مکتوب بنام سعودی فرماں رواسلمان بن عبدالعزیز

ہفتہ 25 ستمبر 2021

Muhammad Sohaib Farooq

محمد صہیب فاروق

سعودی عرب میں 23ستمبرکویوم تاسیس کے طورپرمنایاجاتاہے اس قومی دن کاپس منظر یہ ہے کہ 20مئی 1927ء کوبرطانیہ نے معاہدہ جدہ کے تحت حجازونجدسے موسوم تمام مقبوضہ علاقوں پر آل سعود کی حکومت کوتسلیم کرلیابعدازاں 23ستمبر1932ء کو عبدالعزیز بن سعود کی فرمانروائی کے دورمیں آل سعود کے زیرحکومت حجازونجد کے اس علاقہ کومملکت سعودی عرب کانام دے دیاگیا،شاہ عبداللہ نے اس دن کوسعودی قومی دن قراردیااس دن ملک بھرمیں عام تعطیل ہوتی ہے مختلف تقریبات کا انعقادکیاجاتاہے۔


عالم اسلام کے دینی و روحانی مرکز سعودی عرب کے ساتھ بنا ء کعبہ سے آج تلک ہر مسلمان کی غیرمتزلزل ایمانی وابستگی ہے، مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ کی پاکیزہ مٹی ہماری آنکھوں کا سرمہ ہے ، وہاں کے در ودیوار اور باشندگان کی عافیت وسلامتی کے لیے کمزور سے کمزور ایمان والا مسلمان بھی ہر لمحہ دعا گو ہے، تاہم گذشتہ چند برسوں سے وہاں کے موجودہ حکمرانوں کی وژن 2030 ء کے عنوان سے غیر اسلامی سرگرمیوں نے عالم اسلام کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ” چوں کفر از کعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی “ ترجمہ ( جب کفر کعبہ سے اٹھنے لگے تو مسلمانی کہاں باقی رہے گی )۔

(جاری ہے)

پورا عالم اسلام سعودی عرب کو جناب نبی کریم ﷺکیزمانہ نبوت کے پسِ منظر میں آج بھی اہل اسلام کی قیادت کامستحق ٹھہراتا ہے مگر بدقسمتی سے موجودہ سعودی فرماں روا خود امامت کے فرائض منصبی سرانجام دینے کی بجائے امریکہ و اسرائیل کی اقتدا ء کرنے پر بضد ہیں،ہر دن دین اسلام سے متصادم نئے سے نیاقانون حرمین شریفین کی حرمت کے لیے چیلنج بنتا چلا آرہا ہے آج سے 31 سال قبل 1990 ء میں برصغیر کے ایک دوراندیش عظیم مفکر وداعی مولاناسید ابوالحسن ندوی نے اس وقت کے سعودی فرماں روا فہد بن عبدالعزیز کے نام ایک خط لکھا تھا جس میں امت مسلمہ ، جزیرة العرب کی اخلاقی ، معاشرتی اور سیاسی بدحالی کے علاوہ بالخصوص سعودی عرب میں اسلام کو درپیش خدشات کا اظہار کیا۔

آج 31 برس بعد جب کہ حالات پہلے سے ہزارگنا زیادہ سنگین ہو چکے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ سید ابوالحسن ندوی کے اس سابق مکتوب کو پھر کوئی ملک سلمان بن عبدالعزیزاورشہزادہ محمدبن سلمان تک پہنچا کر انہیں غور و فکر کی دعوت دے ،مذکورہ بالاخط کامضمون درج ذیل ہے ۔۔مولانا سید ابوالحسن ندوی لکھتے ہیں۔”اس وقت عالمِ اسلام عموماً اور جزیرة العرب اور اور بلادِ مقدّسہ خصوصاً ایسے سنگین اور فیصلہ کن مرحلہ سے گزر رہے ہیں، جس کا مقابلہ کرنے اور اس کے ازالہ کی کوشش میں ایک لمحہ کی بھی تاخیر کی گنجائش نہیں، اور نہ کسی امکانی جد وجہد سے گریز ممکن ہے، صورت حال اس حد تک سنگین ہے، جس کی تصویرآیت قرآنی : ”اذا بلغت التراق وقیل من راق“ (القیامہ:۵۲-۶۲) جب جان گلے تک پہنچ جائے اور لوگ کہنے لگیں (اس وقت) کون جھاڑ پھونک کرنے والا ہے؟) سے بہتر کھینچی نہیں جاسکتی۔

اس وقت تمام اسلامی ملکوں اور قوموں کے اندر دو ایسے خلا پائے جاتے ہیں، جنہوں نے مسلمانوں کے وجود، دعوتِ اسلامی کی پیش رفت وترقی، انسانوں کے قلب وعقل کو مسخّر کرنے؛ بلکہ اس دعوت کے متعلق غور وفکر کرنے پر آمادگی میں بڑی زبردست رکاوٹیں پیدا کردی ہیں، اس سے آگے بڑھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس خلا نے مسلمانوں میں تہذیبی ارتداد اور عقائد وسلوک میں انحراف اور فساد کا خطرہ پیدا کردیا ہے، اس لیے فوری طور پر اس خلا کو پْر کرنا ضروری ہے۔

پہلا بنیادی خلا ایسے مثالی معاشرہ (سوسائٹی) کا فقدان ہے جو اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہو، اور عقائد واخلاق سے لے کر معاملات اور زندگی کے تمام شعبوں میں وہ اسلامی تعلیمات کا آئینہ دار ہو، انسان اس فضا اور ماحول میں امن وسکون اور طمانیتِ قلبی محسوس کرے کہ یہ معاشرہ خوشیوں اور خوش بختیوں کا گہوارہ اور ایسی جنت ہے، جہاں وہ اسلامی تعلیمات، اعلی اخلاقی قدروں کو کارگر، قیادت میں سرگرم عمل، اور اسلام کو چلتے پھرتے اور بولتے دیکھ رہا ہے، مسجد سے لے کر بازار، عدالت سے لے کر گھروں تک اور عقائد سے لے کر معاملات تک میں اسلام کی حکمرانی ا ور اسی کی چھاپ ہے، افسوس ہے کہ یہ مثالی معاشرہ ایک تاریخی یادگار اور قصّہ ماضی بن کر رہ گیا ہے، جو تاریخ کی کتابوں میں دیکھا جاسکتا ہے، اس وقت ایسے اسلامی معاشرہ کو دوبارہ بحال کرنا اسلام ہی کی نہیں پوری دنیا کی اولین اور بنیادی ضرورت ہے۔

یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ سعودی حکومت ہی ایسے اسلامی معاشرہ کو قائم کرنے کی زیادہ اہل اور اس پر قادر ہے کہ اس کا خمیر ہی اسلامی دعوت سے تیار ہوا ہے، اور اس کا نشوونما بھی اسی ماحول میں ہوا ہے، اللہ تعالی کی فتح ونصرت بھی اس کے ہم رکاب رہی ہے، پھر اللہ تعالی نے محض اپنے فضل وکرم سے بلاد مقدسہ اور حرمین شریفین کی تولیت ونگرانی کا شرف بھی اس کو عطا کیا ہے، جہاں حج کی بدولت ہرسال دنیا کے گوشہ گوشہ سے مسلمان آیا کرتے ہیں، اس لئے تمام قوموں کی نگاہیں سعودی عرب کی حکومت پر لگی ہوئی ہیں۔

عالم اسلام کا دوسرا خلا کسی ایسی طاقتور اور مومنانہ دعوت وقیادت کا فقدان ہے، جس کے اندر مردانگی کا جوہر، بلند نگاہی، عالی ہمتی، دور اندیشی وپیش بینی کے ساتھ، ان بڑی طاقتوں کا سامنا کرنے کی صلاحیت اور قدرت بھی ہو، جنہوں نے بغیر کسی جواز واستحقاق کے نوع انسانی کی زمامِ قیادت اپنے ہاتھ میں لے رکھی ہے، اور جو اسلامی ملکوں اور قوموں کی قسمتوں کی مالک بن بیٹھی ہیں، اسی کے ساتھ اس اسلامی قیادت میں ایثار وقربانی، جرات وشجاعت کی روح، صبر واستقلال کے جذبہ اور شوق سے سرشار ہونا، نیز زہد وتقشف کے ساتھ (اگر ضرورت ہو اور حالات کا تقاضہ بھی تو) خطرات میں کود پڑنے کی ہمت اور طاقت بھی رہنی چاہئے، کیونکہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ قوی ایمان، بے مثال جراء ت وشجاعت اور جراتمندانہ اقدامات سے متاثر ہوتا ہے، اور اس کا ثناخواں بن جاتا ہے،
بڑی طاقتوں کو للکارنے (خواہ کھوکھلے نعروں اور پروپیگنڈوں کے لیے ہو) کا بھی نفسیاتی اثر پڑتا ہے، اور لوگوں کے عقیدے اور رجحانات اس سے متاثر ہوتے ہیں، پھر اس طرح کا مظاہرہ کرنے والے اگر الحاد وگمراہی کے علمبردار ہوئے (چہ جائیکہ وہ اپنے طور طریقہ میں انحراف کا شکار ہوں) اور اْن کا تعلق کسی ملحدانہ فکر یا فلسفہ یا کسی صلیبی سازش سے ہے، تو یہ چیز عوام کے فکر وعقیدہ میں تزلزل پیدا کردیتی ہے، اور وہ بعض اوقات الحاد کا شکار ہوجاتے ہیں، اس لیے کہ لوگ خاص طور سے (نوجوانوں کا اولو العزم طبقہ جو ان عالمی طاقتوں کو ناپسند کرتا ہے، جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہرسازش اور منصوبہ بندی اور ہر کوشش میں مئوید اور مددگار ہوتی ہیں) ہر اس شخص کا گرم جوشی سے استقبال کرتا ہے، جو بہادری کے ساتھ ان طاقتوں کے سامنے آئے، خواہ وہ کھوکھلا چیلنج ہو یا صرف زبانی جمع خرچ ہو، یہ چیز اْن کے عقیدہ پر بھی اثر انداز ہوتی ہے، اس میں شبہ نہیں کہ کسی معقول تدبیر وانتظام کا اپنی جگہ نہ ہونا، یا کسی ضروری چیز کا خلا غیر طبعی ہے، اور وہ زیادہ عرصہ تک باقی نہیں رہ سکتا۔

اس خلا کو پْر کرنا بہت ضروری ہے، اس طرح بڑی طاقتیں جس طرح عالمی سیاست میں دخل اندازی کرتی ہیں، اور اسلامی ملکوں کی سیاست وقیادت پر اثرانداز ہوتی ہیں، اْن کی قوت وتاثیر سے غصہ وجھنجھلاہٹ کے شکار، اور اکتائے ہوئے نوجوانوں کو دور رکھنا اور بجائے مْلحد وبے دین قائدین اور اصحاب اقتدار کے مخلص ودیندار اور قلب سلیم رکھنے والے قائدین وحکام کی طرف اْن کو متوجہ کرنا وقت کا اہم تقاضہ ہے، چونکہ مملکت سعودیہ عربیہ فاسد عقائد اور شرک وبدعت کی بْرائیوں سے پاک وصاف اور صحیح اسلامی عقیدہ کی حامل ہے، اس کے ساتھ اللہ تعالی نے اس کو حرمین شریفین کی خدمت اور تولیت کا شرف بھی عطا فرمایا ہے، اس لیے وہی اس بنیادی خلا کو آسانی سے پْر کرسکتی ہے، اور آپ جیسی شخصیت جس کو اللہ تعالی نے شرافتِ وطن وشرافتِ منصب دونوں نعمتیں عطا فرمائی ہیں، یہ کام انجام دے سکتی ہے، اس لیے کہ آپ کے خاندان کی قدیم وجدید تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس نے اللہ تعالی پر توکل کیا ہے، اور اس کی کتاب کو حَکَم بنایا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور طریقہ پر عمل پیرا ہونے کا اہتمام کیا ہے۔

(کاروان زندگی، حصہ:۵،)۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :