے گھررابطہ کیاآپ کسی میٹنگ میں تھے جب کہ سیکرٹری اسمبلی سے بھی بات نہیں ہوسکی۔

لوکل گورنمنٹ کاایک سسٹم چل رہاہے آپ اس پراعتراض کرسکتے ہیں لیکن نیاایکٹ لانا انتہائی غلط ہے ۔بلدیاتی نمائندوں کے مینڈیٹ ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے۔اس بل کی تیاری میں کسی ماہرسے رائے نہیں لی گئی۔ لوکل گورنمنٹ سسٹم کوتجربہ گاہ بنا لیا گیا ہے۔اس کے جواب میں وزیرقانون نے کہا کہ ہم غلط قانون کوختم کررہے ہیں۔ن لیگ کے بلدیاتی نمائندے ہماراشکریہ اداکررہے ہیں۔

پورے لاہور میں آپ کے وائس چیئرمینوں نے حکومت کے شکریہ اداکرنے کے بینرزلگائے ہیں ۔آپ کی حکومت نے سال دوہزاردواورسال دوہزارتیرہ کاقانون ختم کیا اور آج ہمیں غلط کہہ رہے ہیں۔ہم بلدیاتی اداروں کی مدت تین سے چارسال کررہے ہیں۔لاڈ میئراورڈپٹی میئرکے لیے تعلیم کی شرط ختم کردی ہے۔لوکل گورنمنٹ کمیشن میں دوایم پیاے کی بجائے چارایم پی اے شامل کررہے ہیں اس بل کے تحت الیکشن ٹربیونل ایک سوبیس دن فیصلہ کرنے کاپابندہوگا۔

ن لیگ کے وارث کلونے کہا ہم نے سپریم کورٹ کے حکم پرلوکل گورنمنٹ کابل پاس کیاہمارے بل کوسپریم کورٹ کاتحفظ حاصل ہے ۔بلدیاتی نمائندوں کواپنی مدت پوری کرنے دینی چاہیے۔ن لیگ کے رکن ڈاکٹرمظہراقبال نے کہا کہ حکومت بلدیاتی نمائندوں کے حق پرڈاکہ ڈال رہی ہے۔جلدبازی میں ایک غلط قانون پاس کیا جا رہا ہے۔اپوزیشن کی ترامیم کومستردکرنااچھی روایت نہیں ہے۔

گورنرکی منظوری اورگزٹ نوٹی فکیشن ہوتے ہی بلدیاتی ادارے تحلیل ہوجائیں گے۔بلدیاتی ادارے تحلیل ہونے کے بعدبلدیاتی اداروں کاایک سال کے اندرانتخاب کروایاجائے گا،نئے انتخاب تک بلدیاتی اداروں میں ایڈمنسٹریٹرمقررہوں گے۔بلدیاتی اداروں کوچالیس ارب کابجٹ دیاجائے گا۔ بائیس ہزارولیج کونسل قائم ہوں گی ۔ایک سواڑتیس تحصیل کونسل کے انتخاب ہوں گے۔

منظورہونے والے نئے بل کے مسودے کے مطابق نئے نظام میں ویلج کونسل اورشہروں میں محلہ کونسل کاانتخاب غیرجماعتی بنیادوں پرہوگا ۔سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات کے لیے اپنے اپنے پینل دیں گی۔بل کی منظوری کے بعدضلع کونسل اوریونین کونسل کانظام ختم ہوجائے گا۔ولیج کونسل اورمحلہ کونسل میں فری لسٹ الیکشن ہوگا زیادہ ووٹ لینے والا چیئرمین ہوگا۔

زیادہ سے کم ووٹوں کی طرف عہدوں کی بالترتیب نمائندگی ہوگی۔بل کے متن میں تحریر ہے کہ لوکل گورنمنٹ تحصیل کونسل، ویلج کونسل،نیبرہڈ کونسل ، میونسپل کارپوریشن اورمیٹروپولیٹن پرمشتمل ہوگا۔ پنجاب کے ۹ ڈویژنل ہیڈ کواٹرزکومیٹروپولیٹن کادرجہ دیاجائے گا۔میٹروپولیٹن اسمبلی کی زیادہ سے زیادہ تعداد ۵۵اورکم سے کم آٹھ ہوگی۔بلدیاتی انتخابات میں میئراورسپیکرکے لیے تعلیم کی شرط ختم کردی گئی ہے۔

بلدیاتی اسمبلی کاسپیکرکنوینرکہلائے گا۔بل کے مطابق بلدیاتی اداروں کی مدت چارسال کردی گئی ہے۔بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوارکی کم سے کم عمرپچیس سال مقررکی گئی ہے۔اقلیتی علاقے میں اقلیتی نمائندہ ہی الیکشن لڑسکے گا،نوجوانوں کی مخصوص نشستیں ختم کردی گئی ہیں۔ولیج کونسل اورنیبرہڈ کونسل کی اسمبلیوں میں فیصلہ شوآف ہینڈ کے ذریعے ہوگا۔

پہلے اورآخری سال میئر،ڈپٹی میئراورچیئرمین کے خلاف عدم اعتمادنہیں ہوسکے گا۔بلدیاتی اداروں میں کوئی بھی ترقیاتی کام کرانے کے لیے قراردادلانی ضروری ہوگی۔
پنجاب اسمبلی سے منظورشدہ پی ٹی آئی بلدیاتی نظام منظوری کے لیے گورنرپنجاب کوبھیج دیاگیاہے۔بنیادی جمہوریت کے لیے بلدیاتی نظام کی اہمیت ہمارے جمہوری نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے۔

ہرحکومت نے اس نظام کواپنے سانچے میں ڈھالا۔ہرنئی حکومت کوسابقہ حکومت کاتشکیل کردہ لوکل گورنمنٹ سسٹم میں خامیاں ضرورنظرآئیں۔ہرنئی حکومت نے بلدیاتی سسٹم میں سابقہ حکومت کی غلطیوں کودرست کرکے نئے بلدیاتی نظام کومتعارف کرایا۔چاہیے تویہ تھا کہ بنیادی جمہوریت کے اس سسٹم کوگراس روٹ لیول پرجمہوریت کی مضبوطی کے لیے بروئے کارلایاجاتا۔

یہاں تواس سسٹم کوہرحکومت نے اپنے سیاسی مفادات کی آبیاری کے لیے ترتیب دیا۔چونکہ جب بھی کسی پارٹی کی نئی حکومت قائم ہوتی ہے تواس وقت کام کرنے والے بلدیاتی اداروں میں سابقہ برسراقتدارپارٹی کے بلدیاتی نمائندے کام کررہے ہوتے ہیں۔اس لیے ہرنئی حکومت کورواں بلدیاتی سسٹم اوربلدیاتی نمائندے پسندنہیں آتے۔ اس لیے وہ پسندکانظام لے آتے ہیں۔

پی ٹی آئی بلدیاتی نظام کے سلسلہ میں ابھی بہت سے سوالوں کے جوابات پس پردہ چھپے ہوئے ہیں۔بلدیاتی سسٹم پربحث کے دوران حکومتی وزیرنے کہا کہ لوکل گورنمنٹ سسٹم ہماری اناکامسئلہ بن چکاہے۔ اسمبلیوں میں قانون سازی یاترمیم کرتے وقت ذاتی یاسیاسی اناکومدنظررکھاجائے گاتواس کے کیااثرات مرتب ہوں گے اس کااندازہ آسانی سے لگایاجاسکتاہے۔ بلدیاتی نظام کوہردورحکومت میں بدلنے کاسلسلہ اب ختم ہوناچاہیے۔

تمام سیاسی پارٹیوں کے مابین جامع مذاکرات، تفصیلی بحث ومباحثہ اورمکمل اتفاق رائے سے تمام سیاسی پارٹیوں کے لیے قابل قبول بلدیاتی نظام تشکیل دیاجائے۔بہترتویہ ہے کہ بلدیاتی نظام غیر سیاسی بنایاجائے۔ ان اداروں کی تشکیل، تحلیل اوردرستگی کے لیے ایسانظام وضع کیاجائے جس میں کسی بھی سیاسی پارٹی کی مداخلت نہ ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :