
وزیر اعلیٰ پنجاب کے شہر کے ٹیچنگ ہسپتال کی حالت زار
ہفتہ 12 جنوری 2019

محمد سکندر حیدر
جہاں انسانوں کی زندگیوں کو بچانا چاہیے تھا وہاں اب مریضوں میں انتظامی اور پیشہ وار انہ نااہلیت کی بناپر موت بانٹی جارہی ہے۔ڈی ایچ کیو ہسپتال سے اِس کی ٹیچنگ ہسپتال اپ گریڈیشن پر اب (جون2018 ( تک کم و بیش تقریبا ً993.359ملین روپے خرچ ہو چکے ہیں ۔مگر تاحال ٹیچنگ ہسپتال کی سہولیات سے عوام محروم ہے اور 2014سے جاری یہ اپ گریڈیشن تاحال پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکی حالانکہ وزیر اعلی ٰپنجاب، مشیر صحت پنجاب ، سیکٹریری ہیلتھ ، کمشنر اور ڈپٹی کمشنر ڈیرہ غازیخان گاہے بگاہے عوام کو خوشخبری سُنا تے رہتے ہیں کہ فلاں تاریخ تک یہ اپ گریڈیشن مکمل ہو جائے گی۔
(جاری ہے)
14ستمبر 2018کو جب ڈاکٹر عتیق الرحمان چستی کو انتظامی بنیاد کے جواز پر ٹیچنگ ہسپتال ڈیرہ غازی خان کی میڈیکل سپریٹنڈنٹ کی سیٹ سے ہٹایا گیا تھا۔ اُس وقت حکومتی عہدہ داروں اور چند مفاد پرست عناصر کی جانب سے یہ آواز گونجی تھی کہ ٹیچنگ ہسپتال کرپشن کا گڑھ بن چکا تھا۔ اِس لیے ڈاکٹر عتیق الرحمان ، سپریٹنڈنٹ ضیا ء اللہ اور اکاؤنٹنٹ نذر حسین جڑھ کا تبادلہ کیا گیا ہے۔ بے شک جو بھی کرپشن کرئے اُ س کو اب نشان عبرت بنا دینا چاہیے مگر سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ تقریبا ًچار ماہ کا عرصہ بیت چکا ہے کرپشن کی مکمل کہانی منظر عام پر کیوں نہیں لائی جارہی؟آخر اِن تینوں سرکاری ملازمین کے خلاف کرپشن کی تحقیقات کہاں تک پہنچی ہیں اور اِس معاملے پرہونے والی پیش رفت کو عوام کے سامنے کیوں نہیں لایا جار ہا۔ ؟ اگر انہیں کسی گیم پلان پر نکالا گیا ہے توبا عزت نوکری کرنا ہر سرکاری ملازم کا حق ہے ۔ اگر کرپشن ثابت نہیں ہو رہی تو انہیں واپس لایا جائے۔
ڈاکٹر عتیق الرحمان چستی کے بعد ڈاکٹر عقیل احمد افغان کو اضافی چارج دیا گیا مگر فقط د د ہفتوں میں ایک ایم پی اے کا فون نہ سننے کی پاداش میں اُ س کو بھی ہٹا دیا گیا ۔ اُس کے بعد ڈاکٹر گل حسن شاہ کو اضافی چارج سونپا گیا ۔ پھر شور گونجا کہ اب حکومت پنجاب باقاعدہ انٹرویو کرئے گی اور میرٹ پر ایک قابل ترین ماہر منتظم ڈاکٹر کو میڈیکل سپریٹنڈنٹ تعینات کیا جائے گا۔ چند دنوں بعد انٹرویو کی صدا سُنی گئی مگر13نومبر 2018کو ایک ایسے ڈاکٹرشا ہد سلیم کو یہاں ایم ایس تعینات کر دیا گیاجو اُمیدواران انٹرویو میں شامل بھی نہیں تھا۔ یہ وہ پہلی آہٹ تھی جس نے میرٹ کو پامال کیا اور چغلی کھائی کہ دال میں کچھ کالا ہے۔
نئے سال کا آغاز ہو چکا ہے۔ پی ٹی آئی کا ہنی مون پیریڈ بھی ختم ہو چکا ہے اورکسی بااثر سیاسی فرد کا منظور نظر ڈاکٹر شاہد سلیم سربراہ ٹیچنگ ہسپتال بھی بن چکا ہے مگر عوام آج بھی مایوس ہے اور صحت و زندگی کی تلاش میں موت کے صحرا میں گم ہو رہی ہے۔ اِس ہسپتا ل کا ریکار ڈ ہے کہ یہاں کسی بھی نامور مریض کا علاج نہیں کیاجاتا ہے اُس کو فوری طورپر ملتان شفٹ کر دیا جاتا ہے۔ اِس ہسپتال میں شفا پانے والے مریض ہسپتال انتظامیہ کی مہربانی سے نہیں بلکہ شفا منجانب اللہ سے ہی شفا پا رہے ہیں۔یہاں کوئی مریض موت کے منہ سے بچ جائے تو یہ اُس کی اپنی قسمت ہوتی ہے۔
گذشتہ ایک ہفتہ میں ایک صحافی کی خالہ، پی ٹی آئی رہنما راشد بخاری، شیخ توقیر وحید سمیت دیگر کئی نامورافراد اِس ہسپتال کی غفلت کی بناپر زندگی کی بازی ہا ر چکے ہیں۔ اگر انہیں بروقت درست علاج معالجہ ملا جاتا تو یقینی طورپر وہ بچ سکتے تھے۔ مگر یہاں کا مافیا بہت طاقتور ہے۔ نجانے روز کتنے لوگ جنہیں ہم نہیں جانتے وہ سسک سسک کر یہاں مر رہے ہیں۔ ہر بار مخصوص قسم کی شکایات بیان کی جاتی ہیں مثلاً سینئر ڈاکٹر کال پر پہنچ نہیں سکا۔ ادویات کی قلت تھی اور سہولیات کا فقدان ہے۔
ہر سال حکومت پنجاب اِس ہسپتال کے بجٹ میں اضافہ کر رہی ہے۔ امسال اِس ( ڈی جی خان میڈیکل کالج بشمول ٹیچنگ ہسپتال ) کاسالانہ بجٹ02 ارب 40کروڑ 98لاکھ 10ہز ار روپے کر دیا گیا ہے جوکہ گذشتہ سال کی نسبت 56کروڑ 85لاکھ اور 88ہزار روپے زیادہ ہے۔یہی بجٹ تمام کرپٹ مافیا کے لیے کشش کا باعث ہے۔ افسران بدل رہے ہیں مگر کرپشن کا دھندہ آج بھی حسب سابق جاری ہے۔ ہسپتال کی ادویات کی خریداری میں بے ایمانی کی جاری ہے۔ لوکل پرچیز کی ادویات سے من پسندافراد کو سرعام نوازا جا رہا ہے۔ معززین کی ایک طویل فہر ست ہے جو مفت ادویات سے فیض یا ب ہور ہے ہیں۔ پرچیز کمیٹیاں برائے نام رہ گئی ہیں۔ ٹھیکہ جات کو شاہی اندازمیں قو انین کو بالائے طاق رکھ کر من پسند افراد کو نواز ا جا رہا ہے۔ ہسپتال کا سٹاف حسب سابق اپنی اجارہ داری برقرار رکھے ہوئے ہے۔
ایم ایس ڈاکٹر شاہد سلیم کے کردار اور زبان پر سوالات جنم دے گئے ہیں۔ نرسنگ طالبات نے ایم ایس آفس کے سامنے دن دیہاڑے احتجاج کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر ڈیرہ غازیخان کو تحریری طور پر ہسپتال میں گرتی ہوئی اخلاقی قدروں کی نشاندہی کی ہے۔ تمام الیکڑانک اور پرنٹ میڈیا پر سٹوڈنٹس کے احتجاج اور مظاہرہ کا ریکارڈ موجود ہے مگر کمال تو یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار اور مشیر صحت پنجاب محمد حنیف خان پتافی بھی خاموش ہیں۔
نئے پاکستان میں عوام کو جو خواب دکھائے گئے تھے اُن خوابوں میں کرپشن کے ناسور کے خاتمہ کا ایک دعوی بھی تھا مگر طالبات کے احتجاج نے تو ہسپتال میں اخلاقی پستی کو بے نقاب کرکے تبدیلی کے دعوی داروں کو شرمندہ کرکے رکھ دیا ہے۔نئے پاکستان کی راہ پر گامزن قوم اب کس کواپنارہبر کرئے اور کس کو راہزن قرار دے ۔کچھ سمجھ نہیں رہا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد سکندر حیدر کے کالمز
-
مجرم بنانے والی تربیت گاہیں
بدھ 9 جون 2021
-
کرپشن کی کہانیاں
جمعرات 18 فروری 2021
-
پنجاب پولیس کا ناکام احتسابی نظام اور کورٹ مارشل کی صدا
منگل 17 نومبر 2020
-
وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف بیورو کریسی کی کارستانی
ہفتہ 26 ستمبر 2020
-
زمین پر کرپشن پھیلانے کا جرم
پیر 14 ستمبر 2020
-
سردار عثمان خان بزدار کا فخر کوہ سلیمان سے فخرپنجاب تک کا دو سالہ سفر
منگل 8 ستمبر 2020
-
کورونا وائرس فنڈز میں کرپشن کی گونجیں
منگل 1 ستمبر 2020
-
باڈر ملٹری پولیس ڈیرہ غازی خان میں 20سال بعد ملازمین کی ترقیاں اور کرپٹ مافیا
بدھ 4 دسمبر 2019
محمد سکندر حیدر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.